آئینــــہ

شخصی عظمت کی خوش فہمیاں ختم کرنے والی ایک مؤثر تحریر

ڈاکٹر محمود داؤد۔ نگینہ، بجنور

آج میری پوری رات آنکھوں ہی میں گزری۔ میں ایک پل کے لیے بھی نہیں سو سکا۔ اگر کوئی کتاب بھی پڑھنا چاہی تو وہ بھی نہیں پڑھ سکا۔ خوشی ایسی چیز ہے جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو نیند بھی لے اڑتی ہے۔ غم کا بھی کم و بیش یہی معاملہ ہے۔ مگر بات یہاں یہ تھی کہ جلسہ میں مجھ ہی کو سب سے زیادہ اعزاز بخشا گیا تھا۔ ایک وقت تھا جب شہر تو کیا محلہ میں بھی مجھے کوئی اچھی طرح نہیں جانتا تھا اور آج حال یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی دعوت نامہ روزانہ نہیں تو دوسرے تیسرے دن تو آتا ہی رہتا ہے۔ بیاہ شادی میں بلاوا تو بالکل ایک عام بات ہوکر رہ گئی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ محلے ہی کے لوگ نہیں شہر کے ہر سطح کے معروف حضرات سیاسی ہوں کہ سماجی ومذہبی ہوں یا علمی سب سے میرا ربط ہے۔ چھوٹے بڑے بزنس مین (تجار) کارخانے دار، امپورٹر ایکسپورٹر، اسکول وکالجز کے مینیجر وپرنسپل الحمدللہ سب سے ہی دید شنید اچھی خاصی ہو گئی ہے۔ نگر پالیکا کے چیرمین کیا ایم ایل اے و ایم پی بھی یاد رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار حکام سے کام پڑ جاتا تو ناکامی کا منہ دیکھنا نہیں پڑتا اور اب تو داروغہ جی بھی مجھے خوب اچھی طرح پہچاننے لگے ہیں اور بڑی خندہ پیشانی سے میرے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ یہ ہی سب باتیں سوچ سوچ کر میں کروٹیں بدلتا رہا اور اپنی قسمت پر ناز کرتا رہا۔ تعلقات اور جان پہچان جیسی بڑی دولت میرے ہاتھ لگ گئی تھی تو نیند کیوں آتی۔ نیند اور مجھ میں گویا خدا واسطے کا بیر پڑ گیا۔
میں نے گھڑی دیکھی رات کے دو بج رہے تھے۔ میں پنکھے کی ہوا سے نکل کر باہر صحن میں آگیا اور کھری چار پائی پر تکیہ رکھ کر لیٹ گیا۔ بڑی ٹھنڈی اور خوش گوار ہوا اور اوپر پوری آب وتاب سے چمکتا ماہتاب ان سب سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ایسا لگتا تھا نیند کوسوں دور نکل گئی ہے۔ سوچا چلو آج تارے ہی گنیں یہ کوشش بھی بے سود ثابت ہوئی۔ آخر پھر کتابوں کی الماری کھولی۔ لاؤ! نیند لانے کا مطالعہ ہی کا پرانا نسخہ آزمایا جائے۔ الماری سے کتاب نکالی حسن اتفاق کہ کتاب احادیث مبارکہ پر مشتمل تھی۔ بس یوں ہی کھول کر پڑھنے لگا۔ آدھا ہی صفحہ پڑھا تھا کہ نظر اس حدیث مبارکہ پر آکر ٹک گئی۔ لکھا تھا:
’’غربا ومساکین سے محبت کرو اور ان کے پاس بیٹھو‘‘
میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ غریبوں سے محبت کرو اور ان کا قرب اختیار کرو ان کے پاس بیٹھو۔ میرے ہاتھ سے کتاب چھوٹ گئی۔ میں تو غریبوں کو جانتا ہی نہیں۔ نہ قریب کے نہ دور کے۔ ذرا میرے حالات کیا بدلے میں تو سب سے ناتہ توڑ بیٹھا ہوں۔ بہن صغریٰ کے پاس بھی گئے ہوئے مہینے ہو گئے۔ ایک دن وہ اپنی خستہ دیوار کے بارے میں کہہ رہی تھی اور میں نے اس کی دکھ بھری بات سنی ان سنی کر دی تھی۔ آس پاس کے کتنے ہی غریب لوگ مجھے سلام کرتے ہیں مگر میں ایک کو بھی سیدھے منہ جواب نہیں دیتا۔ بھائی عرفان کے انتقال کے بعد میں ایک دن بھی ان کی بیوہ کے پاس نہیں گیا۔ ایک وہی کیا اس ایک سال میں چھ سات موتیں ہوگئی ہوں گی مگر میں سوائے اپنے وارڈ کے ممبر کے بھتیجے کے کسی کے جنازے میں بھی نہیں گیا۔ مجھے معلوم ہی نہیں کہ میرے محلے اور پڑوس میں کتنی بیوائیں ہیں۔ ان کی گزر بسر کا کیا حال ہے۔ نہ مجھے یہ ہی معلوم کہ ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت کا کیا ہو رہا ہے۔
اگر کوئی مجھ سے اپنے پڑوس یا محلے کے بیوگان، یتامیٰ اور پریشان حال لوگوں کی تعداد معلوم کرنے لگے تو خفت کے ساتھ منہ چھپانے کے میرے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔ اس سال کتنے بچے کس کلاس میں پاس ہوئے کتنے رہ گئے کتنوں نے تعلیم بیچ میں چھوڑ دی مجھے کچھ پتہ نہیں۔ کئی روز ہو گئے چائے کے ہوٹل پر ویسے ہی ذکر ہو رہا تھا چھٹوا پہلوان کی لڑکی اپنی سسرال میں جل گئی تھی اس کا خاوند اسے اس کی بیوہ کے ماں کے پاس ایسا ڈال گیا جیسے جانور کی اوجھ ہو۔ میں تو اس کو بھی پوچھنے نہیں گیا۔ اس بیوہ کے گھر میں تو کواڑ بھی نہیں ہیں بس دروازے پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ وہ اپنی بیٹی اور وہ بھی جلی ہوئی کا علاج کا کیسے کروا رہی ہو گی۔ رشو کی ماں کئی بار آئی۔ بھائی رشو کے ابا تمہیں بہت یاد کر رہے ہیں۔ جب سے فالج گرا ہے کوئی دن جاتا ہو گا جو مجھ سے تقاضا نہ کرتے ہوں ذرا بھائی کو بُلا دو۔ میں ایک بار بھی اس کے یہاں نہیں گیا جبکہ دروازے سے دروازہ لگا ہے اور گیا تو کہاں گیا شیخ نثار کو پوچھنے جو ایسے خاص بیمار بھی نہیں اور شہر کے دوسرے کنارے پر رہتے ہیں۔ ان کی عیادت کے لیے جانے میں نہ میں نے وقت کی پروا کی نہ پیسے کی۔
میری نیند اور اچاٹ ہو گئی۔ اے میرے اللہ! میری غفلت کا کیا ہوگا میں جاگ نہیں رہا ہوں۔ میں تو بہت گہری نیند سورہا ہوں۔ خدایا! مجھے اس غفلت سے بیدار کر دے۔ پڑوس اور محلے کی ذمہ داریاں تو الگ رہیں میں تو گھر کی ذمہ داریاں بھی ادا نہیں کر رہا ہوں۔ بیوی کہتی ہے سب سے اچھی طرح بولتے ہو گھر میں آکر جانے کیا ہو جاتا ہے۔ بچے بھی سامنے آتے ہیں تو سہمے سہمے ہو جاتے ہیں۔ بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہیں ابا ہمیں جھڑک نہ دیں۔ جانے کس کا لڑکا تھا آکر تین مہینے کی فیس لے گیا اور اپنی پوتی کی ایک ماہ کی فیس بھی نہیں دی۔ وہ بچاری اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ جانے کس کس کو اردو، ہندی، انگریزی پڑھاتے پھرتے ہو اور اپنے بچے ٹیوشن کو ترستے ہیں۔ نہ ان کی اردو ہی ڈھنگ کی ہے نہ انگریزی، اسکولوں کے سالانہ جلسوں میں دنیا بھر کے لڑکے لڑکیوں کو انعام دیتے اور دلواتے ہو اور اپنے بچے منہ تکتے رہتے ہیں۔
میری بیوی نے مجھے آئینہ دکھایا۔ میں سکتہ میں رہ گیا۔ یہ ہے میری صورت۔ یہ ہے میری تصویر۔ غیروں کے گھر بار بار جاتے ہو اپنی اولاد کے یہاں جھانکے ہوئے بھی میہنے ہو جاتے ہیں۔
پہلے مجھے خوش فہمی، جھوٹی خوشی میں نیند نہیں آرہی تھی اور اب جو آئینہ سامنے آیا تو پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ زندگی ساری ختم ہو گئی۔ ہوش آیا بھی تو کب ۔۔؟ جب کچھ نہیں رہا۔ سارے مواقع ہاتھ سے نکل گئے ۔ زندگی اپنے بالکل آخری پڑاو پر آگئی۔ میرے تمام بدن پر لرزہ طاری ہے۔ زندگی اس مقام پر آگئی ہے جہاں تلافی کی کوئی گنجائش ہے نہ موقع۔ بجز اعتراف گناہ و توبہ واستغفار کے۔
رات کا سفر ختم ہونے کو ہے۔ چار بجنے میں صرف ایک منٹ باقی ہے۔ یہی سحر کا آخری وقت ہے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان میں بس کچھ ہی ساعتیں باقی ہیں۔ تو بندہ مومن نے اعلان بھی کر دیا۔ اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔ وہ یہ بھی اعلان کر رہا ہے۔ اور اب تو چاروں طرف سے اسی اعلان کی آواز آرہی ہے۔ نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے۔ اللہ کا شکر ہے اس نے مجھے غفلت کی نیند سے بیدار کر دیا ہے۔

 

***

 میں تو غریبوں کو جانتا ہی نہیں۔ نہ قریب کے نہ دور کے۔ ذرا میرے حالات کیا بدلے میں تو سب سے ناتہ توڑ بیٹھا ہوں۔ بہن صغریٰ کے پاس بھی گئے ہوئے مہینے ہوگئے۔ ایک دن وہ اپنی خستہ دیوار کے بارے میں کہہ رہی تھی اور میں نے اس کی دکھ بھری بات سنی ان سنی کردی تھی۔ آس پاس کے کتنے ہی غریب لوگ مجھے سلام کرتے ہیں مگر میں ایک کو بھی سیدھے منہ جواب نہیں دیتا۔ بھائی عرفان کے انتقال کے بعد میں ایک دن بھی ان کی بیوہ کے پاس نہیں گیا۔ ایک وہی کیا اس ایک سال میں چھ سات موتیں ہوگئی ہوں گی مگر میں سوائے اپنے وارڈ کے ممبر کے بھتیجے کے کسی کے جنازے میں بھی نہیں گیا۔ مجھے معلوم ہی نہیں کہ میرے محلے اور پڑوس میں کتنی بیوائیں ہیں۔ ان کی گزر بسر کا کیا حال ہے۔ نہ مجھے یہ معلوم ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کیا ہورہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021