زندگی اور سماجکے مشترکہ مسائل کا شعری اظہار

ممتاز انور کا مجموعہ کلام ’’گوہرسخن‘‘ صالح ادب میں ایک خوش گوار اضافہ

کتاب کا نام: گوہر سخن
مجموعہ کلام :ممتاز انور
مبصر: محمد ابراہیم خان،آکوٹ
سن اشاعت۔2017
ناشر۔ ادارہ ادب اسلامی جعفر آباد
قیمت۔160
ممتاز انور ضلع جالنہ کے جعفر آباد کی ایک سنجیدہ شخصیت ہیں ۔ان کی گفتگو سے ہی ان کی شخصیت کی بلندی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر آپ ان کے مجموعہ کلام ’’گوہر سخن‘‘ کا مطالعہ کریں گے تو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کتاب اسم بامسمیٰ ہے۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں شاعر نے شاعری کے تعلق سے یہ جو بات کہی کہ ’’شاعر الفاظ کے خوبصورت پھولوں کو سلیقے سے ایک دھاگے میں پروتا ہے تو خوبصورت الفاظ کی لڑی عرف عام میں شاعری کہلاتی ہے‘‘ اور یہی الفاظ کی لڑی ’’گوہر سخن‘‘ بن کر کتابی شکل میں غزل کے موتی بکھیر رہی ہے۔ یوں تو اس شاعری کے مجموعہ میں حمد و نعت کے علاوہ نظمیں، تثلیثات، قطعات، اور نثری نظم بھی ہے، لیکن شاعر بنیادی طور پر غزل میں ہی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اسلم غازی نے موصوف کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے کہ ’’ان کی شاعری میں آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی کا رنگ غالب ہے، ان کی شاعری سماج اور زندگی سے قریب تر ہے’’۔ اور آج ادب کا یہی تقاضا ہے کہ وہ زندگی کا ترجمان بن کر سامنے آئے، ایسا ہی ادب زندہ و پائندہ ادب ہے۔
اس مجموعہ میں دو حمد ،دو نعتیں ایک سلام ایک ترانہ، تثلیث و قطعات اور ایک نظم کے بعد ان کا اصل میدان غزل ہے۔ کل چھتیس غزلوں کا انتخاب اس میں شامل ہے۔ حمد میں عقیدہ توحید کی پختگی ملاحظہ فرمائیں، کہتے ہیں :
ہم کیوں نہ آفتوں میں آواز دیں تجھے
یارب سوائے تیرے کوئی نہیں ہمارا
اسی طرح نعت میں بھی عقیدت ،محبت کے مضامین تو باندھے ہی جاتے ہیں، لیکن عقیدت کے ساتھ جذبہ اطاعت بھی تو ہونا چاہیے، دیکھیے وہ اس بات کو کس انداز میں پیش کرتے ہیں :
محمد نے امت کو تنظیم دی ہے
عبادت شجاعت کی تعلیم دی ہے
زمانے کو پیغام حق کا سنایا
اس امت کو بھی اپنا منصب بتایا
ہو عبادت کہ عدالت کہ حکومت آقا
سب میں رحمت تری فرمان رسول عربی
اسی سلسلے میں’’ سلام ‘‘ بھی وہ پیش کرتے ہیں تو، ایک عظیم مقصد کی طرف اشارہ کردیتے ہیں، عرض کرتے ہیں۔
سلام اس پر کہ جس کی زندگی قرآن کا پیکر ہے
سلام اس پر کہ جو اس امت عاصی کا رہبر ہے
ترانہ بھی ملت کی بیداری کے لیے ہے ، جو ان کے ملی درد کو ظاہر کرتا ہے ، موصوف نے شاعری میں مقصدیت کا ہر وقت خیال رکھا ہے ۔ اس ترانہ میں ملت مرحومہ کو پیغام بیداری سنایا ہے۔ نظم کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں۔
گو گردش دوراں ہے گھبرانا کبھی نہ تم
حالات کے دھاروں کو حکمت سے پلٹ دینا
اصلاح کی ضرورت ہے ملت کے مکانوں میں
اور دعوت حق کی بھی دنیا کو ضرورت ہے
شاعر کی حق گوئی و بیباکی کی مثال ان کی ایک تثلیث سے ملاحظہ فرمائیں :
اپنے وقار کا تجھے اتنا ہی پاس ہے
اب تو امیر شہر سے اتنا کہوں گا میں
مطلب شناس ہے تو کہاں حق شناس ہے؟
اسی طرح قطعات میں بھی انہوں نے اپنی حساس طبیعت اور حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں :
یہ شہرہے عجب ہی منظر لیے ہوئے
ہر آدمی ہے ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے
قاتل بنے ہوئےہیں مسیحا تمام آج
جائیں کہاں پہ گھاؤ یہ دل پہ لیے ہوئے
اور اب ان کی غزلیات سے چند ہیرے موتیوں کی جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
انسانیت کی راہ سے انساں جو ہٹ گیا
ہر موڑ پر تباہی کے منظر لگے مجھے
ایسا نہیں ہے کوئی جو لاشوں پہ روئے اب
وحشت کا کوئی دیکھے سماں تیرے شہر میں
شہر کی تہذیب فتنہ بن گئی
جان بچے تو لوٹ کر گھر آئیے
آہ مظلوم کا اثر ہے یہ
سنگ دل جس سے پانی پانی ہے
اپنے گھروں میں تم تو رہے چین سے مگر
اور گھر تمہارے شہر میں کتنے ہی جل گئے
بہت مسائل کے حل ہیں باقی ذرا تم اتنا ہی کام کرلو
بنادو انساں کو بڑھ کے انسان یہ کام کوئی بڑا نہیں ہے
دعوت کو عام کرنا تھا انسانیت کے بیچ
انور تو حق سے جان چرانے میں رہ گیا
ان اشعار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلم غازی نے ممتاز انور کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیاہے ، وہ بالکل درست ہے کہ ’’ممتاز انور کی شاعری ان کے گرد وپیش کی آئینہ دار ہے ‘‘۔
اور ایک حقیقی شاعر کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ تخیل کی بلند پروازیوں میں کھو نہ جائے بلکہ زمینی حقائق سے اپنا واسطہ قائم رکھے۔ ممتاز انور کے مجموعۂ کلام ’’گوہر سخن‘‘ کی ہر بات انہی موتیوں کی چمک دکھاتی ہے ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021