لڑکی کی شادی میں رکاوٹ؟

کئی عوامل ذمہ دار لیکن سزاصرف لڑکیوں کو ملتی ہے

ام فاکہہ، جدہ

غربت، جہیز اور خوبصورتی کی چاہت نے شادی کو مشکل بنادیا۔ غلط طرز فکر کی اصلاح ضروری
جب کوئی لڑکی چھوٹی ہوتی ہے تو ہزاروں خوابوں کے ساتھ ایک خواب یہ بھی ضرور دیکھتی ہے کہ وہ بڑی ہوکر دلہن بنے گی اور جب جوان ہوتی ہے تو خوابوں کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن لڑکیوں کے خواب اکثر خواب ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں اپنے شریک سفر کو تلاش کرتی رہ جاتی ہیں۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ خواب بھی چور چور ہوتے جاتے ہیں اور کسی کی تلاش کرتے کرتے آنکھیں بھی تھک کر ویران ہوجاتی ہیں۔
یہ کوئی قصہ یا کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ہمارے اطراف کتنی ہی ایسی لڑکیاں ہوں گی جو کہیں جہیز کی وجہ سے، کہیں شکل و صورت کی وجہ سے کہیں غربت کی وجہ سے اور کہیں کسی اور وجہ سے اپنی زندگی کا طویل سفر تنہا طے کررہی ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے گھر والے ہی لڑکی کی شادی نہ کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
حال ہی میں ایسی ہی ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد اپنے اطراف نظر دوڑائی تو کچھ اور ایسی ہی لڑکیاں نظر آئیں جو انجانے میں اپنوں کی لاپروائی کی وجہ سے زندگی کا سفر تنہا طے کرنے پر مجبور ہیں۔
۔۔ ’’مس ر‘‘ جب جوان تھیں تو والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کے تین چھوٹے بہن بھائی تھے۔ گھر کا سارا بوجھ انہوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھالیا اور نوکری کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی پڑھانا شروع کردیا۔ دن رات محنت کرکے اپنے بہن بھائیوں کو اس قابل بنایا اور ان کی والدہ کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ کچھ دن پہلے والدہ کی بھی وفات ہوگئی۔ اب ’’مس ر‘‘ تنہا رہ گئی ہیں۔ بہن بھائی جوان ہوئے تو انہوں نے اپنی بہن کے بارے میں کچھ نہیں سوچا بلکہ اپنی زندگی سنوارنے میں ہی مگن رہیں اور آج وہ زندگی کے صحرا میں تنہا ہیں۔
۔۔ ’’مس م‘‘ کے دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ بڑی بہن کی شادی ہوگئی۔ دو بھائیوں میں سے ایک ذہنی طور پر معذور ہے۔ والد کا انتقال ہوچکا ہے۔ جبکہ والدہ اکثر بیمار رہتی ہیں۔ گھر کی صورتحال ایسی ہے کہ ’’مس م‘‘ کی والدہ ان کی شادی کے بارے میں سوچ کر ہی گھبرا جاتی ہیں۔ انہیں خیال آتا ہے کہ بڑھاپے میں میری خدمت کون کرے گا؟ ایک مرتبہ ان کو سمجھانے کی کوشش کی گئی تو کہنے لگیں کہ ’’مس م‘‘ خود ہی شادی کرنا نہیں چاہتی۔ انہوں نے بیٹی کو بلا کر سب کے سامنے پوچھا کہ ذرا بتاو تم میری خدمت کرنا چاہتی ہو یا مجھے بیماری کی حالت میں اکیلا چھوڑ کر جانا چاہتی ہو؟ ایسے میں سوچیے کہ شرم و حیا کی پیکر کوئی مشرقی لڑکی اس سوال کا کیا جواب دے گی؟ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ’’مس م‘‘ کے رشتے آنا بند ہوجائیں گے اور شادی مشکل ہوجائے گی۔
’’مس الف‘‘ خوبصورت پڑھی لکھی اور اچھے خاندان کی لڑکی ہے۔ ہر لڑکی کی طرح ’’مس الف‘‘ اور اس کے گھر والوں کے کچھ خواب ہیں کہ ایسا لڑکا ڈھونڈا جائے جو ہر لحاظ سے بہتر ہو۔ عموماً ایسا ناممکن ہوتا ہے کہ جو کچھ سوچا جائے ہو بہو ویسا ہی ہوجائے۔ حقیقی زندگی میں کچھ نہ کچھ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں ۔ ’’مس الف‘‘ اور ان کے والدین نے لڑکے کی جو خیالی تصویر بنائی تھی اس کے مطابق لڑکا ملنا مشکل تھا۔ جس لڑکے کا رشتہ آتا اس میں کچھ نہ کچھ کمی موجود ہوتی۔ ایسے میں کبھی ’’مس الف‘‘ کی طرف سے اور کبھی ان کے والدین کی طرف سے انکار کردیا جاتا ۔ ’’مس الف‘‘ اب عمر کی اس منزل کے قریب پہنچتی جارہی ہیں جہاں ان کی شادی ہونا مشکل ہوجائے گی۔ اگر ’’مس الف‘‘ کے رشتے دار انہیں سمجھتے اور خود بھی سمجھداری کی روش اختیار کرتے تو ’’مس الف‘‘ آج تنہا زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتیں۔ اب کسے قصور وار ٹھیرایا جا سکتا ہے؟ ’’مس الف‘‘ کی کم عمری اورنا سمجھی کو یا اپنوں کی محبت کو؟
۔۔ ’’مس ن‘‘ کی کہانی بھی ملتی جلتی ہے۔ وہ اکلوتی ہونے کے باعث اپنے والدین کی لاڈلی ہیں۔ ماں باپ نہیں چاہتے کہ ان کی لاڈلی بیٹی کی شادی ہوجائے اور وہ ان سے کہیں دور چلی جائے۔ اس لیے وہ گھر آنے والے ہر رشتے سے انکار کردیتے ہیں۔ پوچھنے پر کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی کے لیے آس پاس ہی کوئی اچھا لڑکا مل جائے تاکہ ہماری پیاری اور لاڈلی بیٹی نظروں کے سامنے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری بیٹی ہم پر بوجھ نہیں جو کچھ بھی ہے اس کا ہے۔ ہم چاہیں تو اپنی بیٹی کو ساری عمر بٹھا کر کھلا سکتےہیں۔ حالانکہ ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے کہ اسے ایک چاہنے والا شوہر ملے۔ اس کے اپنے بچے ہوں اور اپنا گھر ہو۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جو دولت سے خریدنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
مشرقی لڑکیاں مجسم شرم و حیا ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں لاکھوں والدین اپنی بیٹیوں کے لیے دن رات پریشان رہتے ہیں اور ہر لمحہ اپنی جوان لڑکیوں کے لیے اس فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ کوئی اچھا رشتہ آئے اور وہ اپنی بیٹیوں کی شادی کی ذمہ داری سے جلد از جلد عہدہ برآ ہوجائیں۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے کاندھوں پر ڈالی ہے۔ دوسری طرف کچھوالدین ایسے بھی ہیں جو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے کبھی یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ ہماری بیٹی ابھی پڑھ رہی ہے۔ کبھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لڑکے کی تعلیم لڑکی سے کم ہے۔ کہیں لڑکا دیکھنے میں اچھا نہیں لگتا یا لڑکی کے والدین کے معیار کے مطابق دولت مند نہیں ہوتا۔ کبھی اس لیے رشتے سے انکار کردیا جاتا ہے کہ لڑکے پر کسی بھائی یا بہن کی ذمہ داری اور کبھی رشتہ منظور نہ کرنے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ لڑکے کا خاندان ہمارے برابر کا نہیں۔ کہیں یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ہماری لڑکی شہر کی رہنے والی ہے اور لڑکا گاوں کا ہے اس لیے ہماری بیٹی گاوں جاکر نہیں رہ سکتی۔ بیرون ملک مقیم والدین بھی اکثر اپنی بیٹی کے رشتے کو صرف یہ کہہ کر مسترد کردیتے ہیں کہ ہماری بیٹی ہندوستان جاکر نہیں رہ سکتی۔
غرض یہ کہ لڑکی کے رشتے ٹھکرائے جانے کی وجوہات تو متعدد ہیں مگر سزا صرف اور صرف لڑکی کو بھگنی پڑتی ہے۔ انجام کار جب تک والدین کا سایہ سلامت رہتا ہے تب تک لڑکی کی زندگی کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتی ہے اور جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو وہ اپنے دیگر بھائی بہنوں کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ اسے روز روز کے طعنے سننے کوملتے ہیں۔ نہ اس کا احساس کرنے اور غم بانٹنے والا کوئی ہوتا ہے نہ اس کا کوئی ایسا ساتھی ہوتا ہے جس پر وہ اپنا حق جتا سکے۔
آج کے دور میں اچھے رشتہ ملنا کسی نعمت سے کم نہیں اگر بیٹی کا کوئی اچھے رشتہ گھر آجائے تو والدین کو اللہ کا شکر اداکرنا چاہیے نہ کہ چھوٹی چھوٹی اور لا یعنی وجوہ پر رشتے کو ٹھکرادیا جائے۔ اگر لڑکیوں کے والدین اپنے اطوار اور سوچ میں ذرا سی تبدیلی لاکر سمجھوتے کی روش اختیار کرلیں تو آنے والے وقت میں لڑکیاں زندگی کا سفر تنہا طے کرنے پر مجبور نہیں ہوں گی۔
***

 

***

 لڑکی کے رشتے ٹھکرائے جانے کی وجوہ تو متعدد ہیں مگر سزا صرف اور صرف لڑکی کو بھگنی پڑتی ہے۔ انجام کار جب تک والدین کا سایہ سلامت رہتا ہے ، تب تک لڑکی کی زندگی کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتی ہے پھر جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو وہ اپنے دیگر بھائی بہنوں کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ اسے روز روز کے طعنے سننے کوملتے ہیں۔ نہ اس کا احساس کرنے اور غم بانٹنے والا کوئی ہوتا ہے نہ اس کا کوئی ایسا ساتھی ہوتی ہے جس پر وہ اپنا حق جتا سکے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021