سست روی سے پٹری پر لوٹتی ہوئی بیمار معیشت

مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور زراعت کے شعبوں کا بہتر مظاہرہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

ملکی معیشت نے ٹیکنیکل سستی سے اور مندی کی بھنور سے نکل کر اکتوبر تا دسمبر کی سہ ماہی میں 4 فیصد کی بہتری درج کی ہے کیونکہ مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور زراعت نے بہت اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ نیشنل اسٹیٹسٹیکل آفس (ایس ایس او) کے جمعہ کے اعلامیہ کے مطابق معیشت پھر بھی پورے مالی سال 2020تا 21میں 7.7فیصد کے گزشتہ اندازہ کے برخلاف 8 فیصد تنزلی کا شکار ہوگی۔ این ایس او کا دوسرا پیشگی اندازہ دراصل انڈیکس آف انڈسٹریل پروڈکشن (آئی آئی پی) کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ گزشتہ مارچ میں کورونا قہر کی وجہ سے بڑی جلد بازی میں بغیر منصوبہ بندی کے سخت ترین لاک ڈاون نافذ کیا گیا تھا۔ وزارت خزانہ نے اپنے اعلامیہ میں تیسری سہ ماہی میں اس بہتری کو ‘V’شکل کی ریکوری قرار دیا اور خبردار کیا کہ ملک ابھی کورونا کے مہلک خطرات سے باہر نہیں ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ملکی جی ڈی پی پہلی اور دوسری سہ ماہیوں میں بالترتیب 23.9 فیصد اور 7.5فیصد کی تنزلی رہی۔ اس کی وجہ ملک ٹکنیکل ریسیشن میں چلا گیا۔ مگر تیسری سہ ماہی اکتوبر تا دسمبر 2020 میں مینو فیکچرنگ میں 1.6فیصد کی بہتری آئی جبکہ 6.2 فیصد کی رفتار سے تعمیرات کے شعبہ میں تیزی آئی۔ اس طرح زراعت میں بھی تیسری سہ ماہی 3.9 فیصد ترقی ہوئی۔ کانکنی، کمیونیکیشن، ہوٹلس، براڈ کاسٹنگ خدمات اور پبلک ایڈمنسٹریشن ابھی بھی منفی خطہ میں ہی ہے۔ اس لیے چوتھی سہ ماہی میں این ایس او کے جائزہ کے حساب سے پھر سے 1.1 فیصد تنزلی کا امکان ہے۔ وزارت مالیات کا ماننا ہے کہ تیسری سہ ماہی کی کامیابی دراصل حکومت کی بڑی کاوشوں ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ کے عنوان سے سامنے آئی ہے اور اسی وجہ سے V شکل کی ریکوری ممکن ہو سکی۔ 2011 تا 12کی بنیاد پر 2020اور 21کی تیسری سہ ماہی میں ممکنہ جی ڈی پی 36.22 لاکھ کروڑ روپے رہی ہے۔ جی ڈی پی کے اعداد و شمار میں اس بار جنوری میں بزنس سرگرمیاں بھی تیز رہیں۔ آر بی آئی نے مالی سال 2020 میں ملکی معیشت میں 10.5فیصد کی بہتری کا اندازہ لگایا ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ 11 فیصد کے گروتھ کا ہے اور مالی خسارہ 12.34 لاکھ کروڑ روپیوں کا ہے۔ یہ مالی خسارہ 10 ماہ میں جنوری تک کا ہے۔ یہ حکومت کے اعداد و شمار کی بنیاد پر بجٹ کے ہدف کا پورے مالی سال میں 66.8 فیصد ہے۔ کیونکہ ٹیکس سے 11.02 لاکھ کروڑ روپے کی وصولی ہوئی جبکہ خرچ 25.17 لاکھ کروڑ روپے رہا۔ حکومت نے امسال خسارہ کے اندازہ کو بدل کر 9.5 فیصد کیا ہے۔ واضح رہے کہ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کسی ایک سال میں ملک میں پیدا ہونے والی تمام اشیا کی کل قیمت کو کہا جاتا ہے یہ کسی ملک کی معاشی ترقی کا سب سے بڑا پیمانہ ہے۔ بہتر جی ڈی پی کا مطلب ہے کہ ملک میں معاشی ترقی ہورہی ہے اور معیشت میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہورہے ہیں اور طلب میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ کن شعبوں میں کس رفتار سے ترقی ہو رہی ہے اور کن شعبوں میں تنزلی۔ گزشتہ سال ملک میں ایک سہ ماہی میں تقریباً جی ڈی پی ایک چوتھائی سکڑ گئی تھی۔ وہیں ملک مالی خسارہ کے اونچائی پر پہنچ جانے سے مشکلات جھیلتا رہا۔ اب طلب پیداوار اور آمدنی کے متحرک ہونے سے مالی خسارہ میں کمی آنے کا اندازہ ہے۔ مسافر گاڑیوں کی فروخت طلب کی بڑی علامت ہے۔ جاریہ سال جنوری میں گزشتہ سال جنوری کے مقابلہ میں 11.4 فیصد کی اس شعبہ میں بہتری ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ امسال بے مثال زرعی پیداوار سے بھی غذائی مالی خسارہ میں تنزلی ہوئی۔ حکومت نے بھی لاک ڈاون میں پریشان حال لوگوں کو راحت فراہم کی ہے۔ حالیہ بجٹ میں صنعتوں کو رفتار دینے کے لیے اچھی خاصی رقم مختص کی ہے۔ زرعی شعبہ نے برآمدات میں اضافہ کر کے معیشت کو مضبوطی فراہم کی ہے۔ ساتھ ہی امسال جنوری میں انجینئرنگ میں کام آنے والے سامان، قیمتی پتھر، زیوارت، ٹیکسٹائل اور خام لوہے کے برآمدات میں تیزی آئی ہے۔ آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس نے بھی یقین دلایا ہے کہ معیشت اہم موڑ پر ہے۔ اسی بھروسہ اور اعتماد میں اضافہ کی وجہ سے شیئر بازار میں اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کل ملا کر جنوری فروری میں سبھی شعبوں میں بہتری آئی ہے۔ پیداوار کے بڑھنے کے ساتھ روزگار، آمدنی اور طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ لاک ڈاون کی وجہ سے تباہ ہو جانے والی ملکی معیشت دوبارہ پٹری پر لوٹتی نظر آرہی ہے۔ موجودہ معاشی بہتری میں مالی تکنک سے بھرپور استفادہ اور اسٹارٹ اپ سے صنعتوں میں کافی جوش آیا ہے۔ بینکوں کے ذریعے قرض کی فراہمی نے صنعتوں کو مہمیز دینے میں بڑا کام کیا ہے۔ اس طرح ٹکنالوجی کی وسعت اور وسائل کی فراہمی نے گاوں اور قصبوں میں کاروبار اور دیہی صنعت کو بڑھاوا دینے کا کام کیا ہے۔ ہماری آبادی کا 60فیصد حصہ گاوں اور دیہات میں رہتا ہے۔ اس کا بڑا طبقہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اب نوجوانوںنے بڑے شہروں کے بجائے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں کاروبار کرنے کو ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ اس سے دیہی علاقوں میں روزگار کے بہتر مواقع پیدا ہوں گے۔ وہاں معاشی خوشحالی بھی آئے گی۔ مقامی پیداوار کی خریداری کو بڑھانے کے لیے حکومت کے معاشی اصلاحات کو تحریک دے کر معیشت میں وسعت کا راستہ کھول دیا ہے جس میں سب سے اہم کردار بینکوں کا ہے کیونکہ بینک معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ تجارت اور صنعت کو پونجی اور سرمایہ کی ضرورت پڑتی ہے جو بینک ہی فراہم کر سکتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں حکومت نے عوامی شعبہ کے بینکوں کے ذریعے خطیر مقدار میں سرمایہ فراہم کیا ہے۔ گزشتہ دہائیوں سے بینکوں نے اقدامی طور پر بے ہنگم طریقے سے تاجروں اور صنعت کاروں کو قرض فراہم کیا ہے جس سے غیر پیداواری اثاثہ (این پی اے) کا بڑا چیلنج بینکوں کے سامنے منہ کھولے کھڑا ہے۔ ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے آر بی آئی نے بینکوں کی انتظامی امور کی درستگی کے لیے بہت سارے ضابطے بنائے ہیں۔ اس لیے سرمایہ فراہم کرنے میں احتیاط اور سوچ سمجھ کر نئے صنعت کاروں اور کاروباریوں کو قرض دینے میں تردد نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ سرمایہ اکٹھا کرنے میں ہونے والی پریشانیوں اور مشکلات سے ایسے کاروباروں کو صنعتوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ مگر بینکوں کے مثبت کردار سے ہی ان کے مشکلات کا سد باب ممکن ہے۔
امسال جنوری میں آٹھ بنیادی شعبوں (Core Sectors) کی پیداوارمیں 0.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ اسٹیل، الکٹریسٹی اور فرٹیلائزرس شعبوں میں ترقی سے بنیادی شعبوں میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ جنوری 2020میں بنیادی شعبوں کی پیداور میں 2.2 فیصد کی ترقی ہوئی تھی۔ وزارت تجارت و صنعت کی طرف سے گزشتہ جمعہ کو جاری کیے گئے اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ جنوری میں سمنٹ، خام تیل، قدرتی گیس وغیرہ میں منفی نمو دیکھنے کو ملی ہے جبکہ بجلی کے شعبہ میں 5.1 فیصد، اسٹیل کے شعبہ میں 2.6 فیصد اور کھاد کے شعبہ میں 2.7 فیصد کے ساتھ پیداوار میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اپریل تا جنوری 2020 تا 21 کے درمیان آٹھوں کور شعبوں کے آوٹ پٹ 8.8 فیصد کی تنزلی دیکھنے کو ملی ہے۔ گزشتہ سال اسی مدت میں 0.8 فیصد بنیادی شعبوں کی پیداورا میں 0.8 فیصد کی بہتری دیکھنے کو ملی تھی۔ انڈیکس آف انڈسٹیریل پروڈکشن میں آٹھ کور سیکٹرس کی شراکت داری 40.27 فیصد کے قریب ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق کورونا قہر سے منسلک حالات میں بہتری اور عوامی خرچوں میں اضافہ سے جی ڈی پی میں ترقی مثبت ہو پائی ہے۔ ماہر اقتصادیات وبندھن بنک کے چیف اکنومسٹ سدھارتھ سانیال نے کہا ہے کہ جاریہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں 0.4 فیصد کی سالانہ ترقی تجزیہ کاروں کے حسب منشا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسٹیل، الکٹریسٹی اور فرٹیلائزرس شعبوں میں ترقی سے بنیادی شعبوں میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ جنوری 2020میں بنیادی شعبوں کی پیداور میں 2.2 فیصد کی ترقی ہوئی تھی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021