بھارت سب کے لیے اور سب کا ہے

ہمیں مل جل کر رہنا سیکھنا ہوگا۔سدھیندر کلکرنی سے انٹرویو

سید تنویر احمد

سید تنویر احمد ڈائرکٹر ’’انڈیا ٹومارو‘‘ نے بھارت کی 75ویں یوم آزادی کے موقع پر سینئر صحافی اور سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے سابق میڈیا مشیر سدھیندر کلکرنی سے زوم پر ایک انٹرویو لیا۔ انہوں نے ملک کو درپیش مختلف اہم امور پر وسیع تر گفتگو کی۔ قارئین کے استفادہ کے لیے پیش ہے اس انٹرویو کا ایک خلاصہ۔
سوال :ہمیں آزادی حاصل کیے ہوئے 75 برس ہوگئے ہیں۔ اس دوران ہم نے کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ ملک کو عظیم بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
جواب: 75 واں یوم آزادی ہم سبھی کے لیے ایک مقدس موقع ہے کیونکہ ہمارا مادر وطن ایک ہے، ہمیں اس کو آگے بڑھانے کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے۔ بہت زیادہ تنوع، الگ الگ مذاہب، ذاتوں اور روایات کے باوجود ہم سب مل کر رہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہندوستان ’’وشوا گرو‘‘ (عالمی لیڈر) ہے لیکن سچائی کچھ اور ہے۔ ہندووں، مسلمانوں اور سکھوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا، ہر ایک نے قربانیاں دی ہیں، ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا، سب سے بڑی غلطی اس وقت ہوئی جب 1947 میں ملک تقسیم ہوا، دو قومی نظریہ ایک غلطی تھی لیکن یہ واقع ہوا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اب ایک حقیقت بن چکے ہیں۔ جو لوگ اکھنڈ بھارت کی بات کر رہے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ اب ہم پڑوسی ہیں۔ جہاں تک آبادی کا تعلق ہے جنوبی ایشیا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ ہندوستان اس علاقہ میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ چاہے پاکستان ہو یا بنگلہ دیش ہو یا افغانستان ہمیں ہر ایک کے بارے میں سے سوچنا چاہیے پھر دنیا ہماری تعریف کرے گی۔ افغانستان گزشتہ چالیس برسوں سے جنگیں لڑرہا ہے۔ دو سوپر پاور ممالک نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ لاکھوں افراد کی جانیں چلی گئیں اور بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ ہمیں اس علاقہ کو بیرونی طاقتوں سے آزاد کرنا ہوگا۔ ہمیں ان لوگوں سے بات کرنی چاہیے جو افغانستان میں اقتدار پر آرہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں۔ آج جو ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ملک کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہندوستان کو 2047 تک غربت اور بے روزگاری سے آزاد کرایا جائے گا۔
سوال: آپ ہندو۔مسلم اتحادکے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ یکجہتی کو فروغ دینے میں مذہبی قائدین اور تنظیموں کا کیا رول ہونا چاہیے۔
جواب: میں اس پروگرام میں حصہ لینے کے لیے مدعو کرنے پر جماعت اسلامی ہند کا شکر گزار ہوں، مجھے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کو سمجھنے کا ایک موقع ملا ہے۔ میری جماعت کے قائدین سے ملاقات ہوئی جس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔ یہ اہم بات ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی سرگرمیوں سے واقف ہونا چاہیے۔ اس سے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ میں کوئی مذہبی لیڈر نہیں ہوں بلکہ میرا ایک مشن ہے۔ پہلا کام ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی پیدا کرنا اور دوسرا کام ہندوستان۔پاکستان کو نارمل کرنا ہے۔ میں نے ہندو۔مسلم یکجہتی اور ہند وپاک کے درمیان اچھے ہمسایہ تعلقات کے لیے کام کیا ہے۔ میں ایک چھوٹی سی کوشش کررہا ہوں، لیکن یہ کام ابھی جاری ہے۔ میرا ایقان ہے کہ ہندو اور مسلمان برابر ہیں۔ ہمارا ملک کسی ایک یا دوسرے طبقہ کا خصوصی مقام نہیں ہے۔ ہندوستان سب کا ہے اور سب کے لیے ہے، ہمیں پرامن رہنا ہوگا اور بقائے باہم کو سیکھنا ہوگا۔ ہمیں مل کر رہنے کی ضرورت ہے۔ میرا دوسرا ہدف ہند وپاک کو معمول پر لانا ہے۔ پاکستان ہمارا پڑوسی ہے، کسی وقت ہم ایک تھے، پاکستان صرف 74 سال پہلے الگ ہوا تھا، میں تقسیم کے تعلق سے بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، وہ کہا کرتے تھے کہ آپ اپنے دوستوں کو تبدیل کرسکتے ہیں لیکن ہمسایوں کو نہیں۔ پاکستان ہمارا ہمسایہ ہے۔ ہمارے کچھ اختلافات اور نزاعات ہیں جنہیں باہم مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ مسئلہ کا حل نہیں ہو سکتا۔ ہم چار جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؟
جس وقت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہو جائیں گے اس کا داخلی طور پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ بہت سارے لوگ مسلمانوں پر شبہ کر رہے ہیں۔ مذہبی قائدین کا فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک بڑا رول ہے۔ یہ ہنوز عام لوگوں پر اثر رکھتے ہیں۔ انہیں آگے بڑھ کر طبقات کے درمیان یکجہتی کو فروغ دینے کی کوشش کرنا چاہیے۔ میں کہوں گا کہ جماعت اسلامی اور آر ایس ایس کو بھی اس میں اپنا اہنا حصہ ڈالنا چاہیے اور مدد کرنی چاہیے۔
سوال: آپ نے ہمیشہ ہندووں اور مسمانوں کے درمیان مذاکرات کی تائید کی ہے لوگوں کو اسے کس طرح دیکھنا چاہیے؟
جواب: مذاکرات یکجہتی کو فروغ دینے اور انتشار کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہیں۔ اختلافات اور نزاعات انتشار کو جنم دیتے ہیں۔ بے اعتمادی، عدم اعتبار اور انتشار کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ ان لوگوں کے درمیان مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں ہے جوپہلے سے ہندو۔مسلم اتحاد پر یقین رکھتے ہیں۔ مذاکرات ان کے درمیان ہوں جو اختلافات رکھتے ہیں۔ ہندو طبقے میں ایسے کچھ لوگ ہیں جو بعض غلط فہمیاں رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان بھی بعض لوگ ہیں جن کا ہندووں کے ساتھ کوئی تال میل نہیں ہے۔ ان کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے۔ یہ بات چیت مسائل کی بنیاد پر کی جائے۔ مثلاً آیا ملک میں دستوری اقدار کی پابندی کی جا رہی ہے؟ کیا ہمارے جمہوری ادارے قانون اور دستورکے مطابق کام کر رہے ہیں؟ مسلمان کیوں عدم سلامتی محسوس کر رہے ہیں؟ وہ کیوں ایسا سوچتے ہیں کہ پولیس، عدالتیں یا بیورو کریسی ان کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں؟ انہیں کیوں امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ یہ وہ احساسات ہیں جو مسلم طبقہ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ بے اعتمادی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ کشمیر، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی جیسے کچھ اور مسائل ہوسکتے ہیں۔ بعض لوگ ہندو قوم پرستی کی بات کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ انڈیا کو ہندو راشٹر ہونا چاہیے۔ مسائل پر مبنی مذاکرات ہونے چاہئیں جس میں میڈیا کے نمائندے، دانشور، تہذیبی ماہرین اور دونوں طبقات کے ماہرین تعلیم مل کر بیٹھ سکتے ہیں اور ایک اتفاق رائے پر پہنچ سکتے ہیں۔ جب ہم مل بیٹھیں گے تو اتفاق رائے بھی ہو گا۔ ایک مشترکہ بنیاد وعمومیت کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ بڑی مسلم اور ہندو تنظیموں کے کندھوں پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مجھے خوشی ہوگی اگر جماعت اسلامی اور آر ایس ایس کے قائدین باہم مل کر بیٹھیں اور کھلے ذہن کے ساتھ بات کریں۔ چند دن قبل آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کیا جس میں انہوں نے بہت سے اچھی باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان بے اعتمادی پائی جاتی ہے جسے بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر نہ تو ہندووں کا اور نہ ہی مسلمانوں کا غلبہ ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں برادریوں کو قومی اتحاد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست سماج کو توڑتی ہے۔ دونوں برادریوں کے غیر سیاسی لوگ سماج کو متحد کرسکتے ہیں۔ میں آر ایس ایس سے نہیں ہوں بلکہ حقیقت میں ان کا ناقد ہوں، میں ہندو راشٹریتا پر یقین نہیں رکھتا، میں چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی اور آر ایس ایس اور بہت سے دوسرے لوگ ایک دوسرے سے بات کریں اور ایک اتفاق رائے پر پہنچیں اس سے ایک بہت اچھا پیام جائے گا۔
سوال: مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان مختلف احساسات پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کا احساس ہے کہ ہندو انہیں دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم ہندو۔مسلم اتحاد چاہتے ہیں۔ دونوں طبقات کس طرح اپنے احساسات پر قابو پاسکتے ہیں ۔
جواب: ہمارے ملک میں ہر ایک کے لیے مساوی حقوق ہیں۔ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے دوران حب الوطنی کے جو نغمے گائے جاتے ہیں ان میں سے ایک ’سارے جہاں سے ہندوستاں ہمارا‘ ہے۔ یہ ترانہ علامہ اقبال نے لکھا ہے۔ یہ انہوں نے کیوں لکھا؟ اس ترانے کا ایک بند ہے جس میں کہا گیا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا
یہ اتحاد کا ایک سبق دیتا ہے اوریہ اعتماد پیدا کرتا ہے کہ ہندووں کی اکثریت مسلمانوں کو دبانا یا ان پر غالب ہونا نہیں چاہیے ۔ ایک بہت چھوٹی سی آواز ہے جو بلند ہوتی ہے کیونکہ وہ سیاسی طاقت رکھتے ہیں۔ انسانیت پہلے ہے اور پھر قوم۔ تمام انسان مساوی ہیں۔ ’واسو دیوا کٹمبکم‘ (ساری دنیا ایک کنبہ ہے) کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میرے چھوٹے بھائی کو ہنوز میرے زیر رہنا چاہیے۔ سِول سوسائٹی، مذہبی قائدین، سیاستدانوں اور میڈیا کے افراد کو چاہیے کہ وہ ان غلط فہمیوں کو دور کریں۔ مثال کے طور پر کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک پر ایک ہزار سال تک حکومت کی اور اب اس ملک پر حکومت کرنے کی باری ہندووں کی ہے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ بعض مسلم حکمراں اچھے تھے اور بعض خراب ۔ ایک پروپیگنڈہ چلایا جارہا ہے ہمیں اس کا جواب دینے کے لیے عوامی بیداری شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلمان اس ملک پر بوجھ ہیں اور وہ اس کے وسائل کا استحصال کررہے ہیں۔ ایک اور خیال یہ ہے کہ مسلمان حب الوطن نہیں ہوتے اور وہ ملک کے وفادار نہیں ہیں۔ان خیالات کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
جواب:یہ ایک نہایت خطرناک غلط فہمی ہے، مسلمانوں کے تعلق سے یہ کہنا کہ وہ ملک کے وفادار نہیں ہیں، بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کیا صرف ہندووں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا؟ تاریخ دیکھیے 1857سے 1947تک ہندووں اور مسلمانوں نے مل کر جدوجہد کی، لڑائی لڑی اور یہاں تک کہ باہم مل کر قربانیاں پیش کیں۔ آپ 1857کی تاریخ پڑھیے گا۔ میں ساورکر کی کتاب پڑھنے کی سفارش کروں گا۔ 1909میں انہوں نے یہ کتاب” The Indian War of Independence in 1857″ لکھی تھی۔ اس وقت وہ برطانیہ میں تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کس طرح وطن سے محبت رکھنے والے مسلمانوں نے کام کیا ہے۔ انہوں نے کئی محب وطن مسلمانوں کے نام گنائے۔ خان عبدالغفار کون تھے۔ یہ مہاتما گاندھی کے قریب ترین ساتھی تھے انہیں سرحدی گاندھی کا خطاب دیا گیا۔ وہ ایک مسلمان تھے اور عدم تشدد کے عہد پر کار بند تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی اور بہت سارے نام ہیں۔ زہریلا پروپگنڈہ پھیلایا جارہا ہے کہ مسلمان اس ملک پر بوجھ ہیں۔ کیا ایک بھائی دوسرے بھائی پر بوجھ بن سکتا ہے۔ یہ مسخ شدہ سوچ ہے۔ پسماندہ طبقات کی حمایت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں جھوٹا پروپگنڈہ پھیلانے والے ان عناصر کے خلاف کھڑے ہونا پڑے گا۔ مسلم طبقہ میں بھی بعض لوگوں کا ایقان ہے کہ دنیا پر صرف اسلام کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ مسلم اور ہندو طبقات کو اپنا اپنا احتساب کرنا چاہیے۔
سوال: آپ نے کہا کہ ہندو مسلم اتحاد میں مسلم قائدین کو اپنا رول ادا کرنا چاہیے کیا یہ صرف مذہبی قائدین کی ذمہ داری ہے یا سماج کو بھی اپنا رول ادا کرنا چاہیے؟ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ایک عام آدمی کو کیا رول ادا کرنا چاہیے۔
جواب: عوام کو متحد کرنے میں مذہبی قائدین اور سیول سوسائٹی دونوں کا ایک رول ہے۔ میں ان دونوں کو الگ الگ تصور نہیں کرتا۔ تمام مذاہب کہتے ہیں کی تمام انسانوں کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے۔ اسلام یہی کہتا ہے، ہندو مت یہی کہتا ہے اور تمام مذاہب یہی کہتے ہیں، یہ بنیادی پیغام ہے اگر میں ہندو مذہب کا سچا پیرو کار ہوں تو مجھے ایک مسلم بھائی کے خلاف کوئی کینہ نہیں رکھنا چاہیے۔ یہی بات مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔ ہندوستانی دستور مساوات کی ضمانت دیتا ہے۔ ہر مذہب ہمیں دیگر مذاہب کے احترام کا سبق دیتا ہے۔ ہر ایک کو وقار، سلامتی اور مساوی موقع ملنا چاہیے۔ اسی سے ایک صحت مند مہذب معاشرہ بن سکتا ہے۔ سِول سوسائٹی کو اس میں ایک رول ادا کرنا چاہیے۔ چاہے وہ تعلیم سے وابستہ لوگ ہوں یا کلچر، تجارت یا میڈیا میں کام کرنے والے لوگ سبھی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یکجہتی کے لیے کام کریں، میڈیا کے بعض افراد زہر پھیلارہے ہیں، نہ تو وہ ملک کی خدمت کررہے ہیں اور نہ ہی انسانیت کی، حتیٰ کہ وہ اپنے مذہب کی بھی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ ہمیں سِول سوسائٹی کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ اسکولوں میں ہوتا ہے، موجودہ صورتحال میں فرقہ وارانہ یکجہتی کو فروغ دینے میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا کیا رول ہونا چاہیے؟
جواب: تعلیم بالخصوص ابتدائی اسکولنگ ننھے بچوں کی سوچ بدلتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چھ سال کی عمر تک بچوں کے ذہنوں پر جو چھاپ پڑتی ہے وہ زندگی بھر باقی رہتی ہے۔ ماقبل اسکول اور اسکولی تعلیم کی بہت اہمیت ہے۔ اگر طلبہ کو ایک اچھے اقدار کا نظام، اچھی تعلیم اور رہنمائی ملے گی تو وہ اچھے انسان بنیں گے۔ وہ ہمیشہ کہیں گے کہ ان کے اساتذہ اور والدین نے انہیں یہ اور یہ چیزیں سکھائی ہیں۔ طلبہ کو لازماً اسکولوں میں بنیادی اقدار، اصول اور تمام مذاہب کی اچھی باتوں کی تعلیم دی جائے۔ یہ کام اخلاقی اسباق، تاریخی کتابوں، سماجی علم، کلچر، لٹریچر، فلموں، یا دوسری چیزوں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اصل میں ہم لوگوں نے بصیرت گنوادی ہے۔ تعلیم اسکول کی چار دیواری تک محدود نہیں ہوتی۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ نے عوام کے ذہنوں پر بہت اثر ڈالا ہے۔ بعض ٹی وی چیانلس صرف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر من گھڑت باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ اس سے دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تعلیم کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ پہلے اچھے استاد بنیں، انہیں تمام مذاہب کی بنیادی تعلیم سے واقف ہونا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ سب مذاہب کا احترام کریں۔ ہمارے پاس ایک ایسا ماحول ہونا چاہیے جس میں ہم لوگ ایک دوسرے سے بات کرسکیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے مذہبی قائدین کو سنیں۔ تعلیم کا مطلب صرف سوال جواب اور امتحان نہیں ہے۔ اگر ہمیں اچھے انسان بنانا ہے تو ہمیں تعلیم پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ سب کے لیے تعلیم کے مساوی مواقع ہونا چاہیے۔ بد قسمتی سے ہمارے پاس مساوی مواقع نہیں ہیں۔ غریب طلبہ میٹرک سے آگے بڑھ نہیں پاتے۔ مسلمانوں کی اکثریت تعلیمی طور پر پسماندہ ہے۔ ہمیں نا برابریوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ سچر کمیٹی نے حکومت کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیا ہے۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے۔ چاہے ہندو ہو یا مسلمان ہر کسی کو نا برابریوں کے خاتمہ کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
(بشکریہ انڈیا ٹوماروڈاٹ نیٹ)

 

***

 ’’افغانستان گزشتہ چالیس برسوں سے جنگیں لڑرہا ہے۔ دو سوپر پاور ممالک نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ لاکھوں افراد کی جانیں چلی گئیں اور بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ ہمیں اس علاقہ کو بیرونی طاقتوں سے آزاد کرنا ہوگا۔ ہمیں ان لوگوں سے بات کرنی چاہیے جو افغانستان میں اقتدار پر آرہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں۔‘‘


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021