مسجد فاتح : سلطان فاتح کے تمام نشانیوں میں سب سے اہم یاد گار

استنبول شہر کی تاریخی عبادت گاہ کے روح پرور مناظر ۔مسجد کا کیمپس سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کا خوبصورت مظہر

افروز عالم ساحل

میں اس عظیم شخصیت کے مقبرے پر کھڑا ہوں جس نے تاریخ کے صفحے کو کچھ اس انداز میں پلٹا کہ یورپ کی شان سمجھا جانے والا قسطنطنیہ اسلام کے عروج کا نمونہ بن کر’اسلامبول‘ بن گیا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں اکیس سالہ سلطان محمد خان کی بات کر رہا ہوں، جس نے 1453ء میں بازنطینی سلطنت کے آخری گڑھ قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا اور جسے دنیا ’سلطان فاتح‘ کے نام سے جانتی ہے۔ استنبول کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہو گا جہاں سلطان فاتح کے نشانات موجود نہ ہوں، لیکن ان تمام نشانیوں میں’ مسجد فاتح ‘ سب سے اہم یاد گار ہے۔

یہ مسجد اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس سے متصل قبرستان میں سلطان فاتح ان کی والدہ نقشِ دل سلطانہ، بیوی گل بہار خاتون اور ان کے خاندان کے کئی افراد کی قبریں ہیں۔ اس کے علاوہ غازی عثمان پاشا، ان کے وزراء اور متعدد ترکی کی تاریخی شخصیات بھی یہاں مدفون ہیں۔ سلطان فاتح کے مقبرے کے باہر ان کی زندگی کی پوری تاریخ ترکی و انگریزی زبان میں لکھی ہوئی ہے۔

اس مسجد کی طرف جانے والے تمام راستوں میں میری کئی یادیں بسی ہوئی ہیں۔ مسجد کی گلیوں میں میں نے قریب ایک ہفتہ گزارا ہے۔ گھنٹوں یہاں کی ہوٹلوں میں دوستوں اور بڑے بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لی ہیں۔ دراصل تین سال قبل جب میں استنبول آیا تھا تو ہمارا قیام مسجد کے قریب ہی ایک گھر میں تھا۔ اکثر ہم فجر کی نماز اسی مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے استنبول میں پہلی نماز اسی مسجد میں ادا کی تھی۔ امام صاحب کی بلند اور روح پرور آواز نے تو دل خوش کردیا تھا۔ یہاں فجر کی نماز کے ساتھ ہی تمام دکانیں کھل جاتی ہیں۔ خاص بات ہے یہ کہ یہاں فجر کی نماز میں بھی لوگ سوٹ بوٹ میں آتے ہیں، لوگوں کے چہروں پر تازگی رہتی ہے۔ تب مجھے اپنے وطن کی یاد آتی تھی کہ کیسے ہمارے شہر میں لوگ نیند سے بھرے چہرے لے کر لنگی ہی میں مسجد آ جاتے ہیں۔

اس بار جب استنبول آیا تب بھی میری کوشش یہی تھی کہ اسی علاقے میں قیام کیا جائے لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور مجبوراً دوسرے علاقے میں مقیم ہونا پڑا۔ مسجد آیا صوفیہ میں نماز ادا کرنے کے بعد میری دوسری خواہش تھی کہ جمعہ کی نماز ’مسجد فاتح‘ میں ادا کی جائے۔ چنانچہ خواہش کی تکمیل کے لیے جمعہ کو میں یہاں حاضر تھا۔

تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ یہ مسجد فتح قسطنطنیہ کے بعد مسلمانوں کے ذریعے تعمیر کی جانے والی استنبول کی مسجدوں میں سب سے پہلی جامع مسجد ہے۔ یہ مسجد استنبول میں ترک اسلامی طرز تعمیر کا شان دار نمونہ ہے۔ 1463ء میں اس مسجد کی تعمیر سلطان محمد فاتح کے حکم پر شروع ہوئی جو 1470ء میں مکمل ہوئی۔ 1509ء کے زلزلے میں سلطان فاتح کی یہ مسجد کافی متاثر ہوئی تھی۔ اسی طرح 1557ء اور 1754ء کے زلزلوں میں بھی یہ مسجد متاثر ہوئی تھی۔ تب مرمت کر کے اسے درست کر لیا گیا تھا۔ مگر 22 مئی 1766ء کو آنے والے بھیانک زلزلے میں یہ مسجد مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ سلطان مصطفیٰ سوم کے حکم پر 1771ء میں اس مسجد کی دوبارہ سے تعمیر کی گئی جو اپنی قدیم شکل و صورت سے بالکل مختلف تھی اور وہ یہی مسجد ہے جسے آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسے دیکھ کر اس عالی دماغ شخص کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے نام سے یہ مسجد موسوم ہے۔

اب میں مسجد کے اندر تھا۔ اندر بے حد ہی شاندار روحانی ماحول ہے۔ یہ مسجد استنبول کی دوسری مسجدوں سے کچھ مختلف ہے۔ بچے سرخ قالینوں پر کھیل رہے ہیں۔ خوشی سے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں لیکن اس سے مسجد کا تقدس پامال نہیں ہوتا۔ وہیں مائیک سے ایک بچے کی قرات کانوں کے ساتھ ساتھ دل میں بھی سکون کا احساس کراتی ہے۔ یقیناً جب کبھی آپ اس مسجد میں داخل ہوں گے تو اس کے مخصوص اور خوبصورت طرز تعمیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اندرونی گنبد اتنا بلند اور وسیع ہے کہ اسے صرف آنکھوں میں ہی قید کیا جا سکتا ہے۔ شاید ہی کوئی کیمرہ اسے پوری طرح سے قید کر پائے۔

مسجد میں لوگوں کا داخلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہر شخص کے چہرے پر ماسک ہے۔ لوگ کوویڈ پروٹوکول کا پوری طرح سے لحاظ کر رہے ہیں۔ یہاں ابھی بھی تمام مسجدوں میں لوگ نماز کے دوران جسمانی فاصلے کا خیال رکھ رہے ہیں۔ یہاں مسجد کے کمپاؤنڈ کو کوویڈ ویکسینیشن کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

یہاں مساجد کی خاص بات یہ ہے کہ عورتیں بھی ان میں نماز پڑھ سکتی ہیں جبکہ ان کے وضو کے لیے الگ انتظام ہوتا ہے لیکن مسجد فاتح میں میں نے دیکھا کہ عورتیں بھی وضو خانہ میں سب کے ساتھ بیٹھ کر وضو بناتی ہیں۔ یہاں کسی کی بھی نظر انہیں روکتی یا ٹوکتی نہیں ہے۔ مسجد کے اندر پیچھے کی طرف ان کے لیے خاص انتظام ہے۔ اگر کوئی عورت مختصر لباس میں آتی ہے تو اس کے لیے مسجد میں گاؤن رکھا ہوتا ہے جسے پہن کر وہ نماز پڑھ سکتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سلطان فاتح نے مسجد کی تعمیر انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ کی تھی۔ اس مسجد کے ساتھ آٹھ مدارس، کتب خانے، شفا خانے، مسافر خانے، کاروان سرائے، بازار، حمام، ابتدائی مدرسہ اور لنگر خانے وغیرہ موجود تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں قبریں بھی تعمیر ہوتی گئیں۔ اس زمانے میں مسجد صرف مذہبی کردار تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ پوری طرح سے ایک اسلامی کمپلیکس یا سوشل سنٹر ہوا کرتی تھی۔ آج بھی اس مسجد کے ارد گرد کئی چیزیں موجود ہیں، جہاں مذہبی، سماجی اور ثقافتی تینوں ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اصل کمپلیکس سے تعلق رکھنے والے ہاسپٹل، کچن اور حمام اب یہاں موجود نہیں ہیں۔ لیکن آج بھی بدھ کے دن اس مسجد کے آس پاس گلیوں میں ایک ہفتہ وار بازار لگتا ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔

مسجد کے ارد گرد وسیع و عریض پارک بھی ہے۔ خوبصورت فواروں سے اڑنے والا پانی ہوا کے ذریعہ فضاء پھیل جاتا ہے تو اس کی پُھوار چہرے کو تر وتازہ بنا دیتی ہے۔ یہاں بیٹھنے کے لیے بنچ بھی ہیں۔ سردیوں میں لوگ نماز کے بعد اپنے افراد خاندان کے ساتھ پارک میں بیٹھ کر دھوپ کا لطف لیتے ہیں، انہیں دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی تفریحی مقام پر آگئے ہیں۔ کئی لوگ کچھ نہ کچھ کھانے کی چیزیں لے کر آئے ہیں۔ جو لوگ نہیں لے کر آئے ہیں ان کے لیے مسجد کیمپس سے باہر کنافے جیسی ایک مٹھائی ملتی ہے لوگ یہی خرید کر لاتے ہیں اور یہاں بیٹھ کر اس کے ذائقے کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اس کی قیمت صرف پانچ لیرا ہے۔

اسی کیمپس میں بچے سائیکل اسکیٹنگ اور فٹ بال کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مسجد کے سامنے کا صحن مقامی لوگوں کے لیے جمع ہونے کی ایک پسندیدہ جگہ ہے۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ آس پاس کے لوگوں کو اگر کسی سے ملاقات کرنا ہوتا ہے تو وہ انہیں یہیں بلا کر ملاقات کرتے ہیں۔

مسجد اور اس احاطے میں جگہ جگہ موجود بلیاں اور لوگوں کا ان کے ساتھ پیار ایک الگ ہی احساس دلاتا ہے۔ ہمارے وطن میں اگر کوئی بلی مسجد کے اندر چلی جائے تو فوراً اسے باہر بھگا دیا جاتا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ مسجد کے اندر بھی لوگ بلیوں سے پیار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مسجد کی خوبصورتی یہاں موجود کبوتروں سے بھی ہے۔ لوگ کبوتروں کو دانہ ڈال رہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں کبوتر ایک ساتھ دانہ چگتے ہیں اور جب بچے ان کی طرف دوڑتے ہیں تو تمام کبوتر ایک ساتھ اڑ جاتے ہیں۔ یہ منظر بھی دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ قریب کھڑے زیادہ تر لوگ اس منظر کو اپنے موبائل کیمرے میں قید کرنے میں مشغول ہیں۔

مسجد میں ہر مذہب کے لوگ داخل ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو مسجد کے ایک کونے میں دنیا کی تمام زبانوں میں اسلام کی بنیادی باتوں پر مشتمل فولڈرس مفت رکھے ہوئے ہیں۔ اسی مسجد میں سامنے کی طرف ایک چھوٹی سی لائبریری بھی ہے جس میں قرآن اور اسلامی کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ لوگ گروپ کی شکل میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے نظر آتے ہیں۔ مسجد کمپاؤنڈ کے قبلہ کی طرف اس سے جڑی ایک گنبد والی لائبریری ہے، جسے 1742ء میں سلطان محمود اول نے تعمیر کروایا تھا۔ اس لائبریری کا ایک دروازہ سڑک پر، جبکہ دوسرا دروازہ مسجد کے اندرونی صحن میں کھلتا ہے۔ اس لائبریری کو دیکھنے کی بڑی خواہش تھی لیکن آج یہ بند تھی۔ تین سال قبل میں جب میں یہاں آیا تھا تو لائبریری کے اندر مرمت کا کام چل رہا تھا اور اس کی کتابیں سلیمانی لائبریری میں محفوظ رکھی گئی ہیں۔

مسجد کے کمپاؤنڈ سے باہر نکلنے پر سامنے کی طرف بازار ہے۔ جہاں آج بھی گلی کا نام ’اسلامبول‘ لکھا ہوا ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام ’اسلام بول‘ رکھا تھا۔ کافی دنوں تک اس شہر کو عثمانی سلطنت کے دارالحکومت کے طور پر اسے ’اسلام بول‘ ہی کہا جاتا رہا۔ کچھ معاصر مصنفین نے اسے خود سلطان محمد فاتح کی ایجاد قرار دیا ہے۔ سترہویں صدی کے کچھ عثمانی ذرائع اسے اس وقت کا عام ترک نام قرار دیتے ہیں کہ سترہویں و اٹھارہویں صدی کے شروع میں ’اسلام بول‘ رسمی طور پر استعمال میں تھا۔ سکوں پر ’اسلام بول‘ کا پہلا استعمال 1703ء میں سلطان مصطفیٰ سوم کے دور میں ہوا۔ لیکن یہ ’اسلام بول‘ آہستہ آہستہ کب استنبول میں تبدیل ہو گیا؟ اس پر یہ راقم ریسرچ میں لگا ہوا ہے۔ جیسے ہی کچھ اہم معلومات ملیں گی، انشاءاللہ اس سفرنامہ کے ذریعے آپ سب کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔

استنبول کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس شہر نے اپنی تاریخ کو اب تک بچا کر رکھا ہے۔ یہ شہر تاریخی مقامات سے بھرا پڑا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ شہر ایک سبق کی طرح ہے کہ کاش! ہم نے بھی اپنی تاریخ پر کچھ توجہ دی ہوتی۔ ہم نے بھی مجاہدین آزادی کی یادوں کو سنبھال کر رکھا ہوتا تو آج جو ہمارے وطن میں نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش چل رہی ہے وہ کامیاب نہ ہوتی۔

***

 سلطان فاتح نے مسجد کی تعمیر انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ کی تھی۔ اس مسجد کے ساتھ آٹھ مدارس، کتب خانے، شفا خانے، مسافر خانے، کاروان سرائے، بازار، حمام، ابتدائی مدرسہ اور لنگر خانے وغیرہ موجود تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں قبریں بھی تعمیر ہوتی گئیں۔ اس زمانے میں مسجد صرف مذہبی کردار تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ پوری طرح سے ایک اسلامی کمپلیکس یا سوشل سنٹر ہوا کرتی تھی۔ آج بھی اس مسجد کے ارد گرد کئی چیزیں موجود ہیں، جہاں مذہبی، سماجی اور ثقافتی تینوں ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اصل کمپلیکس سے تعلق رکھنے والے ہاسپٹل، کچن اور حمام اب یہاں موجود نہیں ہیں۔ لیکن آج بھی بدھ کے دن اس مسجد کے آس پاس گلیوں میں ایک ہفتہ وار بازار لگتا ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021