سوشلسٹ رہنما ڈاکٹررام مَنوہرلوہیا

سماجی نابرابریوں کے خلاف لوہا لینے والی شخصیت

ابھے کمار، دلی

ذات پات کے خلاف لڑائی کو منطقی انجام تک پہچانے کی ضرورت
ان دنوں پورے ملک میں سوشلسٹ ڈاکٹر لیڈر رام مَنوہر لوہیا کی یوم ولادت منائی جا رہی ہے۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ان کی عمر ۱۱۲ سال ہوتی۔ ۲۳ مارچ ۱۹۱۰ کو اتر پردیش کے ضلع فیض آباد میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے گھر والوں کا پیشہ لوہے کی تجارت تھا۔ تجارت کے ساتھ ساتھ سیا ست بھی ان کو وراثت میں ملی۔ ان کے والد ہیرا لال کانگریس کے بڑے حامی تھے۔ ۱۹۳۰ کی دہائی میں شروع ہونے والی سِول نافرمانی تحریک کے دوران، ہیرا لال جیل بھی گئے۔ لوہیا کی تعلیم کاشی، کلکتہ اور جرمنی میں ہوئی۔ جرمنی سے انہوں نے نمک ستیہ گرہ اور محصولات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ۔جرمنی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ انہوں نے طلبائی سیاست میں بھی حصہ لیا اوربھارت کی قومی تحریک کی آوازبیرون ملکوں تک پہنچائی۔ حالانکہ وہ کانگریس کے بڑے لیڈروں کے قریب تھے اور ملک کو آزاد کرانے میں انہوں نے بڑی قربانی دی تھی ، مگر جب ملک آزاد ہوا اور اقتدار کی کرسی پر کانگریس براجمان ہوئی تو لوہیا اقتدارکے گلیاروں میں رہنے کے بجائے حزب اختلاف کی صفوں میں جا بیٹھے ۔
اپنی ۵۷ سال کی زندگی میں لوہیا نے بہت کچھ پڑھا اور لکھا۔ حالانکہ ان کی پی ایچ ڈی شعبہ اقتصادیات میں تھی،مگر ان کی دلچسپی دیگر مضامین میں بھی تھی۔ وہ فلسفہ اور تاریخ کے بھی گہرے طالب علم تھے۔ انہوں نے سوشلزم ، تاریخ، زبان، ذات پات، نا برابری، بین الاقوامی اور خارجی امور کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ ان کی ساری تحریروں کا ایک جگہ تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہے، انہوں نے ۲۶ جون، ۱۹۶۲ میں نینی تال میں ایک چھوٹا سا پرچہ لکھا ، جو ’’سات انقلاب ‘‘کے عنوان سے شائع ہوا۔
پرچہ کی شروعات لوہیا نےبیسویں صدی کے حالات سے کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی ۲۰ ویں صدی میں دیکھنے کو ملی ہے ، جہاں لاکھوں معصوم لوگوں کی جانیں سامراجیت نے لیں۔ انہوں نے کہا کہ سامراجی ممالک نے غلام ملکوں کے لوگوں کا خون بہانے میں سابقہ سارے رکارڈ توڑ دیے ہیں۔ افریقہ میں واقع ملک کانگو کی مثال دیتے ہوئے لوہیا نے کہا کہ گزشتہ ۷۰ سے ۸۰ سالوں میں وہاں ۶۰ لاکھ لوگوں کوکسی نہ کسی طریقہ سے ہلاک کر دیا گیا ہے۔نہ صرف لوگوں کی جانیں لی گئی ہیں ، بلکہ سامراجیت نے ان ملکوں میں زبردست استحصال بھی کیا۔ انہوں نے بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھلے ہی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو گولی مار کر قتل نہیں کیا گیا ، مگر بھوک کی وجہ سے بھارت میں ۴۰ تا۶۰ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح جرمنی میں ہٹلر نے ۵۰ لاکھ یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
لوہیا نے جہاں ۲۰ویں صدی کوانسانی تاریخ کا سب سے تباہ کن دور کہا تھا، وہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا، اس دور کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ظلم و زیادتی اور ناانصافیوں کے خلاف کئی محاذوں پر ایک ساتھ مزاحمت ہو رہی ہے۔ ‘‘بیسویں صدی کی دو مخصوص پہچان ہیں۔ اول،یہ سب سے ظالمانہ دور رہا ہے۔ دوّم، جس طرح سے اس دور میں ناانصافی کے خلاف جنگ چل رہی ہے، ویسی جنگ انسانی تاریخ کے کسی دور میں نہیں دیکھی گئی۔ یہ صدی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں ظلم بھی دیکھا گیا ہے اور اس کو ختم کرنے کی ایک خواہش بھی دیکھی جا رہی ہے‘‘ ( رام منوہر لوہیا ، سات انقلاب، مَست رام کپور، رام منوہر لوہیا ، ان انٹروڈکشن، ص۔ ۲۰۹)۔
لوہیا اس بات سے خوش تھے کہ انصاف کے لیے دنیا کے ہر ملک سے آواز اُٹھ رہی ہے۔ بقول لوہیا، اس صدی کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر طرح کی ناانصافی کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ لوہیا ایک طرح کی ناانصافی کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ مختلف اقسام کی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ۔ لوہیا یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان ناانصافیوں کے خلاف سات طرح کے الگ الگ انقلاب پوری دنیا میں چل رہے ہیں ۔لوہیا کی نظر میں انقلاب کے تعلقات نا برابری کو ختم کرنے کی مہم سے جڑےہوئے ہیں۔ لوہیا سمجھتے تھے کہ عدم مساوات صرف اقتصادی بنیاد پر ہی نہیں برتا جارہا ہے بلکہ اس کے تار سامراجیت، رنگ، ذات اور خواتین مخالف سوچ اور اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔
عالمی اور ملکی سطح پر عدم مساوات کی بات کرنےوالے لوہیا اس بات سے بھی افسردہ تھے کہ ملک کے حاکم اور حکمران فضول خرچی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اس وقت کے وزیر اعظم کے ایک دن میں ۲۵ سے ۳۰ ہزار روپیہ خرچ کرنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک مزدور کی ایک دن کی آمدنی بقول لوہیا صرف ۵۰ پیسہ ہے۔ لوہیا یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کی نا برابری دنیا میں اور کہیں نہیں دکھائی دیتی ہے۔ لوہیا برابری کے بڑے قائل تھے اور ان کو کسی بھی طرح کی درجہ بندی پسند نہیں تھی۔ یہ ان کی بڑی بہادری تھی کہ انہوں نے ایک انتخاب میں ایک صفائی ملازمہ کواپنی پارٹی سے ٹکٹ دیا تھااور اسے انہوں نے ایک رانی امیدوار کے خلاف کھڑا کیا تھا۔ رانی کے خلاف ایک مہتر انی کومقابلہ میں لا کر لوہیا سماج کے اندر موجود نا برابری کے نظام اور اس طرح کی سوچ کے خلاف ہتھوڑے برسا رہے تھے۔
لوہیا نے ذات پات کی ناانصافی کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ ان کو یہ بات قطعی پسند نہیں تھی کہ سماج کے اندر میں کوئی اعلیٰ ذات کے طور پرپہچانا جائے اور تو کوئی پسماندہ ذات کہہ کر تعصب کا شکار بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ذات پات کے مسائل بھارت میں ہی پائے جاتے ہیں مگر اس کے اثرات دیگر ملکوں میں بھی موجود ہیں۔ بقول لوہیا انسانی تاریخ ذات اور طبقاتی نظام کے بیچ میں جھول رہی ہے۔ انہوں نے طبقہ یعنی کلاس کو ڈھیلی ذات کہا ، وہیں ذات کو متحجر طبقہ کہا۔ اس طرح یہ بات صاف ہے کہ لوہیاطبقاتی نظام اور ذات کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھتے تھے ، بلکہ ان کے درمیان تعلقات پر زور دیتے ہیں۔ لوہیا کی یہ بات بہت اہم ہے کہ ذات اور طبقہ کی لڑائی ایک ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر اسے الگ الگ پلیٹ فارموںپر لڑا جاتا ہے۔
لوہیا مرد اور عورت کے درمیان موجود نا برابری کے بھی سخت مخالف تھے، اس لیے وہ خواتین سمیت دیگر محروم طبقات کے لیے خصوصی مواقع کی بات کرتے تھے۔ لوہیا یہ سمجھتے تھے کہ جب دلت، آدی واسی ، پچھڑے طبقات اور اقلیتوں کی حالت بہتر ہو جائے گی توخصوصی مواقع کی معنویت ختم ہو جائے گی۔ مگر جب تک وہ برابری نہیں پا لیتے تب تک ان کو ریزرویشن ملنا چاہیے۔ وہیں دوسری طرف وہ خواتین کے لیے ہمیشہ کے لیے خصوصی مواقع کی بات کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوہیا سمجھتے تھے کہ خواتین فطری طور سے کمزور ہوتی ہیں۔
اس لیے لوہیا کی پارٹی نے محکوم طبقات کے لیے ۶۰ فیصد ریزریشن کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ بات لوہیا کو بخوبی معلوم تھی کہ نام نہاد صلاحیت کی بنیاد پر محکوم طبقات کے امیدواروں کو باہر کا راستہ دکھایا جاتا ہےمحکوموں کے خلاف اس طرح کا تعصب اس وقت بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔آج بھی محکوم طبقات کو کم نمبر دیے جاتے ہیں اور ان کو بڑے منصب پر بیٹھے ہوئے اعلیٰ ذات کے لوگ باہر کر دیتے ہیں۔ اس ناانصافی کو لوہیا اسی زمانے میں سمجھ گئے تھے تبھی تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر دلت، آدی واسی، اقلیت، پچھڑے اور خواتین زمرہ سے امیدوار کم صلاحیت بھی رکھتے ہوں، تب بھی ان کو ریزرویشن دیا جائے کیونکہ موقع پانے کے بعد وہ اپنی صلاحیت کو بہتر کریں گے۔
مذکورہ پرچہ کے آخر ی حصہ میں لوہیا نے گرہ کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہر انسان ستیہ گرہ کرنا شروع کر دے، تو پوری دنیا کو بچایا جا سکتا ہے۔ انہوں نےکہا کی دلیل اور منطق اہم ہے ، مگر یہ کمزور حقیقت مانی جاتی ہے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ منطق اور دلیل بے لگام نہ رہے۔ اگر ایسا ہوا تو تشدد برپا ہوگا۔ اس لیے لوہیا عقل ودلیل کو ستیہ گرہ سے جوڑنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ مثال کے طور پر اگر عقل ودلیل کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ جانوروں کی طرح زور زبردستی کام لیں گے۔ مگر جب معقولیت کے ساتھ ایک ایسا فلسفہ جڑ جاتا ہے جو یہ کہتا ہو کہ تشدد کی راہ پر چلے بغیر ظلم، زیادتی اور ناانصافی کی مخالفت ہر حال میں کی جائے تو اچھا نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس طرح ستیہ گرہ کو اختیار کیے بغیر نہ تو نا انصافی کے خلاف لڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی تشدد کی آگ کو بجھایا جا سکتا ہے۔
لوہیا شخصی آزادی کے بہت بڑے حامی تھے۔ وہ اپنی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف بھی بولنے اور لکھنے سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان کا ایقان تھا کہ انسان کی شخصی آزادی میں سرکار اور سماج کی طرف سے کوئی بھی مداخلت نہیں ہونی چاہیےتبھی تو وہ کہتے تھے کون کس سےشادی کرے گا اس پر بھی کوئی روک نہیں ہونی چاہیے ۔کسی شخص کی پسند اور نا پسند کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ لوگوں کی ذاتی زندگی میں کوئی مداخلت نہ ہو۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمین کو کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے سے روکا نہیں جانا چاہیے۔
مگر جس بات کے لیے لوہیا بار بار جیل گئے آج وہی سب کچھ بھارت میں ہو رہا ہے۔ ’لوجہاد‘ کے نام پر لوگوں کو آپسی پسند سے شادی کرنے پرسزا دی جا رہی ہے۔ بھگوا سرکار’لوجہاد‘ کے نام پر بہت سارے مسلمان نوجوانوں کو جیل بھیج رہی ہے، وہیں نام نہاد زبردستی تبدیلیٴ مذہب کو روکنے کے لیے ایسے ایسے خطرناک قانون لائے جا رہے ہیں جو دستور کے مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔ اتنا ہی الگ سیاسی نظریہ رکھنے پربھگوا حکومت اپنے ناقدین پر روز بروز حملے کر رہی اور اور ان کے ساتھ ہر موڑ پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ طلبہ کے جائز مسائل کو سننے اور ان کو تعلیم ، سہولت، نوکری دینے کے بجائے سیاست کرنے کا الزام لگا رہی ہے اور انہیں دانستہ طور پر پریشان کر رہی ہے۔ لوہیا کی ان باتوں کو بھگوا سرکار سرکار آسانی سے فراموش کر دیتی ہے، مگر اسے یہ بات کہنے کی بڑی جلدی رہتی ہے کہ لوہیا کانگریس کے سخت مخالف تھے۔ بھگوا طاقتوں کو یہ کون بتلائے کہ لوہیا اقتدار کے نشہ میں چور اور عوام مخالف کاموں کو انجام دینے والی سرکار کے خلاف تھے۔ اگر لوہیا آج زندہ ہوتے تو بھگوا طاقتوں کے ظلم اور زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا کام کرتے۔
(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں)
***

 

***

 اس لیے لوہیا کی پارٹی نے محکوم طبقات کے لیے ۶۰ فیصد ریزریشن کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ بات لوہیا کو بخوبی معلوم تھی کہ نام نہاد صلاحیت کی بنیاد پر محکوم طبقات کے امیدواروں کو باہر کا راستہ دکھایا جاتا ہےمحکوموں کے خلاف اس طرح کا تعصب اس وقت بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔آج بھی محکوم طبقات کو کم نمبر دیے جاتے ہیں اور ان کو بڑے منصب پر بیٹھے ہوئے اعلیٰ ذات کے لوگ باہر کر دیتے ہیں۔ اس ناانصافی کو لوہیا اسی زمانے میں سمجھ گئے تھے تبھی تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر دلت، آدی واسی، اقلیت، پچھڑے اور خواتین زمرہ سے امیدوار کم صلاحیت بھی رکھتے ہوں، تب بھی ان کو ریزرویشن دیا جائے کیونکہ موقع پانے کے بعد وہ اپنی صلاحیت کو بہتر کریں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022