سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایڈووکیٹ محمود پراچہ کے دفتر پر پولیس چھاپے کی مذمت کی

نئی دہلی، دسمبر 28: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آج دہلی پولیس کے ذریعے وکیل محمود پراچہ کے دفتر پر چھاپے مارنے کی مذمت کی، جو فروری میں دارالحکومت میں ہونے والے بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق مقدمات میں متعدد ملزمان کی نمائندگی کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پراچہ کے خلاف کارروائی سے وہ حیران اور مایوس ہیں، جو ایک ’’غیر منطقی، غیر قانونی اور طاقت کا غلط استعمال ہے۔‘‘

بار ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ پراچہ کے دفتر سے خفیہ معلومات ضبط کرنا کسی بھی وکیل کے آزادانہ طور پر کام کرنے کے حق کو دھچکا ہے۔ ایسو سی ایشن نے کہا ’’پولیس کی جانب سے کسی وکیل کے احاطے میں کی جانے والی تلاشی اور قبضہ ایک بدنیتی پر مبنی کارروائی ہے جو کسی وکیل کے خوف اور جانب داری کے بغیر اپنے پیشے پر عمل کرنے کے حقوق کی پامالی کرتی ہے۔‘‘

ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ اس طرح کے چھاپے ایک وکیل کو پولیس کے دھمکیوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش ہیں۔

بار ایسو سی ایشن نے مزید کہا کہ پولیس کی یہ کارروائی غیر آئینی ہے اور اس سے وکیل اور موکل دونوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

ایسوسی ایشن نے مجسٹریٹوں کے ذریعے لگاتار وکلا کے خلاف سرچ وارنٹ دینے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا اور اسے منصفانہ سماعت کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔

بار ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا کہ دہلی پولیس پراچہ سے ضبط شدہ آلات سے برآمد شدہ معلومات کا استعمال بند کرے۔

واضح رہے کہ جمعرات کے روز دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے پراچہ کے دفتر پر چھاپہ مارا تھا۔ وکیل نے بتایا کہ پولیس نے ان کا کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ قبضے میں لے لیا ہے۔

پراچہ کے خلاف پولیس کی کارروائی نے زبردست غم و غصے کو جنم دیا اور بہت سے لوگوں نے اسے غیرقانونی اور طاقت کا غلط استعمال قرار دیا۔

واضح رہے کہ دہلی پولیس پہلے سے ہی دہلی فسادات کی تحقیقات کے معاملے اپنے کردار کو لے کر تنقید کے گھیرے میں ہے۔ دہلی پولیس پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ دہلی فسادات کے دوران کچھ واقعات میں، زیادہ تر مسلم محلوں میں، یا تو عدم فعال تھی یا خود بھی تشدد میں ملوث تھی۔