رمضان کے بعد کی زندگی

تعلق باللہ کے ساتھ نیکیوں میں مسابقت جاری رکھیں

ظفر احمد خان ندوی، سعودی عرب

رمضان المبارک اپنی روحانی برکات کے ساتھ جلوہ فگن ہوا اور ہر سو نورانیت کے جلوے بکھیر کر رخصت ہوا۔ اس کی آمد سے دل ودماغ میں محبت کی چمک پیدا ہوئی کشتِ تقویٰ کی آبیاری ہوئی غریب اور نادار بھائیوں کی تنگدستی کا احساس ہوا، صدقہ وخیرات میں غیر معمولی اضافہ ہوا، مسلمانوں نے ایمان واحتساب کے ساتھ روزوں اور قیام اللیل کا اہتمام کیا۔ تلاوت قرآن کی کثرت کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم پر تدبر وتفکر اور اس کے پیغام کو سمجھنے پر بھی وقت لگایا اور نیکی وبھلائی اور خیر کےکاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی اور روزے کے تین بڑے مقاصد تقویٰ، اللہ کی عظمت وکبریائی اور اظہار تشکر کے حصول کا جذبہ دلوں میں پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
لیکن رحمتوں اور برکتوں کا یہ حصول، ماہ مقدس کی عبادات، صدقہ وخیرات، ذکر واذکار اور اجتہاد ہمیں دھوکہ میں نہ ڈال دے، کیونکہ کثرت عبادات نافع نہیں، اور شیطان انسان کو اس کے اعمال کے حوالے سے وسوسے اور دھوکے میں ڈال سکتا ہے، اور یہ کہہ سکتا ہے کہ ائے انسان تم نے بڑی بڑی عبادات اور کارہائے خیر کو انجام دیا ہے، رمضان کی ایک مہینے کی عبادت سے تمہارے پاس نیکیوں کا پہاڑ اور آجر وثواب کا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے اب اس کے بعد تمہیں نیکیوں کی ضرورت نہیں، اور یہ بات انسان کو فخر وغرور اور گھمنڈ وتکبر میں مبتلا کر سکتی۔ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، اگر آدمی اپنی پیدائش سے موت تک ساری زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق گزار دے، پھر بھی قیامت کے دن اسے یہ عمل چھوٹا محسوس ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعمال وعبادات سے نہیں بلکہ اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا، اعمال دخول جنت کی قیمت یا بدل نہیں بلکہ دخول جنت کے اسباب میں سے ہیں ورنہ ہم جنت میں صرف نیک اعمال کے ذریعے ہی داخل ہوسکتے ہیں۔رمضان المبارک میں ہم نے روزہ، تراویح، صدقہ وخیرات اور دعاء واستغفار کے ذریعے جو کمائی کی ہے اسے ضائع ہونے سے بچانے اور اس پر کاربند رہنے کے لیے کبائر سے اجتناب، اللہ ورسول کی نا فرمانی سے پرہیز، شرک وکفر اور ریاء ونمود سے دوری، قطع رحمی، والدین کی نافرمانی اور مسلمانوں کی ایذار سانی سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل اعمال کی پابندی ضروری اور لازمی ہے۔
قیام اللیل: اسے بالعموم صلوٰۃ اللیل یا تہجد کی نماز کہا جاتا ہے، عام مسلمانوں کے لیے یہ ایک نفل نماز ہے اور جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق دے ان کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اس کا اہتمام کریں۔ حضرت بلال رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ص نے فرمایا: ”قیام اللیل یعنی تہجد کا اہتمام کیا کرو، کیونکہ تم سے پہلے کے صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے، اور رات کا قیام یعنی تہجد، اللہ سے قریب ہونے، گناہوں سے دور ہونے، برائیوں کے مٹنے اور بیماریوں کو جسم سے دور بھگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس حدیث میں نماز تہجد کے چار اہم فوائد بتائے گئے ہیں، پہلا فائدہ یہ ہے کہ وہ دورِ قدیم سے صلحاء کا شعار، طریقہ اور ان کی عبادت رہی ہے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے، اس سے ربِ کریم کی قربت ومحبت نصیب ہوتی ہے۔ تیسرا فائدہ یہ کہ وہ کفارہ سیئات کا ذریعہ ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں‘‘، اور نمازِ تہجد بہت بڑی نیکی ہے۔ چوتھا فائدہ یہ کہ وہ گناہوں سے بچاتی ہے اور ترکِ معاصی سے تہجد کی توفیق نصیب ہوتی۔
نمازِ باجماعت: جس طرح رمضان المبارک میں نمازِ با جماعت کا اہتمام کیا جاتا تھا اسی طرح ماہِ مقدس کے گزر جانے کے بعد بھی اس کا اہتمام کیا جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،”نمازوں کی حفاظت کرو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ص نے فرمایا: ”کیا میں تم کو نہ بتاؤں وہ باتیں جن سے گناہ مٹ جائیں اور جنت میں درجے بلند ہوں۔“ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! بتلائیے، آپ نے فرمایا: ”پورا کرنا وضو کا سختی اور تکلیف میں جیسے جاڑے کی شدت میں یا بیماری میں اور کثرت سے مسجد تک جانا ۔ (اس طرح کہ مسجد گھر سے دور ہو اور بار بار جائے) اور انتظار کرنا دوسری نماز کا ایک نماز کے بعد۔ حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ نبی کریم ص نے فرمایا کہ جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرے گا، وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے۔ حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ص سے سنا آپ فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
سنن موکدہ کا اہتمام: ان کی حیثیت ادائیگی میں فرائض و واجبات کی تو نہیں ہے البتہ بہت اہم ضرور ہیں، احادیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور خاص طور پر سنن موکدہ کی نبی کریم ص نے بہت زیادہ تر غیب بھی دلائی ہے، اور قیامت کے دن فرائض میں اگر کچھ کوتاہی رہ گئی ہو تو ان کی تکمیل انہیں نوافل سے کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ رضائے الہی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں(بخاری)، تیسرے یہ کہ نوافل کا اہتمام رب کریم سے محبت اور اس سے تعلق قلبی کی دلیل ہے نبی ص کا فرمان ہے کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، (مسلم) لہذا ہر مومن بندہ کو چاہیے کہ سنت ونوافل میں خاص کر وہ سنن نوافل جو فرائض کے آگے پیچھے ہیں کوتاہی نہ کرے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ص ظہر سے پہلے چار اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے اور مغرب کے بعد دو عشاء کے بعد دو اور فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔(مسلم) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے ان مذکورہ بارہ رکعات کے بارے میں فرمایا کہ جس نے ان کی پابندی کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔(مسلم)، ایک اور حدیث میں ہے کہ جس شخص نے فرائض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ ایک اور روایت ہے کہ جس نے فجر کی دو رکعتیں پڑھیں تو وہ اس کے لیے دنیا اور اس میں جو کچھ ہے ان سب سے بہتر ہے۔(مسلم)
نماز وتر کا اہتمام: احادیث کی روشنی میں ہمیں نمازِ وتر کی خاص طور پر پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم ص سفر وحضر میں ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے اور تاکید بھی فرماتے۔ حضرت بریدہ اسلمی فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ص سے سنا کہ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
تلاوت وتدبر قرآن: رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ کئی کئی مرتبہ قرآن کو مکمل کرنے کے خواہش رکھتے ہیں لیکن رمضان کے بعد اس کو طاقوں کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی تلاوت وتدبر کا کثرت سے اہتمام کرنا چاہیے، کوئی بھی مومن اور مسلم کسی وقت بھی اس کی تلاوت اور تدبر وتفکر سے مستغنی نہیں ہو سکتا، لہذا اپنے اعضاء وجوارح کو جلا بخشنے اور اپنی دنیا وآخرت کو سنوارنے کے لیے پابندی سے اس کی تلاوت ضروری ہے “یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے” .(الاسراء:9)، حضرت ابوامامہ رض روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ص کو فرماتے ہوئے سنا: قرآن مجید پڑھا کرو، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔(مسلم) “اور رسول کہیں گے کہ اے میرے پروردگار! بے شک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا” (الفرقان:30) مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تھے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غور وفکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے، اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے۔ یعنی قرآن کا رک کرنا اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کےخلاف قیامت کے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر کریں گے، ایک اور حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اور قرآن تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل بنے گا‘‘ یعنی قرآن کی ہدایت سے استفادہ کرو گے تو یہ دنیا میں تمہارے لیے دلیل ہے اور آخرت میں تمہارے لیے شافع بن کر کھڑا ہوگا، اس لحاظ سے قرآن مجید دنیا میں بھی حجت ہے‘ بایں طور کہ صحیح اور سیدھے راستے کی طرف آپ کی رہنمائی کرتا ہے اور قیامت میں بھی آپ کے حق میں شافع بن کر کھڑا ہوگا۔ اس کے بر عکس اگر قرآن کو آپ نے رد کر دیا ‘ اس کے احکام کو توڑ دیا یا قرآن کی ہدایت کو قبول کرنے سے اعراض کیا تو اس صورت میں یہ آپ کے خلاف گواہ بن کر کھڑا ہو گا۔
انفاق فی سبیل اللہ: ضرورت مندوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مد نظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنے کا قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو مال تمہاری، چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر کے آخرت کا سامان تیار کرو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعده کرتا ہے، اللہ تعالیٰ وسعت واﻻ اور علم واﻻ ہے۔(البقرہ:268) یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہو جاؤ گے، لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا۔ بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے اور ان کے لیے خفتہ آرزوؤں کو اس طرح جگاتا ہے کہ ان پر انسان بڑی سے بڑی رقم بے دھڑک خرچ کر ڈالتا ہے۔
تجدید توبہ اور اس پر استمرار: رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کی پابندی اور ہمیشہ اس پر قائم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسو بہاتے رہنا اور توبہ کرتے رہنا بہت ضروری ہے، توبہ گناہوں کی بخشش، دخول جنت اور کامیابی کا ذریعہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے، “اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناه دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان والوں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا، یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما، اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے”. (التحریم:8)، خالص توبہ یہ ہے کہ، جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے، اسے ترک کر دے، اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے، آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم رکھے، اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے اس کا ازالہ کرے، جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے، محض زبان سے توبہ کر لینا کوئی معنی نہیں رکھتا، دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے، “اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ” .(النور:31)۔
ذکرواذکار کی پابندی: جس طرح رمضان المبارک میں دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ذکر واذکار کی پابندی اور اہتمام کیا گیا اسی طرح رمضان کے بعد بھی اس کا اہتمام ضروری ہے، کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ’’اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو”۔(النساء:103) یعنی دن ہو یا رات، خشکی ہو یا تری، سفر ہو یا حضر، ذکر کرنے والا غنی ہو یا فقیر، بیمار ہو یا تندرست، چھپ کر کرے یا اعلانیہ کرے، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے، چنانچہ جب تم یہ کام کرلو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت نچھاور کر دے گا اور اس کے فرشتے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔
بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب: اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے، تو ہم تمہارے چھوٹے گناه دور کر دیں گے اور عزت وبزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔(النساء:31)۔
کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کےنزدیگ وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید آئی ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو وہ کبیرہ ہے۔
بری عادات سے احتراز: ہم سب جانتے ہیں کہ تمباکو، پان، بیڑی، سگریٹ حقہ، گٹکھا، پان مسالہ اور اس قبیل کی دوسری چیزیں صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، پھر بھی لوگ استعمال کرتے ہیں اور بڑی شان سے دھواں اڑاتے ہیں، اسی طرح ان کے نقصانات کے حوالے سے حکومتیں اور سماجی تنظیمیں لوگوں کو آگاہ کرتی رہتی ہیں، لیکن لوگ پھر بھی استعمال کرتے ہیں، ان سب چیزوں یا اس قبیل کی دوسری چیزوں کے عادی افراد نے رمضان میں یا تو کلی طور پر ان کو ترک کر دیتے ہیں یا استعمال کم کرکے نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش کی حالانکہ جب اس سے قبل ان سے ان اشیاء کو ترک کرنے کو کہا جاتا تھا تو وہ عادت اور لت لگ جانے کا عذر ظاہر کرکے بالکلیہ چھوڑ دینے میں ناکامی کا اظہار کرتے تھے، تو رمضان المبارک کے اندر ان میں یہ ارادہ عزیمت اور صبر کہاں سے آیا؟ ہر گھنٹے ان اشیاءکا استعمال کرنے والوں کے اندر چودہ سے پندرہ گھنٹے تک ان چیزوں کے بغیر گزارے کی طاقت کہاں سے آئی؟ ظاہر ہے اللہ کی توفیق، ماہ مقدس کی برکتوں اور رحمتوں سے ان مقدس ایام کے احترام میں لوگوں نے یہ سب کیا، اور عزم وحوصلہ و بلند ہمتی سے اس میں کامیاب ہوئے، کیونکہ یہ معلوم تھا کہ اس طرح کی اشیاء شرور وفتن کو پیدا کرسکتی ہیں لہذا ان کو ترک کردیا، تو اگر رمضان المبارک گزر جانے کے بعد بھی اس پر قائم ہیں تو الحمدللہ، لیکن اگر ماہ مقدس کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی یہ عادات ہے آپ کے اندر باقی ہیں تو مندرجہ ذیل چار طریقے اپنا کر آپ ان سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ان اشیاء کو چھوڑنے کے سلسلے میں پختہ عزم کا مظاہرہ کریں، اللہ تعالیٰ نے عزم و ارادے سے کام لینے والوں کوقرآن پاک میں سراہا ہے، دوسرا کام یہ کریں کہ پہلی فرصت میں ترک کرنے کی تاریخ اور وقت متعین کریں، اور اس سلسلے میں تردد و تذبذب اور آنا کانی سے بچیں، تیسرا کام یہ کیا جائے کہ ایسے لوگوں کی صحبت ترک کردیں جو ان چیزوں کے عادی ہوں، ان چیزوں کے عادی افراد کی مجلس میں جانے سے پرہیز کریں، چوتھا عمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دل کی گہرائی سے دعا کریں کہ وہ اس کام میں مدد فرمائے، والله الموفق والمستعان ۔
اعمال صالحہ پر استقامت ومداومت: ہمیں اپنے نفس کو نیک اعمال کی انجام دہی کے لیے زمان و مکان کا عادی نہیں بنانا چاہیے بلکہ اعمال پر مداومت و مواظبت کا عادی بنانا چاہیے، اسی طرح اپنے کو رمضانی نہیں بلکہ ربانی بنانا چاہیے، اور رمضان المبارک جیسے نیکیوں کے موسم بہار کے علاوہ دیگر عام میں بھی اعمال کی انجام دہی میں سبقت کرنی چاہیے اور اسی پر ثابت قدم رہتے ہوئے اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش ہونی چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ص نے فرمایا :”میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔(بخاری)، استقامت کے فائدے قرآن مجید میں اس طرح بتائے گئے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ان کے پاس فرشتے یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ خوف اور غم نہ کرو، بلکہ اس کی جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے مددگار ہیں اور تمہارے لیے وہاں (جنت میں) ہر قسم کی نعمتیں ہوں گی، جس کے لیے تمہاری خواہش ہوگی۔(اللہ) غفور رحیم کی طرف سے تمہاری مہمانی ہو گی (حمٰ سجدہ)۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی رمضان المبارک میں کی گئی ہماری عبادات کو قبول فرمائے، کمیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور ہمیشہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
(مضمون نگار جامع النقر، رجال المع ، ابہا میں امام ہیں)


 

انسان اپنے اعمال وعبادات سے نہیں بلکہ اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا، اعمال دخول جنت کی قیمت یا بدل نہیں بلکہ دخول جنت کے اسباب میں سے ہیں ورنہ ہم جنت میں صرف نیک اعمال کے ذریعے ہی داخل ہوسکتے ہیں۔رمضان المبارک میں ہم نے روزہ، تراویح، صدقہ وخیرات اور دعاء واستغفار کے ذریعے جو کمائی کی ہے اسے ضائع ہونے سے بچانے اور اس پر کاربند رہنے کے لیے کبائر سے اجتناب، اللہ ورسول کی نا فرمانی سے پرہیز، شرک وکفر اور ریاء ونمود سے دوری، قطع رحمی، والدین کی نافرمانی اور مسلمانوں کی ایذارسانی سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل اعمال کی پابندی ضروری اور لازمی ہے۔