تمل ناڈو اسمبلی نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف قرارداد منظور کی

نئی دہلی، ستمبر 8: انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق تمل ناڈو اسمبلی نے آض شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ایک قرارداد منظور کی۔ وزیراعلیٰ ایم کے سٹالن نے کہا کہ یہ قانون امتیازی ہے کیوں کہ اس میں سری لنکا کے تامل مہاجرین کے لیے بھارتی شہریت حاصل کرنے کی کوئی شق نہیں ہے۔

شہریت ترمیمی قانون، جو 11 دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ سے منظور ہوا، بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے چھ اقلیتی مذہبی برادریوں کے مہاجرین کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں مقیم ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔

اس قانون میں مسلمانوں کو خارج کرنے پر اس کی بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ اس نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو بھی جنم دیا۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق مذکورہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’’(سی اے اے) ہندوستان میں رائج فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی سازگار نہیں ہے۔ قائم شدہ جمہوری اصولوں کے مطابق، ایک ملک میں معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی خواہشات اور خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانی چاہیے۔‘‘

اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہوئے ایم کے سٹالن نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ نسل اور مذہب شہریت دینے میں کس طرح رکاوٹیں بن سکتے ہیں۔

تمل ناڈو، مغربی بنگال، کیرالہ، پنجاب، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے بعد ایسی چھٹی ریاست بن گیا جس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف قرارداد منظور کی ہے۔

دریں اثنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین اسمبلی نے اس قرارداد پر اعتراض کیا اور اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔

بی جے پی ایم ایل اے اور پارٹی کی خواتین ونگ کی سربراہ واناتھی سری نواسن نے کہا کہ یہ قانون ان ممالک پر لاگو ہوتا ہے جہاں اسلام ریاستی مذہب ہے، اور یہ سری لنکا میں نہیں ہے۔ اس نے سٹالن پر تسکین کی سیاست کا سہارا لینے کا الزام بھی لگایا۔

انڈیا ٹوڈے کے مطابق واناتھی نے کہا ’’وہ اقلیتی برادری کو گمراہ کر رہے ہیں اور آج وہ ایک قرارداد لائے ہیں جس میں مرکزی حکومت سے شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینے کی اپیل کی گئی ہے۔‘‘

انڈین ایکسپریس کے مطابق تمل ناڈو اسمبلی میں بی جے پی لیڈر نینار ناگیندر نے دعویٰ کیا کہ یہ قانون ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ آج فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں، لیکن گنیش چترتھی اور دیوالی سمیت ہندو تہواروں کے لیے لوگوں کو مبارکباد بھی نہیں دیتے۔

ریاست میں بی جے پی کی حلیف اور بڑی اپوزیشن پارٹی اے ڈی ایم کے نے بھی اسٹالن کی جانب سے قرارداد پیش کرنے سے پہلے واک آؤٹ کیا۔ تاہم اے آئی اے ڈی ایم کے کے کوآرڈینیٹر کے پلانی سوامی نے اس معاملے پر پارٹی کے موقف پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

اے آئی اے ڈی ایم کے نے اس وقت اس قانون کے حق میں ووٹ دیا تھا جب اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ تاہم اس سال کے شروع میں اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے منشور میں پارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مرکزی حکومت سے یہ قانون واپس لینے کے لیے کہے گی۔