مظاہروں کے درمیان وزیراعظممودی کا دورہ امریکہ

کواڈ اجلاس :افغانستان اور چین اعصاب پرچھائے رہے ۔مشترکہ چیلنجس سے نمٹنے اور مستقبل کی صورت گری کرنے کا عزم

مسعود ابدالی

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا تین روزہ دورہ امریکہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران جناب مودی نے اتحاد اربعہ یا QUAD Alliance کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی، امریکی صدرو نائب صدر اور ٹیکنالوجی کی پانچ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یہ ہندوستانی وزیراعظم کی امریکی صدر جو بائیڈن سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون نے نائب صدر کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور شریمتی کملا دیوی ہیرس کی والدہ ڈاکٹر شیمالاگوپلان، چنئی سے امریکہ آئی تھیں اور اس اعتبار سے کملا صاحبہ کو امریکی کی پہلی بھارت نژاد نائب صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
جناب مودی نے اس دورے کی تیاری کافی عرصہ پہلے شروع کردی تھی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح مودی اپنے ایجنڈے، موقف اور ذاتی تشہیر کے لیے ٹویٹر استعمال کرتے ہیں۔یہ تو قارئین کو یقیناً معلوم ہوگا کہ جناب ٹرمپ کا ٹویٹر اکاونٹ انتظامیہ نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر معطل کردیا ہے۔ ٹویٹر پر شری مودی کے حامیوں یا followersکی تعداد 7کروڑ 14 لاکھ سے زیادہ ہے۔ دورے سے پہلے مودی جی نے ٹویٹر پراپنے حامیوں کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا اورکواڈ کے سربراہان کو انفرادی ٹوٹیس بھیجے جس میں آنے والی سربراہ کانفرنس کے بارے میں غیر معمولی جوش وخروش کا مظاہرہ کیا گیا۔
مالی معاملات کو شفاف ثابت کرنے کے لیے 18 ستمبر کو ان تمام تحائف کا نیلام کیا گیا جو بطور وزیراعظم انہیں دوسرے ممالک سے عطا ہوئے ہیں۔ نیلامی کا آغاز 17 ستمبر کو مودی جی کے جنم دن سے ہوا، فروخت کا سلسلہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک جاری رہیگا اور نیلام سے حاصل ہونے والی آمدنی دریائے گنگا کی صفائی اور کناروں کی آرائش پر خرچ ہوگی۔ افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم خود شریک ہوئے۔ معمول کی ایک سرگرمی کی اتنے بڑے پیمانے پر تشہیر کا مقصد قوموں کی برادری میں ایک قد آور ودیانت دار رہنما کی حیثیت سے ہندوستانی وزیراعظم کے ملائم چہرے یاsoft imageکو نمایاں کر نا تھا۔
بیس ستمبر کو سعودی وزیرخارجہ فرحان السعود کے دورہ ہندوستان کو بھی مودی جی نے اپنے ٹویٹر پر نمایاں کیا۔ خیال ہے کہ سعودی ارامکو تیل ریفائنری اور دوسری اہم تنصیبات پرہندوستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ اپنے ٹویٹس میں ہندوستانی وزیراعظم نے ہندوستان کو کاروبار کے لیے انتہائی پر کشش اور سرمایہ کاروں کی جنت قرار دیا۔
امریکا روانگی سے ایک دن پہلے جناب مودی نے فرانس کے صدر ایمیونل میخواں سے فون پر گفتگو کی جس میں افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں شمولیتی (Inclusive) حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے پر اتفاق کیاگیا۔ ستم ظریفی کہ جس وقت افغان خواتین کی’حالتِ زار‘ پر فکر مندی کا اظہار ہورہا تھا ممبئی کے مضافاتی شہر دمبیولی میں پندرہ سال کی ایک معصوم بچی پر مجرمانہ حملے کی بھیانک واردات نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس بدنصیب کو 33 سے زیادہ اوباش 8 مہینے تک درندگی کا نشانہ بناتے رہے۔
بائیس ستمبر کو خصوصی طیارے کی براہ راست پرواز کے ذریعے نریندر مودی امریکا روانہ ہوئے۔ افغانستان نے اپنی فضائی حدود کو غیر ملکی پروازوں کے لیے بند کردیا ہے اور غیر ملکی جہاز خاص اجازت کے بعد ہی افغان فضائی حدود میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پاکستان سے فضائی حدود کے استعمال کی درخواست کی گئی۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے پاکستان نے بھارتی جہازوں کو اپنے حدود سے گزرنے کے لیے خصوصی اجازت کا پابند کردیا ہے اور ماضی میں اسلام آباد نے کم از کم تین بار صدر رام ناتھ کووند اور وزیراعظم مودی کے طیاروں کو اپنی فضائی حدود سے نہیں گزرنے دیا تاہم اس بار پاکستان نے مودی جی کو اپنی فضائی راہداری استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ سفر کے دوران ہندوستانی وزیر اعظم کی جہاز پر کام کرتے کئی تصاویر ٹویٹر پر جاری کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ جناب مودی اپنی جنتا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں اور اپنا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتے۔
بائیس ستمبر کو واشنگٹن آمد پر ان کا امریکہ میں مقیم ہندوستانی شہریوں نے پرتپاک خیر مقدم کیا تو سیاہ پرچموں کے ساتھ بڑی تعداد میں کشمیری اور سکھ باشندے بھی وہاں موجود تھے۔ اس دوران مودی کے حامیوں اور سکھوں کے درمیان نعرے بازی کا مقابلہ بھی ہوا۔
گزشتہ بار کی طرح اس مرتبہ بھی وزیر اعظم مودی نےاپنے قیام کا ایک دن کارپوریٹ امریکہ سے ملاقات کے لیے مختص رکھا اور 23 ستمبر کو وہ سارا دن بڑی امریکی کارپوریشنوں کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرتے رہے۔ دوسال پہلے ان کا ہدف توانائی، خاص طور سے LNG تھی جبکہ جمعرات کو وزیر اعظم مودی نے جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری فراہم کرنے والے اداروں کے سربراہان سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔
سب سے اہم نیم موصل پتری (Semi-Conductor Chip) بنانے والے ادارے کوال کام Qualcom کے سربراہ کرسٹینو امون (Cristano Amon) سے گفتگو تھی۔ اس وقت ساری دنیا میں چپس کی شدید قلت ہے حتیٰ کہ امریکہ میں گاڑیاں بنانے والی سب سے بڑی کمپنی جنرل موٹرز نے چپس کی عدم دستیابی کی بناپر اپنےکئی کارخانوں میں پیداوار روک دی ہے اورفورڈ موٹر کمپنی کی پیدوار ایک تہائی رہ گئی ہے۔ یورپ اور ایشیا میں بھی چپس کی شدید قلت ہے۔ چند ہفتہ پہلے چپس بنانے والے اداروں کی تعداد بڑھانے کے لیے امریکی کانگریس نے اربوں ڈالر کی امدادی رقم منظورکی ہے ۔کوال کام کی خوبی یہ ہے کہ ادارہ موبائل فون کے 5-Gکے لیے چپس بناتا ہے۔ ملاقات کے بعد جناب امون نے بتایا کہ ہندوستانی وزیر اعظم نے چپس کا کارخانہ ہندوستان میں لگانے کی دعوت دی جس پر کوال کوم کی قیادت سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنی اڈوب Adobeکے قائد شنتانو نارائن جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ التحصیل ہیں۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنماوں نے ہندی میں بات کی۔ اڈوب کھیلوں کی الیکٹرانک مشینیں بھی بناتی ہے اور شنتانو نارائن نے وزیر اعظم سے کہا کہ ان کی کمپنی ہر ہندوستانی بچے تک ان مشینوں کی رسائی یقینی بنانا چاہتی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے قابل تجدید خاص طور سے شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنی سن پاور المعروف فرسٹ سولر کے سربراہ مارک ودمر کو ہندوستان میں سولر پینل بنانے کی دعوت دی۔
جوہری آبدوز، غیر مرئی (stealth) بحری جہاز، جنگی طیارے اور جدید ترین ہتھیار بنانے والے جنرل ڈائنامکس کے ذیلی ادارے جنرل اٹامکس General Atomicsکے سی ای او ویوک لال سے جناب مودی نے تین گھنٹے سے زیادہ دیر بات کی۔ جناب ویویک لال بھارت نژاد انڈونیشی ہیں۔ جنرل اٹامک عسکری اور شہری استعمال کے ڈرون کے علاوہ ریڈار، جوہری ایندھن استعمال کرنے والے انجن اور دوسرے حفاظتی آلات بناتا ہے۔ جناب لال نے بھی ہندوستان میں سرمایہ کاری پر دلچسپی کا اظہار کیا
دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے والے ادارے بلیک اسٹون کے سربراہ اسٹیفن شوارزمین نے بھی وزیر اعظم مودی ملاقات کی۔ بلیک اسٹون ہر سال مختلف اداروں میں 35 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کرتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ہندوستان میں سعودی ارامکو کی ریفائنری کے لیے بلیک اسٹون سرمایہ کاری کرے گا۔
کارپوریٹ رہنماوں سے ملاقاتوں کے بعد نریندر مودی نے اسی شام آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن اور اپنے جاپانی ہم منصب یوشیدا سوگا سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ اس دوران افغانستان کے تناظر میں ہند و بحرالکاہل Indo-Pacificکی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ افغانستان میں اب چین کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے اور بیجنگ اپنی مواصلاتی مہم المعروف BRIکاسلسلہ افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک وسیع کرنا چاہتاہے۔
نائب صدر کملا دیوی ہیرس سے ملاقات خاصی دلچسپ رہی۔ وزیراعظم نے امریکی نائب صدر کو ہندوستان کی بیٹی قرار دیتے ہوئے انتہائی پرجوش لہجے میں ’وطن‘ کے دورے کی دعوت دی لیکن کملا جی کا رویہ نسبتاً سرد تھا۔ نائب صدر ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل وسیکولر دھڑے سے تعلق رکھتی ہیں جسے بھارت میں مذہبی انتہاپسندی اور ہندوتوا کے فروغ پر سخت تشویش ہے۔ کیلی فورنیا سے رکن کانگریس روکھنہ اور محترمہ پرمیلا جے پال بھی اس معاملے کو اٹھاتے رہے ہیں۔
واشنگٹن کے سفارتی ذرائع کے مطابق گفتگو کے دوران امریکی نائب صدر نے کہا کہ ساری دنیا میں جمہوریت کو اندرونی خطرات کا سامنا ہے اور اس کا مقابلہ جمہوری اقدار پر سختی سے عمل کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ جمہوری ممالک کو انسانی حقوق اور شرف انسانی کے حوالے سے دنیا کے لیے مثال بننا چاہیے۔ امتیازی قوانین، اقلیتوں سے برا سلوک اور مذہبی اکائیوں کے درمیان کشیدگی جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ کملا ہیرس صاحبہ نے شہریت کے نئے بھارتی قوانین کے مضمرات سے ہندوستانی وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ انہوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر کی نیم مختار حیثیت ختم کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
جمعہ کی صبح ہندوستانی وزیر اعظم نے قصرِ مرمریں میں صدر بائیڈن سے ملاقات کی۔ جناب بائیڈن ہندوستان امریکی رفاقت کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ دلی اور واشنگٹن کی حالیہ قربت کا آغاز صدر اوباما کے دور سے ہوا جب 2012 میں امریکہ کی نئی فوجی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے سابق امریکی صدر نے بحرالکاہل اور بحر ہند کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا۔ جب ایک صحافی نے اس نظر کرم کی وجہ دریافت کی تو امریکی صدر نے فرمایا کہ یہ ایک مصروف تجارتی شاہراہ ہے اور اس آبی راستے کی نگرانی ہماری سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ واشنگٹن کے عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ روس کے زوال کے بعد دنیا کی اسلامی قوتیں امریکہ کے لیے خطرے کا باعث تھیں لیکن گزشتہ دس بارہ سالوں میں اسلامی مزاحمت کچلی جاچکی ہے۔ عرب دنیا کی اسلامی تحریکیں زبردست عوامی حمایت کے باوجود دفاعی پوزیشن پر ہیں اور شمالی افریقہ ومشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی نئی قیادت امریکی بالادستی کو چیلینج کرنے کے موڈ میں نہیں۔ چنانچہ امریکہ کی توجہ اب چین کی جانب ہے جو معاشی دوڑ میں بہت آگے نکل چکا ہے اور بلا استثنیٰ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر منڈی میں ’’میڈ ان چائنا‘‘ مصنوعات کا غلبہ نظر آتا ہے۔ صدر اوباما کا خیال تھا کہ چین کے گھیراو کے لیے بحرالکاہل سے بحر ہند کو ملانے والی آبنائے ملاکا کی نگرانی اور خلیج بنگال پر گرفت مضبوط رکھنا امریکہ کی ضروت ہے اور یہ کام ہند ناو سینا (بحریہ) کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ اس عسکری اتحاد کو بہتر، موثر اور ہمہ جہت بنانے کی ذمہ داری صدر اوباما نے اپنے نائب صدر کو سونپی تھی۔
ہندوستانی وزیر اعظم کا استقبال کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے یاد دلایا کہ 2008 کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ 2020 میں ہندوستان اور امریکہ دنیا کے دو انتہائی گہرے دوست اور شراکت دار ہوں گے۔ جواب میں مودی صاحب نے کہا کہ ہماری اس بے مثال دوستی کی بنیاد گاندھی جی کا فلسفہِ اعتماد ہے۔ اس ملاقات میں افغانستان کے مسئلے پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور طالبان سے سفارتی سطح پر ’نبٹنے‘ کی تدبیر، ترکیب اور حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔ ملاقات کے اختتام پرمعزز مہمان کو ہندوستانی تاریخ وثقافت پر مبنی قیمتی نوادرات کا تحفہ پیش کیا گیا جو ہندوازم، بودھ مت اور جین مذاہب سے متعلق نادر تصاویر، ،مورتیوں، پوشاک اور دوسرے آثار پر مشتمل ہے۔ یہ نوادرات امریکہ بھر کے عجائب گھروں اور تاریخی مراکز سے جمع کیے گئے ہیں۔
اس دورے کا سب سے اہم پروگرام معاہدہ اربعہ کی کرونا وبا کے بعد پہلی براہ راست چوٹی کانفرنس تھی۔ اس سال مارچ میں سربراہ اجلاس سمعی وبصری رابطے (Virtual) پر ہوا تھا۔ امریکہ، ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل یہ اتحاد 2007 میں قائم ہوا جس کا سرکاری نام Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUAD ہے۔ سرکاری مسودے کے مطابق معاہدہِ اربعہ کا مقصد بحرالکاہل اور بحر ہند میں میں بلاروک ٹوک جہاز رانی کو یقینی بنانا ہے لیکن درحقیقت چین کی بحری نقل وحرکت پر نظر رکھنا کواڈ کی روح ہے۔ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے حال ہی میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے آکوس (AUCUS) اتحاد بھی تشکیل دیا ہے جس کے تحت بحر جنوبی چین میں گشت کے لیے امریکہ آسٹریلیا کو جوہری آبدوز فراہم کر رہا ہے۔ آوکس کی ہیئت اور اس کے نتیجے میں آسٹریلیا اور امریکہ سے فرانس کی ناراضگی پر ایک تفصیلی مضمون ہم گزشتہ ہفتے نذرِ قارئین کرچکے ہیں۔
اجلاس کے صدر جناب جو بائیڈن نے آغاز میں رسمی گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے ویکسین برآمد کے اعلان کو انسانیت کی عظیم خدمت قرار دیا اور نریندر مودی کی قائدانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے سب سے پہلے انہیں خطاب کی دعوت دی۔ اپنے مختصر خطاب میں وزیر اعظم مودی نے امید ظاہر کی کہ چار ملکوں کا یہ اتحاد ہند وبحرالکاہل میں امن وخوش حالی کو یقینی بنائے گا۔ اپنی اختتامی تقریر میں جو بائیڈن نےکہا کہ چاروں جمہوریتیں، کورونا اور آب وہوا میں تبدیلی کے مشترکہ چیلنج پر قابو پانے کے لیے ایک ساتھ آئی ہیں اور مستقبل کی صورت گری کے لیے ہمارے پاس ایک مشترکہ تصور ہے۔
چوٹی اجلاس میں ہند۔ بحرالکاہل خطے تک تمام اقوام کی آزادانہ رسائی اور آبی شاہراہوں کو پرامن تجارتی سرگرمیوں کے لیے پابندیوں سے پاک رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ کواڈ اتحادی، قانون کی حکمرانی، آزادو بلاروک ٹوک جہاز رانی، تنازعات کے پر امن حل، جمہوری اقدار کے فروغ اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ مشترکہ اعلامیے میں چین کا نام لیے بغیر بحرالکاہل کے چھوٹے جزیروں میں آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔کواڈ قائدین کو بحر جنوبی چین میں عسکری مقاصد کے لیے چین کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے مصنوعی جزائر پر سخت تحفظات ہیں۔اعلامیے کے مطابق کواڈ کا سربراہی اجلاس اب ہر سال ہوگا۔ اس اجلاس کا دورانیہ صرف دو گھنٹہ تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گفتگو چندنکات تک محدود رہی اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس عرصے میں بحث ومباحثے کا محور چین وافغانستان تھے اور اس حوالے سے پاکستان، چین ، روس اور ترکی پر مشتمل ایک نئے غیر رسمی اتحاد کی سرگرمیوں اور ممکنہ عزائم پر بھی غور کیا گیا۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ابھرتے ہوئے اس نئے اتحاد کا ملائیشیا،ویتنام، قطر، عراق اور لیبیا بھی دلچسپی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
کواڈ اجلاس کے دوسرے روز شری نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ دوسرے تمام رہنماوں کی طرح ہندوستانی وزیر اعظم کا خطاب بھی روایتی نوعیت کا تھا اور حسب توقع ان کی تقریر میں میرا اور مجھے کے گرد گھومتی رہی جس میں خودستائی کا پہلو نمایاں تھا۔ انہوں اپنے پڑوسی کو متنبہ کیا کہ دہشت گردی کو پالیسی بنانے والے خود بھی اس مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مودی جی کے دورے اور کواڈ سربراہی اجلاس میں چین اور افغانستان ہی کلیدی نکات تھے اور جن مقاصد کے لیے کواڈ تشکیل دیا گیا ویسا ہی ہدف اب افغانستان کے لیے طئے کیا گیا ہے یعنی کابل حکومت کو ہر قیمت پر ناکامی سے دوچار کیا جائے۔باقی رہی ماحولیات اور کورونا پر گفتگو تو یہ محض موذیوں کا منہ بند کرنے کی ایک کوشش تھی۔
کواڈ اتحادی، افغانستان میں طالبان کی غیر معمولی اور برق رفتار بلکہ چشم کشا کامیابی پر اب تک صدمے میں ہیں جہاں امریکہ کے 30 کھرب جاپان کے 6.8 ارب، آسٹریلیا کے ڈیڑھ اور ہندوستان کے تین ارب ڈالر ڈوب گئے۔
کواڈ کو سب سے زیادہ تشویش چین کے BRI منصوبے کی وسط ایشیا تک ممکنہ توسیع پر ہے۔ ہندوستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ اور وہاں سے افغان ایران سرحد پر زارنج تک جدید ترین چار رویہ (فور لائن) شاہراہ تعمیر کی ہے جو تمام موسموں میں قابل استعمال ہوگی لیکن طالبان نے زارنج کی خشک بندرگاہ کو عملاً معطل کرکے اس سارے منصوبے پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گوادر BRI کا جنوب میں نقطہ آغاز ہوگا۔ مودی جی نے گفتگو کے دوران بحرجنوبی چین اور آبنائے ملاکا کے ساتھ بحرعرب اور بالخصوص گوادر پر نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
خبر ہے کہ اس حوالے سے چاروں ملکوں کے ماہرینِ سلامتی کا اجلاس بھی ہوا جس میں قومی سلامتی کے لیے وزیر اعظم مودی کے مشیر اجیت دوول نے علاقائی صورتحال اور افغانستان پر مُلّاوں کے اقبال سے جنم لینے والے خدشات وخطرات کا جائزہ پیش کیا۔ ان سرگرمیوں اور پیش بندیوں سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں جہاں آبنائے ملاکا، بحر انڈمان، خلیج بنگال اور بحرہند کے ساتھ بحرعرب کے شمال مغربی کنارے پر بھی کشیدگی بڑھے گی تو دوسری طرف افغانستان کو یکا وتنہا کرکے دیوار سے لگانے کی مہم بھی علاقائی امن کو سنگین خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔
’صاحبِ نظراں!! نشّہِ طاقت ہے خطرناک ‘
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 ستم ظریفی کہ جس وقت افغان خواتین کی’حالتِ زار‘ پر فکر مندی کا اظہار ہورہا تھا ممبئی کے مضافاتی شہر دمبیولی میں پندرہ سال کی ایک معصوم بچی پر مجرمانہ حملے کی بھیانک واردات نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس بدنصیب کو 33 سے زیادہ اوباش 8 مہینے تک درندگی کا نشانہ بناتے رہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021