سیرت صحابیات سیریز(۴)

ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمرؓ

ام المومنین جن کی عبادت گزاری کا ذکر جبرئیل امین نے کیا تھا
حضرت حفصہ بنت عمرؓ کا تعلق قریش کے خاندان عدی سے تھا۔ والدہ حضرت زینب بنت مظعونؓ بڑی جلیل القدر صحابیہ تھیں۔ عظیم المرتبت صحابی حضرت عثمان بن مظعون حضرت حفصہؓ کے ماموں اور فقیہ اسلام حضرت عبداللہ بن عمرؓ ان کے حقیقی بھائی تھے۔ حضرت حفصہؓ بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔
پہلا نکاح حضرت خنیس بن حذافہ بن قیس بن عدیؓ سے ہوا جو بنو سہم سے تھے۔ وہ دعوت حق کی ابتدا میں شرف اسلام سے بہرہ ور ہوگئے اور حضرت حفصہؓ بھی ان کے ساتھ ہی سعادت اندوز اسلام ہوگئیں۔ حضرت خنیسؓ ۶ بعد بعثت میں ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ پہلے مکہ واپس آگئے اور پھر حضرت حفصہؓ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔
حضرت خنیسؓ راہ حق کے جانباز سپاہی تھے۔ ۲ ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا تو وہ اس میں بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔ پھر۳ ہجری میں غزوہ احد میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے اور مردانہ وار لڑتے ہوئے شدید زخمی ہوگئے۔ اسی حالت میں انہیں اٹھا کر مدینہ لے جایا گیا لیکن علاج کے باوجود جانبر نہ ہو سکے اور حضرت حفصہؓ بیوہ ہوگئیں۔ جب ان کی عدت کا زمانہ پورا ہوگیا تو حضرت عمر فاروقؓ کو ان کے نکاح ثانی کی فکر ہوئی۔ ایک دن رسول کریمﷺ نے تخلیہ میں حضرت ابوبکر صدیق سے حضرت حفصہؓ کا ذکر کیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کو حضرت حفصہؓ سے نکاح کرلینے کے لیے کہا وہ خاموش رہے۔ حضرت عمرؓ کو ناگوار گزرا۔ پھر وہ حضرت عثمانؓ کے پاس گئے۔ اسی زمانے میں آنحضرت کی صاحبزادی حضرت رقیہ بنت کا انتقال ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اپنی لخت جگر سے نکاح کرلینے کو کہا ۔ حضرت عثمانؓ نے کہا۔ میں ابھی نکاح نہیں کرنا چاہتا۔ اب حضرت عمر فاروقؓ رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام حالات بیان کیے۔
حضورؐ نے فرمایا:
حفصہؓ کا نکاح ایسے شخص سے کیوں نہ ہوجائے جو ابوبکرؓ اور عثمانؓ دونوں سے بہتر ہے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:
حفصہ کی شادی اس شخص سے ہوگی جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان کا نکاح اس سے ہوگا جو حفصہ سے بہتر ہے‘‘۔
اس کے بعد حضوؐ نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کرلیا اور اپنی دوسری بیٹی حضرت ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کردیا۔
ایک دفعہ رسول کریمﷺ کو ام المومنین حضرت زینبؓ بنت جحش کے ہاں معمول سے زیادہ دیر ہوگئی۔ کیوں کہ حضوؐ ہاں شہد کھانے میں مشغول ہوگئے جو کسی نے حضرت زینبؓ کو ہدیۃً بھیجا تھا۔ حضرت عائشہؓ کو بہ مقتضائے فطرت رشک پیدا ہوا۔ ان میں اور حضرت حفصہؓ میں بہناپا تھا۔ چناں چہ وہ حضرت حفصہؓ کے پاس گئیں، صورت واقعہ بیان کی اور کہا کہ جب رسولﷺ تمہارے پاس تشریف لائیں تو ان سے کہنا: ’’یا رسول اللہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے‘‘
یہ ایک لطیف اشارہ تھا۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہے، جسے شہد کی مکھی چوستی ہے۔ اس میں ذرا ناخوشگوار سی بو ہوتی ہے اور رسول اطہرؐ کو نا خوشگوار بو سے نفرت تھی۔ مقصد یہ کہ حضوؐ نے حضرت زینبؓ کے ہاں سے جو شہد کھایا اس کی وجہ سے مغافیر کی بو دہن مبارک سے آتی ہے۔ حضرت حفصہؓ نے رسول کریمﷺ سے ویسے ہی کہا۔ حضوؐ نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مغافیر کی بو آپؐ کے دہن مبارک سے آئے۔ فرمایا: آئندہ میں کبھی شہد نہ کھائوں گا۔
اس پر آیت تحریم نازل ہوئی:
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّـٰهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِىْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ
’’اے نبی اپنی بیویوں کی خوش نودی کے لیے تم خدا کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہو‘‘۔
بعض ارباب سیر آیت وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِیْثًاکی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضورؐ نے حضرت حفصہؓ سے کوئی راز کی بات کہی اور وہ انہوں نے فاش کردی۔ قاضی سلمان منصور پوری نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ جب رب العزت کو اپنے نبی کے گھرانے کی عزت و حرمت کا اتنا پاس ہے کہ کسی کا نام نہیں لیا تو ہم کو بھی اس بارے میں جرات نہیں کرنی چاہیے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہؓ کے مزاج میں کسی قدر تیزی تھی اور وہ کبھی کبھار رسول کریمﷺ کو بھی بے باکی سے جواب دیتی تھیں۔ ایک دن ان کے پدر محترم حضرت عمر فاروقؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت حفصہؓ سے پوچھا: میں نے سنا ہے کہ تم رسول کریمﷺ کو برابر کا جواب دیتی ہو۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟‘‘
حضرت حفصہؓ نےجواب دیا : ’’بے شک میں ایسا کرتی ہوں‘‘۔
حضرت عمر فاروقؓ نے ان سے فرمایا:
’’بیٹی خبردار میں تمہیں خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں ، تم اس خاتون (حضرت عائشہؓ) کی ریس نہ کرو جس کو رسول ﷺ کی محبت کی وجہ سے اپنے حسن پر ناز ہے‘‘۔
حضرت حفصہؓ رسول کریمﷺ سے ہر قسم کے مسائل پوچھنے میں بھی بے باک تھیں۔ ایک دفعہ حضور ؐ نے فرمایا: ’’اصحاب بدر و حدیبیہ جہنم میں داخل نہ ہوں گے‘‘۔
حضرت حفصہ ؓ نے کہا ’’یا رسول اللہؐ خدا تو فرماتا ہے:
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ
’’تم میں سے ہر ایک وارد جہنم ہوگا‘‘
حضور نے فرمایا ، ہاں مگر یہ بھی تو ہے:
ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا
پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں زانووں کے بل گرا ہوا چھوڑدیں گے‘‘
حضرت حفصہؓ نہایت خدا ترس تھیں اور اپنا پیشتر وقت عبادت الٰہی میں گزارتی تھیں۔ حافظ ابن عبدالبرؒ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں یہ حدیث ان کی شان میں بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ جبریل امینؑ نے حضرت حفصہؓ کے بارے میں یہ الفاظ حضورؐ کے سامنے کہے:
’’وہ بہت عبادت کرنے والی ، بہت روز رکھنے والی ہیں۔ (اے محمدؐ ) وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ ہیں‘‘۔
رسول کریم نے حضرت حفصہؓ کی تعلیم کا خاص اہمتام فرمایا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضوؐکے ارشاد کے مطابق حضرت شفا بنت عبداللہ عدویہؓ نے ان کو لکھنا سکھایا۔ بعض اہل سیر نے لکھا ہے کہ رسول کریمﷺ نے قرآن حکیم کے تمام کتابت شدہ اجزا کو یکجا کرکے حضرت حفصہؓ کے پاس رکھوادیا۔ یہ اجزا حضوؐ کی وفات کے بعد تا زندگی ان کے پاس رہے۔ یہ ایک عظیم الشان شرف تھا جو حضرت حفصہؓ کو حاصل ہوا۔
حضرت حفصہؓ دجال کے شر سے بہت ڈرتی تھیں۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ مدینہ میں ایک شخص ابن صیاد تھا۔ اس میں دجال کی بعض علامات پائی جاتی تھیں۔ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو راستے میں مل گیا۔ انہوں نے اس کی بعض حرکتوں پر اظہار نفرت کیا۔ ابن صیاد حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے اسے پیٹنا شروع کردیا۔ حضرت حفصہؓ کو خبر ہوئی تو بھائی سے کہنے لگیں:
’’تم اس سے کیوں الجھتے ہو ، تمہیں معلوم نہیں حضورؐ نے فرمایا کہ دجال کے خروج کا محرک اس کا غصہ ہوگا‘‘۔
حضرت حفصہؓ نے ۴۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ مدینہ کے گورنر مروان نے نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کو کندھا دیا۔ اس کے بعد حضرت ابوہریرہؓ جنازہ کو قبر تک لے گئے پھر ام المومنینؓ کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور بھتیجوں نے قبر میں اتارا۔
وفات سے پیشتر حضرت عبداللہ کو وصیت کی کہ ان کی غابہ کی جائیداد کو صدقہ کرکے وقف کردیں۔ انہیں حضورؐ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
حضرت حفصہؓ علم و فضل کے لحاظ سے بھی بڑے بلند مرتبے پر فائز تھیں۔ ان سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں۔ ان میں چار متفق علیہ ہیں۔ چھ صحیح مسلم میں اور باقی دیگر کتب احادیث میں ہیں۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021