مومن کی قلبی کیفیت

عظیم خدمات کے باوجود خدا کے خوف سے لرزاں و ترساں

مولانا یوسف اصلاحی

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا
اور وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور ان کے دل لرز رہے ہوتے ہیں، کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں فرمایا نہیں اے صدیق کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں۔ اور پھر بھی ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ان کی یہ نیکیاں نامقبول نہ ہوجائیں ’’یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھتے ہیں‘‘
اس حدیث سے پہلی ہدایت اور ترغیب تو یہ ملتی ہے کہ قرآن پر ایمان رکھنے والے کو قرآن پر غور وفکر کرتے رہنا چاہیے، حضرت عائشہؓ کو فقہ وزبان اور علم حدیث واحکام میں جو اعلیٰ علمی مقام حاصل ہوا، اسی لیے وہ برابر قرآن پاک میں غور وفکر کرتی رہتی تھیں اور حدیث کی کتابوں میں ان کی کتنی ہی ایسی روایتیں ملتی ہیں کہ یا تو انہوں نے خود رسول پاک ﷺ سے قرآن پاک کی کسی آیت کو سمجھنے کے لیے وضاحت چاہی ہے یا خود انہوں نے دوسروں کو قرآن کی آیات کا صحیح مدعا سمجھایا ہے اور قرآن میں یہ مرتبہ مسلسل غور وفکر کے بغیر ہرگز نہیں مل سکتا۔ قرآن ہی منبع ہدایت ہے اور ہدایت پر استقامت پانے کے لیے ناگزیر ہے کہ آدمی مسلسل قرآن پاک میں غور وفکر کرتا رہا ہے۔
جس آیت کے بارے میں حضرت عائشہؓ نے رسولﷺ سے وضاحت چاہی ہے وہ سورہ المومنون کی آیت ہے۔ پوری آیت اور اس کا ترجمہ یہ ہے۔
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ
اور وہ لوگ جو دیتے ہیں جو بھی دیتے ہیں اور حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل لرز رہے ہوتے ہیں اس بات سے کہ انہیں رب کی طرف لوٹنا ہے۔
يُؤْتُونَ کے معنی ہیں وہ دیتے ہیں، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ مادی چیز اور مال دینے کے معنی ہی میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ غیر مادی اور معنوی چیزیں دینے اور کرنے کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے، اس لحاظ سے اس لفظ کے معنی صرف یہی نہیں ہوں گے کہ وہ راہ خدا میں مال خرچ کرتے اور دیتے ہیں بلکہ یہ لفظ عام نیکیوں پر حاوی ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ جو لوگ اللہ کے حضور ہر قسم کی نیکیاں اور اطاعت وبندگی پیش کرتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ کا شبہ یہ ہے کہ نیکیاں کرنے کے باوجود اللہ سے ڈرنے کی وجہ کیا یہ ہے کہ وہ ساتھ ہی ساتھ بڑے بڑے گناہوں کا بھی ارتکاب کرتے ہیں اسی لیے سوال کیا، کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں خدا کے رسول نے ارشاد فرمایا اے صدیق کی بیٹی! اس سے وہ لوگ مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، صدقات دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ معلوم نہیں ہمارے یہ اعمال شرفِ قبولیت حاصل پائیں گے یا نہیں، اس کی وضاحت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ يُؤْتُون سے مراد صرف صدقات نہیں ہیں بلکہ روزہ نماز سب کچھ ہے۔
سورہ مومنون میں مومنوں کی چار خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک خوبی یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ بھلائی کے بڑے بڑے کارنامے اور ہر طرح کی نیکی اور عبادتیں کرنے کے بعد بھی اللہ کے حضور پیشی سے لرزتے رہتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ کو شبہ یہ تھا کہ یہاں تو مومنین کی خوبیاں بیان کی جارہی ہیں تو بھلا یہ کیا خوبی ہوئی کہ وہ گناہ کرتے ہیں مگر ڈرتے رہتے ہیں یعنی گناہوں کے باوجود کچھ نہ کچھ خوف خدا ان کے دلوں میں ہوتا ہے بالکل بے خوف نہیں ہوتے مگر مومنین کی اعلیٰ خوبیوں کے ذکر میں یہ تو کوئی خوبی نہیں ہوئی تو اللہ کے رسولؐ نے ان کے شعبہ کا ازالہ فرماتے ہوئے آیت کا صحیح مفہوم واضح فرمایا کہ مومن کبھی نیکی اور تقویٰ کے پندار میں مبتلا نہیں ہوتے وہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اس بات سے لرزتے رہتے ہیں کہ کل خدا کے حضور پیشی ہے خدا جانے وہاں ہمارے یہ اعمال لائق اعتنا اور قابل قبول قرار پائیں گے بھی یا نہیں۔ مومن ہر وقت اپنی خامیوں پر نگاہ رکھتا ہے اور خدا کی بے نیازی اور اس کی ہیبت وشان سے لرزاں وترساں رہتا ہے۔ وہ خدا کی وسیع رحمت اور بے پناہ فیاضی سے مایوس تو نہیں ہوتا لیکن کسی وقت اس کی ہیبت وعظمت اور قہر وجلال سے بے خوف بھی نہیں ہوتا اور قلب کی یہی وہ کیفیت ہے جو اس کو ہر وقت بیدار، سرگرم اور نشاط کے ساتھ فعال رکھتی ہے وہ کبھی جمود، تعطل اور اضمحلال کا شکار نہیں ہوتا اور جب بھی اس پر ان بیماریوں کا حملہ ہو سمجھنا چاہیے کہ خدا کے ساتھ اس کا وہ تعلق نہیں رہا ہے جو ہر مومن کے لیے مطلوب ہے اور ضرور اس کی یہ قلبی کیفیت متاثر و مجروح ہوگئی ہے۔ ایک اور حدیث میں مومن اور منافق کی ایک نہایت ہی بلیغ تمثیل پیش کرتے ہوئے دونوں کی قلبی اور ذہنی کیفیت کو بڑے اچھے اندازمیں واضح کرتی ہے۔
’’مومن تو یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ گویا ایک ایسی چٹان کے نیچے بیٹھا ہوا ہے جو اس پر جھکی ہوئی ہے اور وہ ہر وقت لرزتا اور کانپتا رہتا ہے کہ معلوم نہیں کب اس پر وہ آ گرے۔ وہ کسی وقت بھی بے خوف اور بے پروا نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف منافس جب کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ یوں محسوس کرتا ہے گویا اس کی ناک پر مکھی بیٹھی اس نے اسے اشارہ کیا وہ اڑگئی اور پھر آکر بیٹھ گئی۔ گویا وہ ایسا بے خوف اور بے پروا ہو ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے گناہ کی بھی اسے ذرا پروا نہیں ہوتی۔ بے پروائی اور بے خوفی کی وضاحت کے لیے ناک پر بیٹھی مکھی کو اڑانے کی یہ تمثیل کس قدر بلیغ اور دل نشین ہے۔
اسی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت حسن بصریؒ نے کیا اچھی بات کہی ہے:
’’مومن اللہ کی اطاعت و بندگی کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے لیکن منافق گناہ کرتا ہے اور پھر بے خوف ہوتا ہے‘‘۔
آخر میں نبیﷺ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ بھی سورہ مومنون کی آیت ہے ، پوری آیت یہ ہے۔
أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (آیت 61)
’’یہ ہیں وہ لوگ جو نیکیوں کی راہ میں تیز دوڑنے والے اور نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں‘‘
یعنی نیکی کی طرف سبقت وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ہر طرح کی نیکیاں اور عظیم خدمات بجالانے کے باوجود بھی یہ ذہن رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کرسکے جو کر سکے اسی میں ہزار خامیاں ہیں اور خدا کی بے پایاں عنایات کے مقابلے میں بھلا وہ کر ہی کیا سکے۔ پھر ان کے دل لرزتے رہتے ہیں کہ ان ہزار خامیوں کے سامنے ہمارے یہ اعمال خدا جانے شرف قبول پاسکیں گے یا نہیں اس لیے ایسے لوگوں کا نشاط کار، ولولہ، لگن، سرگرمی اور ذوق و شوق کبھی ماند نہیں پڑتا، ان کی ہر صبح ان میں نئے ولولے بیدار کرتی ہے اور ان کی ہر شام ان کو خدا کی عبادت واطاعت میں اور زیادہ سرگرم کرتی ہے۔ وہ نہایت تیزی کے ساتھ برابر نیکیوں کی طرف قدم بڑھاتے رہتے ہیں اور کسی لمحے سرد مہری کا شکار نہیں ہوتے۔ نیکوں کی طرف سبقت کرنا اور دوسروں سے اس راہ میں آگے بڑھ جانا اور برابر بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا ہی ان کا خوش گوار اور دل پسند مشغلہ ہوتا ہے۔
اس حدیث سے تین اہم باتیں ملتی ہیں۔
۱۔ قرآن کو سمجھنے سمجھانے کی ترغیب
۲۔ مومن کی قلبی کیفیت جو قرآن کی نظر میں مومن کی بنیادی خوبی ہے یعنی یہ کہ وہ بڑی سے بڑی نیکی اور عظیم سے عظیم خدمات انجام دینے کے بعد بھی اپنی کار گزاریوں پر غرور نہیں کرتا بلکہ خوف خدا سے لرزتا رہتا ہے کہ مبادا اس کی نیکیاں نامقبول نہ ہو جائیں۔
۳۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ایسی قلبی کیفیت رکھنے والے لوگ ہی نیکی کی راہ میں تیزگام اور سبقت کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کا نشاط کار اور ولولہ عمل کبھی ماند نہیں پڑتا ۔
***

 

***

 نیکی کی طرف سبقت وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ہر طرح کی نیکیاں اور عظیم خدمات بجالانے کے باوجود بھی یہ ذہن رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کرسکے جو کر سکے اسی میں ہزار خامیاں ہیں اور خدا کی بے پایاں عنایات کے مقابلے میں بھلا وہ کر ہی کیا سکے۔ پھر ان کے دل لرزتے رہتے ہیں کہ ان ہزار خامیوں کے سامنے ہمارے یہ اعمال خدا جانے شرف قبول پاسکیں گے یا نہیں اس لیے ایسے لوگوں کا نشاط کار، ولولہ، لگن، سرگرمی اور ذوق و شوق کبھی ماند نہیں پڑتا، ان کی ہر صبح ان میں نئے ولولے بیدار کرتی ہے اور ان کی ہر شام ان کو خدا کی عبادت واطاعت میں اور زیادہ سرگرم کرتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021