سیرت صحابیات سیریز(۱۱)

ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارثؓ

تقویٰ،خدا ترسی،فیّاضی اور صلہ رحمی نمایاں اوصاف
اصل نام برہ تھا۔ سرور عالمﷺ کے نکاح میں آنے کے بعد میمونہ نام رکھا گیا۔ قبیلہ قیس بن غلان سے تھیں۔ والدہ کا نام ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث بن حماطۃ بن جرش تھا اور وہ قبیلہ حمیر سے تعلق رکھتی تھیں۔
پہلا نکاح مود بن عمرو بن عمیر ثقفی سے ہوا۔ انہوں نے کسی وجہ سے طلاق دے دی۔ پھر ابو رہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں آئیں۔ ۷ہجری میں انہوں نے وفات پائی او رحضرت میمونہؓ بیوہ ہوگئیں۔
اسی سال رسول کریمﷺ عمرہ کے لیے مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو آپؐ کے عم محترم حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ نے میمونہؓ سے نکاح کرلینے کی تحریک کی حضوؐرضامند ہوگئے۔ چناں چہ احرام کی حالت میں ہی شوال ۷ ہجری میں ۵۰۰ درہم حق مہر پر حضرت میمونہؓ سے نکاح ہوا۔ عمرہ سے فارغ ہوکر مکہ سے دس میل کے فاصلہ پر بہ مقام سرف حضورؐنے قیام فرمایا۔ حضورؐکے غلام حضرت ابو رافعؓ حضرت میمونہؓ کو ساتھ لے کر اسی جگہ آگئےاور یہیں رسم عروسی ادا ہوئی۔ حضرت میمونہؓ رسول کریم ﷺ کی آخری بیوی تھیں۔ یعنی ان سے نکاح کے بعد حضورؐنے اپنی وفات تک کوئی اور نکاح نہیں کیا۔
حضرت میمونہؓ نہایت خدا ترس اور متقی خاتون تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:
میمونہؓ ہم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والی اور صلہ رحم کا خیال رکھنے والی تھیں‘‘۔
مدینہ میں ایک دفعہ ایک عورت سخت بیمار ہوئی۔ اس نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی تو بیت المقدس میں جاکر نماز پڑھوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شفا دی اور اس نے اپنی منت پوری کرنے کے لیے بیت المقدس جانے کا ارادہ کیا۔ سفر پر روانہ ہونے سے قبل حضرت میمونہؓ سے رخصت ہونے آئی اور تمام ماجرا بیان کیا۔ حضرت میمونہؓ اسے سمجھایا کہ مسجد نبویؐمیں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد میں نماز پڑھنے کے ثواب سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ تم بیت المقدس جانے کی بہ جائے مسجد نبوی ہی میں نماز پڑھ لو۔ ثواب بھی زیادہ ہوگا اور منت بھی پوری ہوجائے گی کہ مسجد نبوی اللہ کو بیت المقدس سے زیادہ محبوب ہے۔
ایک دن حضرت عبداللہ بن عباسؓ ان کی خدمت میں اس حالت میں آئے کہ سر کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔ پوچھا ’’بیٹے پراگندہ بال کیوں ہو‘‘۔ حضرت عبداللہؓ نے کہا ’’میری بیوی ’’ایام‘‘ کی حالت میں ہے۔ وہی میرے سر میں کنگھا کیا کرتی تھی۔ لیکن اب اس حالت میں ہونے کی وجہ سےمیں نے یہ کام لینا اس سے مناسب نہ سمجھا‘‘۔
حضرت میمونہؓ نے فرمایا ’’واہ بیٹے کبھی ہاتھ بھی ناپاک ہوتے ہیں۔ ہم اسی حالت میں ہوتی تھیں اور رسول کریم (ﷺ) ہماری گود میں سر رکھ کر لیٹتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے اور پھر ہم اس حالت میں مصلیٰ اٹھا کر مسجد میں رکھ آتی تھیں‘‘۔ ایک اور موقعہ پر بھی انہوں نے حضرت ابن عباس کو نہایت بلیغ پیرائے میں سمجھایا کہ عورتیں اس حالت میں ہوں توان کے چھونے سے کوئی چیز ناپاک نہیں ہوجاتی۔
ایک دفعہ حضرت میمونہؓ کا ایک قریبی رشتہ دار ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ وہ سخت غضبناک ہوئیں اور اسے سختی سے جھڑک کر کہا۔ ’’آئندہ کبھی میرے گھر میں قدم نہ رکھنا‘‘
ایک دفعہ انہوں نے ایک لونڈی کو راہ خدا میں آزاد کردیا۔ حضورؐ کو معلوم ہوا تو حضورؐ نے فرمایا : ’’خدا تم کو جزا دے‘‘۔
حضرت میمونہؓ بہت مخیر اور فیاض تھیں، اس لیے وقتا فوقتاً قرض لینے کی نوبت آجاتی ۔ ایک دفعہ بہت زیادہ رقم قرض لے لی۔ کسی نے پوچھا ’’ام المومنین اتنی زیادہ رقم کی واپسی کی کیا صورت ہوگی؟‘‘
فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے جو شخص قرض ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ خود اس کا قرض ادا کرنے کے اسباب مہیا کردیتا ہے‘‘۔
حضرت میمونہؓ نے ۵۱ ہجری میں سرف کے مقام پر (جہاں ان رسم عروسی ادا ہوئی تھی) وفات پائی۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا ’’جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی رفیقہ حیات تھیں۔ ادب کے ساتھ آہستہ آہستہ چلو‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر میں اتارا۔
حضرت میمونہؓ سے چھیالیس اور بقول بعض ۷۶ احادیث مروی ہیں۔ حضرت عباسؓ کی بیوی حضرت ام الفضلؓ حضرت میمونہؓ کی حقیقی بہن تھیں۔ اس رشتے سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ ان کے بھانجے تھے۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021