سرد جنگ میں امریکا پر چین کا پلڑا بھاری !

مابعد کورونا دنیا میںطاقت کے توازن میں تبدیلی یقینی

ڈاکٹر رضوان رفیقی ، نئی دلی

وبائی مرض کورونا کی ابتداء سے ہی مختلف دانشوران اور مفکرین یہ بات تسلسل سے کہہ رہے ہیں کہ یہ دورانیہ ماقبل اور ما بعد کے درمیان حدِّ فاصل ہے، کورونا وائرس کے بعد کی دنیا اس وبائی مرض سے پہلے کی دنیا سے بالکل مختلف ہوگی، زندگی گزارنے کے طور طریقے بدل جائیں گے، تجارت ومعیشت کے پیمانے تبدیل ہو جائیں گے، قوّت وسطوت کا نقطہ نظر بدل جائے گا، اس وقت انسانیت اس وبائی مرض کے خلاف برسرِ پیکار ہے اور جس طرح سے اس نے اس سے پہلے بہت سے وبائی امراض پر قابو پایا ہے اس پر بھی قابو پالے گی اور دیر سویر اس مرض کی ویکسین تیار کرلی جائے گی، اور پھر یہ وبا بھی قصئہ پارینہ بن جائے گا۔مگر اس وبائی مرض کے بطن سے ایک اور جنگ نے جنم لیا ہے جس کے شعلے جلد ٹھنڈے ہونے والے نہیں ہیں اور وہ ہے دنیا کی دو طاقتوں چین اور امریکا کے درمیان پیدا ہونے والی خلش اور پھر سرد جنگ (Cold War) کا آغاز جس کی زد میں بہت سارے ممالک آئیں گے اور ممالک کی نئی صف بندی اور خیمہ بندی ہوگی۔
سرد جنگ کی اصطلاح جنگ عظیم دوم کے فوری بعد وجود میں آئی جب عالمی قوتوں کے کس بل ڈھیلے پڑ گئے اور اس کیفیت میں نہیں رہے کہ براہ راست نبرد آزما ہوں، اس لیے زور آزمائی کے لیے میدان جنگ کے بجائے سیاسی، ثقافتی، معاشی اور تجارتی میدانوں کا انتخاب کیا اور اس طر ح امریکا اور سویت یونین کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز ہوا اور تقریباً پانچ دہائیوں تک اس کا سلسلہ دراز رہا یہاں تک کہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں سویت یونین کے سقوط وانتشار پر دیوار برلن کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوا۔دو بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے اسلام، مسلم ممالک اور اسلامی تحریکات کی شکل میں ایک نئے دشمن کا اختراع کرلیا۔ اور پھر اس کا قلع قمع کرنے کرنے کے لیے اپنی کمر کس لی جس کا شکار مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک ہوئے اور اچھی خاصی آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل کردی گئیں۔ افغانستان، عراق، شام اور دیگر عرب ممالک اس کے شاہد ہیں۔ معروف امریکی عسکری مفکر سیمویل ہنٹنگٹن نے اس پورے عمل کو تہذیبی کش مکش کا نام دیا جس میں کئی ممالک تاراج کر دیے گئے۔
چین میں کمیونسٹ ایک طویل عرصے سے اقتدار پر قابض ہیں اور ایک پارٹی نظام ہونے کے ناطے کسی حزب اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، ایسے میں امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ اس پورے اختلاف کو ایک مذہبی رخ دیا جائے۔ امریکہ میں ایک سیاہ فام کے قتل سے پھوٹ پڑنے والے مظاہروں سے پہلے صدر ٹرمپ کی کوئی پریس کانفرنس چین کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی، جس کا خمیازہ عالمی ادارہ صحت ( WHO) کو بھی بھگتنا پڑا جب صدر ٹرمپ نے اس عالمی پلیٹ فارم سے امریکی علیحدگی کا اعلان کیا اور یہ الزام دھرا کہ کورونا وائرس کو عالمی سطح پر پھیلانے کا ذمّہ دار چین ہے لیکن ڈبلیو ایچ او بے جا طور پر چین کی طرف داری کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے ہر خطاب میں چین کی حکم راں پارٹی اور چینی صدر کو نشانہ بناتے ہیں مگر چینی قوم کو اس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں اس سے یہ بات واضح طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ یہ مخالفت مذہبی بالکل نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ سیاسی عزائم ہیں اور وہ یہ ہے کہ ما بعد کرونا وائرس دنیا کی قیادت کس کے ہاتھوں میں ہوگی؟
چین نے اپنے وژن میں 2049ء کو بڑی اہمیت دی ہے جب کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی تأسیس کو پورے سو سال ہو جائیں گے۔ 2025ء کا سال چین کے لیے بہت خاص ہے کہ اس وقت تک وہ بھی معاشی وسیاسی لحاظ سے وشو گرو بننے کا اپنا ارادہ پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ امریکہ کی حد درجہ کوشش ہے کہ چین کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو اور اس کا یہ خواب، خواب ہی رہے۔ امریکی صدر نے 2016ء کے اواخر ہی میں جب ان کی انتخابی مہم شباب پر تھی اسی وقت سرد جنگ کا بگل بجا دیا تھا جب انہوں نے اس دھمکی کو اپنی مہم کا جزو لاینفک بنا لیا تھا کہ وہ کرسی صدارت پر بیٹھتے ہی چین سے تجارتی لین دین کو محدود کردیں گے۔ لہذا برسر اقتدار آتے ہی صدر ٹرمپ نے درآمدات کے ٹیکس میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا جس کے ردّ عمل میں چین نے جیسے کو تیسا جواب دیا۔ تجارتی مخاصمت تو اس سرد جنگ کا پیش خیمہ تھی مگر کورونا وائرس نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا یا دوسرے معنوں میں اس معاملہ کو امریکا نے بھنانے کی کوشش کی مگر اب تک وہ ناکام رہا ہے۔ ۲۴؍مئی کو چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے اس سرد جنگ کو یہ کہہ کر رسمی شکل دے دی کہ ’’امریکا میں بعض طاقتیں دونوں ملکوں کے تعلقات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں اور ان کی حد درجہ کوشش ہے کہ دونوں ممالک کو سرد جنگ کی آگ میں جھونک دیں‘‘ چین سے پہلے مختلف محاذوں پر روس ہی امریکی بالادستی کو چیلینج کرتا رہا ہے۔ لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ ما بعد کورونا وائرس کی دنیا میں اس کش مکش میں چین روس کی جگہ لے لے گا۔
بیجنگ اور واشنگٹن کے تعلقات اب کس موڑ پر جائیں گے اگر ہم کورونا وائرس کے زمانے میں دونوں ممالک کے لیڈروں کے بیانا ت کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو آسانی سے سمجھ میں آئے گا۔ دونوں ملکوں کے قائدین کے درمیان الزام در الزام کا سلسلہ بہت تلخ اور طویل ہے، دونوں ایک دوسرے کو اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کا ملزم گردانتے رہے ہیں اور ایک دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈالتے رہے ہیں، چین یہ کہتا رہا ہے کہ اس وبائی مرض کے پیچھے امریکی سازش ہے جیسا کہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی پریس بریفنگ میں کہا تو دوسری طرف امریکہ اس کا ٹھیکرا چین کے سر پر پھوڑتا رہا ہے۔
امریکی صدر، نائب صدر اور کئی سینئر اہل کار چین کو براہ راست اس مرض کو عالمی وبا بنانے کا الزام دے چکے ہیں کہ ووہان کی لیبارٹریوں کی بین الاقوامی ٹیم کے ذریعے تفتیش ہونی چاہیے تاکہ صحیح صورتحال سے واقفیت ہو سکے۔ امریکہ اس بات پر چین کو گھیرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ چین کے غیر یقینی رویہ کی وجہ سے پوری دنیا تجارتی کساد بازاری کا شکار ہو گئی ہے اس کے برخلاف چینی معیشت رواں دواں ہے اور اس پر کوئی فرق نہیں پڑا۔دوسری بات جو امریکہ کو بڑی گراں گزر رہی ہے کہ چین پوری دنیا میں اپنے پاؤں دھیرے د‏ھیرے پسار رہا ہے اور مختلف ممالک میں اس کا نفوذ بڑ‏ھ رہا ہے، اس وبائی مرض کے دوران چینی جہاز اٹلی سے لے کر برّ اعظم افریقہ کے گم نام ممالک میں بھی اترے ہیں اور طبّی امداد کے نام پر مختلف ممالک میں چین کا اثر ورسوخ بڑھا ہے۔ اس کے برخلاف امریکہ خود اپنے ملک میں الجھا ہوا ہے اور بسا اوقات اسے دوسروں کے آگے دست نگر ہونا پڑا ہے گرچہ امریکی صدر نے بھیک بھی دھمکی بھرے لہجے میں مانگی ہے۔
امریکی قیادت کا عالمی ادارہ صحت سے نکل جانا بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ بین الاقوامی پلیٹ فارمس پر اب امریکی چودھراہٹ کی چولیں ہل گئیں ہیں، اب اس کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کی تعداد میں بھاری کمی واقع ہوگئی ہے وگرنہ امریکا کی تو پہلی کوشش یہ ہوتی کہ کسی طرح سے چین کو باہر کا راستہ دکھا دے۔ اس کے برخلاف میدان چھوڑ کر بھاگ جانا اس بات کی علامت ہے کہ عالمی پلیٹ فارمس پر بھی امریکہ تنہائی کا شکار ہے۔ امریکہ کے اس فیصلہ پر سوشل میڈیا پر مبصرین کا یہ کہنا کہ امریکہ کو اگلے مرحلے میں اقوام متحدہ سے اپنے قدم واپس لے لینا چاہیے، اس بات کی علامت ہے کہ امریکا اب اپنے پرانے رنگ میں نہیں ہے۔ ایسے حساس وقت میں عالمی ادارہ صحت کو نشانہ بنانا اور اس سے اپنے آپ کو الگ کرلینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ امریکہ نے چین کے سامنے غیر اعلانیہ طور پر سپر ڈال دی ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرد جنگ کے پہلے مرحلے میں چین کا پلڑا بھاری ہے۔ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں چینی حکام اور عوام شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں، اس وبا نے عوام اور حکم رانوں کےدرمیان تعلقات کو اور مضبوطی عطا کی ہے اس کے برخلاف امریکہ میں عوام اور حکم راں دونوں ایک دوسرے کے مدّ مقابل ہیں۔ جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد تو اب صورتحال اور پیچیدہ ہوگئی ہے پورا امریکی معاشرہ ایک طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے، سیاہ وسفید کی خلیج اور بڑھ گئی ہے، طبقاتی نظام اور مستحکم ہو گیا ہے، صدر ٹرمپ کے غیر جمہوری انداز تخاطب نے آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے تیل کا کام کیا ہے۔ اب تو اس احتجاج نے تمام ہی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور کئی شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ کہاں مغربی مفکرین اور تحقیقی ادارےاس بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے چین میں عوام حکم راں پارٹی کے خلاف سڑکوں پر اتر آئیں گے اور اب معاملہ یہ ہے کہ پورا امریکہ میدان احتجاج بنا ہوا ہے۔ یہ تو صرف ایک اشارہ ہے اس سرد جنگ میں اصل فاتح تو وہ ملک ہوگا جس کے سائنس داں کورونا وائرس کے ویکسین کو پہلے دریافت کرلیں گے۔ ما بعد کورونا وائرس دنیا میں اس ویکسین کی وہی اہمیت ہوگی جو دوسری عالمی جنگ کے بعد ایٹمی بم رکھنے والے ممالک کی تھی۔ اس لیے جہاں پوری دنیا کے ڈاکٹرس اور سائنس داں جی توڑ کوشس کر رہے ہیں وہیں ان دونوں ممالک کے حکم رانوں نے اسے وقار کا مسئلہ بنالیا ہے اور اس ویکسین کو تیار کرنے میں پوری قوت صرف کر رکھی ہے۔
(مضمون نگار اسلامی اکیڈمی، نئی دہلی کے سکریٹری ہیں )


 

اس سرد جنگ میں اصل فاتح تو وہ ملک ہوگا جس کے سائنس داں کورونا وائرس کے ویکسین کو پہلے دریافت کرلیں گے، ما بعد کورونا وائرس دنیا میں اس ویکسین کی وہی اہمیت ہوگی جو دوسری عالمی جنگ کے بعد ایٹمی بم رکھنے والے ممالک کی تھی اس لیے جہاں پوری دنیا کے ڈاکٹرس اور سائنس داں جی توڑ کوشس کر رہے ہیں وہیں ان دونوں ممالک کے حکم رانوں نے اسے وقار کا مسئلہ بنالیا ہے اور اس ویکسین کو تیار کرنے میں پوری قوت صرف کر رکھی ہے۔