تو کس نے لکھی ہے ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے …‘

سوشل میڈیا پر مشہور غزل ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے …‘ کو رام پرساد بسمل کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔

افروز عالم ساحل

11؍جون ہندوستان کے ایک انقلابی ومعروف مجاہد آزادی رام پرساد بسمل کا یوم پیدائش کا دن ہے۔ آج ہی کے دن 1897ء میں وہ مدھیہ پردیش کے مورینا ضلع کے تومرگھار علاقے کے گاؤں بربائی میں پیدا ہوئے۔ ان کی یوم پیدائش کے موقع پر سوشل میڈیا پر مشہور غزل ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے …‘ کو رام پرساد بسمل کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔

یہ سچ ہے کہ رام پرساد بسمل نے اسے گایا ضرور ہے لیکن اس کے لکھنے والے در اصل رام پرساد بسمل نہیں بلکہ بسمل عظیم آبادی تھے۔

رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان پر تحقیق اور کتاب لکھ چکے اتر پردیش کے سدھیر ودھیارتھی کا کہنا ہے کہ اس غزل کو رام پرساد بسمل نے گایا ضرور تھا لیکن یہ غزل بسمل عظیم آبادی کی ہے۔ یہ بات خود رام پرساد بسمل کے دوست اور ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک اہم انقلابی ساتھی اور مشہور مصنف منمتھ ناتھ گپت کئی بار لکھ چکے ہیں۔ کافی سال پہلے ہندی کے رویوار نامی میگزین میں ان کا یہ مضمون شائع بھی ہو چکا ہے۔

پٹنہ کے مشہور مورخ پروفیسر امتیاز بھی بتاتے ہیں کہ یہ غزل بسمل عظیم آبادی کی ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ایک دوست رضوان احمد مرحوم اس غزل پر ریسرچ کر چکے ہیں جسے انہوں نے اپنے اخبار عظیم آباد ایکسپریس میں شائع کیا تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، سنٹر فار ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد سجاد کا بھی کہنا ہے کہ ان کی نظر سے آج تک کوئی بھی ایسا سرکاری دستاویز نہیں گزرا جس میں یہ کہا گیا ہو کہ یہ غزل رام پرساد بسمل نے لکھی ہے۔

بسمل عظیم آبادی کے پوتے منور حسن بتاتے ہیں کہ یہ غزل آزادی کے جنگ کے وقت قاضی عبد الغفار کی میگزین ’صباح‘ میں 1922 میں شائع ہوئی تو انگریزی حکومت تلملا گئی۔ ایڈیٹر نے دادا کو خط لکھ کر بتایا کہ برطانوی حکومت نے اس کی اشاعت کو ضبط کر لیا ہے۔

حسن کے مطابق اس غزل کو بسمل عظیم آبادی نے 1921ء میں کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں پڑھا تھا، جب وہ صرف 20 سال کے تھے۔ عظیم محقق قاضی عبدالودود نے بھی اس کی تصدیق کی تھی اور انہوں نے بتایا تھا کہ بسمل عظیم آبادی ان کے ساتھ ہی کلکتہ کانگریس اجلاس میں گئے تھے اور وہاں یہ پوری غزل پڑھی تھی جس میں ابوالکلام آزاد بھی موجو د تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ غزل لکھی تھی تو اپنے استاد شاد عظیم آبادی سے اصلاح بھی کروائی تھی۔ جس کاغذ پر انہوں نے یہ نظم لکھی تھی آج بھی اس کی نقل ان کے پاس موجود ہے اور اس کی بنیادی کاپی پٹنہ کے خدابخش لائبریری میں شاد عظیم آبادی کی اصلاح کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔حسن بتاتے ہیں کہ ’بسمل عظیم آبادی کے ساتھ ایک شام‘ کے نام سے ایک ریکارڈنگ (ٹیپ نمبر -80) آج بھی خدابخش لائبریری میں موجود ہے۔ اس لائبریری کے سابق ڈائریکٹر عابد رضا بیدار کا بسمل عظیم آبادی سے لیا گیا انٹرویو ہے۔ بات چیت میں نہ صرف بسمل عظیم آبادی نے اپنی غزل کا انکشاف کیا ہے، بلکہ اس گایا بھی ہے۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بسمل عظیم آبادی کا غزلیات کا مجموعہ ’حکایت ہستی‘ بھی خدابخش لائبریری میں موجود ہے اس میں یہ غزل شائع ہوئی۔ بہار اردو اکیڈمی کے اقتصادی تعاون سے اس کا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع ہوا تھا۔ ان کے مطابق بہار بورڈ کے بی ٹی سی کی نویں کلاس میں پڑھائی جانے والی اردو کی کتاب ’درخشاں‘ میں بھی لکھا گیا ہے کہ اس غزل کے لکھنے والے بسمل عظیم آبادی ہیں۔

بسمل عظیم آبادی کے رشتے دار عادل حسن آزاد کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک شاعر نہیں بلکہ مجاہد جنگ آزادی بھی تھے لیکن حکومت نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ آج ان کے نام سے بہار میں ایک سڑک تک نہیں ہے۔ جلد ہی وہ اس کے لیے ایک مہم کا آغاز کریں گے۔

اس غزل کا ملک کی آزادی کی جنگ میں ایک اہم کردار ادا رہا ہے یہ غزل رام پرساد بسمل کی زبان پر ہر وقت رہتی تھی۔ 1927 میں سولی پر چڑھتے وقت بھی یہ غزل ان کی زبان پر تھی۔ بسمل کے انقلابی ساتھی جیل سے پولیس کی لاری میں جاتے ہوئے کورٹ میں مجسٹریٹ کو چڑاتے ہوئے اور واپس جیل آتے ہوئے کورس کی شکل اس غزل کو گایا کرتے تھے۔

کون تھے بسمل عظیم آبادی؟

بسمل عظیم آبادی کا اصل نام سید شاہ محمد حسن تھا۔ وہ 1901ء میں پٹنہ سے 30 کلومیٹر دور ہرداس بگہا گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن ایک دو سال کے اندر ہی اپنے والد سید شاہ آل حسن کی موت کے بعد وہ اپنے نانا کے گھر پٹنہ شہر آ گئے جسے لوگ عظیم آباد کے نام سے جانتے تھے۔ بسمل عظیم آبادی نہ صرف شاعر تھے بلکہ ایک اچھے مقرر اور قومی رہنما بھی تھے۔ سیاست کے میدان میں وہ کافی سرگرم رہے۔ انگریزوں سے انہوں سخت نفرت تھی۔

بسمل عظیم آبادی کی لکھی اصل غزل:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

اے شہید ملک وملت میں تیرے اوپر نثار

لے تیری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے

وائے قسمت پاؤں کی اے ضعف کچھ چلتی نہیں

کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے

رہ رو راہ محبت! رہ نہ جانا راہ میں

لذت صحرا نور دی فاصلے منزل میں ہے

شوق سے راہ محبت کی مصیبت جھیل لے

اک خوشی کا راز پنہا جادہ منزل میں ہے

آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار

آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے

مرنے والو آؤ، اب گردن کٹاؤ شوق سے

یہ غنیمت وقت ہے خنجر کف قاتل میں ہے

مانع اظہار آپ کو ہے حیا، ہم کو ادب

کچھ تمہارے دل کے اندر کچھ ہمارے دل میں ہے

مےکدہ سنسان، خم الٹے پڑے ہیں، جام چور

سرنگو بیٹھا ہے ساقی جو تیری محفل میں ہے

وقت آنے دے دکھائے گا تجھ کو اے آسماں

ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ ارماں کی بھیڑ

صرف مٹ جانے کی اک حسرت دل بسمل میں ہے

***