دہلی ہائی کورٹ نے ایک شخص کو غیر قانونی طور پر آدھے گھنٹے تک حراست میں رکھنے والے دو پولیس افسران کو حکم دیا کہ وہ اسے ہرجانہ دیں

نئی دہلی، اکتوبر 6: دہلی ہائی کورٹ نے جمعرات کو دو پولیس سب انسپکٹرز کو ایک ایسے شخص کو 50,000 روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا، جسے انھوں نے ستمبر 2022 میں آدھے گھنٹے تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا تھا۔

یہ رقم سب انسپکٹر راجیو گوتم اور شمیم خان کی تنخواہوں سے کاٹ کر ادا کی جائے گی، جنھوں نے درخواست گزار پنکج کمار شرما کو حراست میں لیا تھا۔

یہ واقعہ 2 ستمبر 2022 کو پیش آیا تھا، جب ایک خاتون شرما کی دکان پر آئی اور کہا کہ اسے ایک سبزی فروش نے چاقو مارا ہے۔ جس کے بعد شرما نے پولیس کو بلایا۔ دو پولیس سب انسپکٹر موقع پر پہنچے اور شرما کو بغیر کوئی ابتدائی اطلاع درج کرائے شرما کو حراست میں لے کر لاک اپ میں ڈال دیا۔

جمعرات کو جسٹس سبرامنیم پرساد نے کہا کہ اگرچہ عرضی گزار کو صرف تھوڑے وقت کے لیے لاک اپ میں رکھا گیا تھا، لیکن اسے اس کی آزادی، یعنی آئین کی دفعہ 21 کے تحت محفوظ کردہ حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔

پرساد نے کہا ’’یہ عدالت اس حقیقت سے سخت پریشان ہے کہ درخواست گزار کو گرفتار بھی نہیں کیا گیا۔ اسے محض وہاں سے اٹھایا گیا، پولیس اسٹیشن لایا گیا اور بغیر کسی وجہ کے لاک اپ کے اندر رکھا گیا۔ پولیس حکام نے جس طرح سے ایک شہری کے آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، یہ خوف ناک ہے۔‘‘

عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس حکام نے انکوائری کی ہے اور دونوں پولیس افسران کی سرزنش کی گئی ہے۔

لیکن عدالت نے کہا کہ صرف سرزنش ناکافی ہے۔

عدالت نے کہا ’’تعزیرات کی سزا جس سے پولیس افسران کے کیریئر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، افسر کے لیے کافی رکاوٹ نہیں ہوگا۔ سرزنش اس نوعیت کی ہونی چاہیے کہ دوسرے افسران بھی مستقبل میں ایسی حرکتوں کی تقلید نہ کریں۔ اس عدالت کی رائے ہے کہ حکام کی طرف سے ایک بامعنی پیغام جانا چاہیے کہ پولیس افسران قانون اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتے۔‘‘