سیرت صحابیات سیریز(۱)

ام المومنین حضرت خدیجۃالکبریؓ حضورؐ کی غمگساراور دشوار گزار مراحل کی ساتھی عظیم خاتون

خدیجہ نام، ام ہند کنیت اور طاہرہ لقب تھا۔حضرت خدیجہؓ کے والد خویلد بن اسد ایک کامیاب تاجر تھے اور نہ صرف اپنے قبیلے میں بڑی باعظمت شخصیت کے مالک تھے بلکہ اپنی خوش معاملگی و دیانت داری کی بہ دولت تمام قریش میں بے حد ہر دل عزیز اور محترم تھے۔
حضرت خدیجۃ الکبریؓ عام الفیل سے پندرہ سال قبل ۵۵۵ عیسوی میں پیدا ہوئیں۔ بچپن ہی سے نہایت نیک اور شریف الطبع تھیں۔ جب سن شعور کو پہنچیں تو ان کی شادی ابو ہالہ ہند بن بناش تمیمی سے ہوئی۔ ابو ہالہ سے ان کے دو لڑکے ہوئے۔ ایک کا نام ہالہ تھا جو زمانہ جاہلیت ہی میں مرگیا۔ دوسرے کا نام ہند تھا۔ بعض روایتوں کے مطابق ان کو شرف صحابیت حاصل ہوا۔
ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہؓ کی دوسری شادی عتیق بن عابد مخزومی سے ہوئی۔ ان سے بھی ایک لڑکی پیدا ہوئی ، جس کا نام ہند تھا۔ کچھ عرصے بعد عتق بن عابد بھی فوت ہوگئے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت خدیجہؓ کا تیسرا نکاح ان کے ابن عم صیفی بن امیہ کے ساتھ ہوا اور ان کے انتقال کے بعد انہیں جناب رسول کریم (ﷺ) کا شرف زوجیت اصل ہوا۔ لیکن بعض دوسری روایتوں میں ہے کہ خدیجۃ الکبریؓ کا تیسرا اور آخری نکاح جناب رسول کریمؐ ہی سے ہوا۔
نبی کریمﷺ کے حبالہ زوجیت میں آنے سے پیشتر حضرت خدیجۃ الکبریؓ اپنی بیوگی کے ایام خلوت گزینی میں گزار رہی تھیں۔ وہ اپنا کچھ وقت خانہ کعبہ میں گزارتیں اور کچھ وقت زمانے کی معزز کاہنہ عورتوں میں صرف کرتیں اور ان سے زمانے کے انقلاب پر وقتاً فوقتاً بحث کیا کرتیں۔ قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے انہیں نکاح کے پیغامات بھیجے لیکن انہوں نے سب رد کردیے کیوں کہ پے درپے صدمات نے ان کی طبعیت دنیا سے اچاٹ کردی تھی۔
ادھر ان کے والد ضعف پیری کی وجہ سے پنی وسیع تجارت کے انتظام سے عاجز آگئے۔ نرینہ اولاد کوئی زندہ نہ تھی۔ تمام کام اپنی ذہین اور عاقلہ بیٹی کے سپرد کرکے خود گوشہ نشین ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
خدیجۃ الکبریؓ نے تمام کاروبار تجارت نہایت احسن طریقے سے جاری رکھا۔ اس وقت ان کی تجارت ایک طرف شام میں پھیلی ہوئی تھی دوسری طرف اطراف یمن میں۔ اس وسیع کاروبار کو چلانے کے لیے انہوں نے ایک بڑا عملہ رکھا ہوا تھا جو متعدد عرب ، یہودی اور عیسائی ملازموں اور غلاموں پر مشتمل تھا۔ حسن تدبیر اور دیانت داری کی بہ دولت ان کی تجارت روز بہ روز ترقی کررہی تھی اور اب ان کی نظریں ایک ایسے شخص کی متلاشی تھیں جو بے حد قابل، ذہین اور دیانت دار ہو تاکہ وہ اپنے تمام ملازمین کو اس کی سرکردگی میں تجارتی قافلوں کے ہم راہ باہر بھیجا کریں۔ چنانچہ آپ کی نظر انتخاب حضورؐ پر پڑی اور پھر حضورؐ نے تجارت میں حضرت خدیجہؓ کی خوب معاونت کی ۔
حضورؐ سے نکاح کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریؓ تقریباً ۲۵ سال (یعنی نزول وحی کے تقریباً ۹ سال بعد) زندہ رہیں۔ اس مدت میں انہوں نے رسولﷺ کے ساتھ ہر قسم کے روح فرسا مصائب کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آقائے دو جہاں ﷺ کی رفاقت اور جان نثاری کا حق ادا کردیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے اسلام لانے کے بعد سرور کائناتؐ کے متعلقین میں بھی اسلام کی تڑپ پیدا ہوئی۔ نوجوانوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہ، بڑوں میں حصرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ سب سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد دوسرے سعید الفطرت اصحاب بھی آہستہ آہستہ حلقہ اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے۔ حضرت خدیجہؓ کو اسلام کی وسعت پذیری سے بے حد مسرت حاصل ہوتی تھی اور وہ اپنے غیر مسلم اعزہ و اقارب کے طعن و تشنیع کی پروا کیے بغیر اپنے آپ کو تبلیغ حق میں رسول اللہؐ کا دست و بازو ثابت کررہی تھیں۔ انہوں نے اپنا تمام زر و مال اسلام پر نثار کردیا اور ان کی ساری دولت یتیموں اور بیواوں کی خبر گیری ، بیکسوں کی دستگیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کے لیے وقت ہوچکی تھی۔ ادھر کفار قریش نو مسلموں پر طرح طرح کے مظالم ڈھارہے تھے اور تبلیغ حق کی راہ میں ہر طرح کے روڑے اٹکارہے تھے۔ انہوں نے رحمت عالمؐ اور آپؐ کے جاں نثاروں کے ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔
جب حضورﷺ کفار کی لا یعنی اور بیہودہ باتوں سے کبیدہ خاطر ہوتے تو خدیجۃ الکبریؓ عرض کرتیں: ’’ یا رسول اللہؐ آپ رنجیدہ نہ ہوں۔ بھلا کوئی ایسا رسول بھی آج تک آیا ہے، جس سے لوگوں نے تمسخر نہ کیاہو‘‘۔ حضرت خدیجہؓ کے اس کہنے سے حضورؐ کا ملال طبع دور ہوجاتا تھا۔ غرض اس پرآشوب زمانے میں حضرت خدیجۃ الکبریؓ نہ صرف حضورؐ کی ہم خیال اور غم گسار تھیں بلکہ ہر موقعے پر ہر مصیبت میں آپؐکی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں۔ حضورؐفرمایا کرتے تھے:
’’میں جب کفار سے کوئی بات سنتا تھا اور وہ مجھ کو ناگوار معلوم ہوتی تھی تو میں خدیجہؓ سے کہتا وہ اس طرح میری ڈھارس بندھاتی تھیں کہ میرے دل کو تسکین ہوجاتی تھی، اور کوئی رنج ایسا نہ تھا جو خدیجہؓ کی باتوں سے آسان اورہلکا نہ ہوجاتا تھا‘‘۔
حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی یہی ہم دردی ، دل سوزی اور جان نثاری تھی کہ حضورؐان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ جب تک وہ زندہ رہیں حضورؐنے کوئی دوسرا نکاح نہ فرمایا۔ حضرت خدیجہؓ جہاں اولاد کی پرورش نہایت حسن و خوبی سے کررہی تھیں وہیں امور خانہ داری کو نہایت سلیقہ سے نباہتی تھیں اور باوجود تمول و ثروت کے حضورؐکی خدمت خود کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیلؑ حضورؐ کے پاس تشریف لائے اور کہا : ’’خدیجہ برتن میں کچھ لارہی ہیں آپ ان کو اللہ کا اور میرا سلام پہنچادیجیے‘‘۔
سرور عالمﷺ سے حضرت خدیجہؓ کی عقیدت اور محبت کی یہ کیفیت تھی کہ بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد حضورؐ نے جو کچھ فرمایا انہوں نے ہمیشہ اس کی پر زر تائید و تصدیق کی۔ اسی لیے حضورؐ ان کی بے حد تعریف و تحسین فرمایا کرتے تھے۔
۷ بعد بعثت میں مشرکین قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو شعب ابی طالب میں محصور کیا تو حضرت خدیجہؓ بھی اس ابتلا میں سرور عالمﷺ کے ساتھ تھیں، وہ پورے تین برس تک اس محصوری کے روح فرسا آلام و مصائب بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ جھیلتی رہیں۔
۱۰بعد بعثت میں یہ ظالمانہ محاصرہ ختم ہوا لیکن اس کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریؓ زیادہ دن زندہ نہ رہیں۔ رمضان المبارک میں (یا اس سے کچھ پہلے ان کی طبعیت ناساز ہوئی۔ حضورؐ نے علاج معالجہ اور تسکین و تشفی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا لیکن موت کا کوئی علاج نہیں۔ ۱۱ رمضان ۱۰ نبوی کو انہوں نے پیک اجل کو لبیک کہا اور مکہ کے قبرستان میں دفن ہوئیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً ۶۵ برس کی تھی۔
حضرت خدیجۃ الکبری ؓ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو چھ لڑکے لڑکیاں دیں۔ سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے، جو کم سنی میں انتقال کرگئے۔ پھر زینبؓ ، ان کے بعد عبداللہ، وہ بھی صغر سنی میں فوت ہوگئے (ان کا لقب طیب اور طاہر تھا) پھر رقیہؓ ۔ پھر ام کلثومؓ پھر فاطمۃ الزہرؓ پیدا ہوئیں۔
حضرت خدیجۃ الکبری ؓ کے مناقب میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021