تشدد وجارحیت کا شکار معصوم بچے

4 جون کو تشدد کے شکار بچوں کے عالمی دن کے موقع پر جائزہ

محمد انور حسین

سمندر کے کنارے تین سال کے معصوم بچے ایلان کردی کی تصویر کسے یاد نہیں ہے جس نے ساری دنیا میں ایک ہلچل مچادی تھی؟ اس طرح کی بہت سی اور بے شمار تصویریں ہیں جنہیں آپ دیکھتے اور کڑھتے رہتے ہیں۔ فلسطین کے بچوں کی تصویریں کہ ان پر بم گرائے جا رہے ہیں اور ان کے گھروں سے دھواں اٹھ رہا ہے اور اسرائیلی جوان فلسطینی بچوں کو ان کی ماؤں کی آنکھوں کے سامنے کھینچ کر لے جا رہے ہیں۔
ایک تصویر ایسی بھی ہے کہ ایک بھائی اپنی چھوٹی زخمی بہن کو اٹھا کر دوڑ رہا ہے۔ بہت سے بچے اپنے ٹوٹے ہوئے مکانوں کے ملبے پر کھڑے رو رہے ہیں۔ یہ تصویریں در اصل معصوم بچوں پر ظلم وتشدد کی ہیں۔ اور اب یہ معاملہ صرف فلسطین، صومالیہ اور افغانستان تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک اس کی زد میں ہیں۔
آپ کو آصفہ کی لاش اور اس پر کیا جانے والا تشدد بھی یاد ہوگا۔ آپ نے امریکہ پاکستان اور افغانستان میں آئے دن اسکول اور اسپتالوں پر تباہ کن ہتھیاروں کے حملہ سے ہلاک ہوتے بچوں کو بھی دیکھا ہوگا۔برمی مسلمانوں اور صومالیہ کی وہ کم عمر لڑکیاں جو جنسی تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں اور بھارت میں کشمیر اور آدیواسی علاقوں میں برسوں سے مظالم جھیل رہے معصوم بچوں کی تصویریں بھی آپ کی نظروں کے سامنے ہوں گی۔ اس کے علاوہ افریقی ملکوں میں عدم تغذیہ اور بھکمری شکار کروڑوں ننگے دھڑنگے بچوں کے مناظر بھی آپ کو بے چین کرتے ہوں گے۔
ساری دنیا میں ہتھیار بیچتے پھرنے والے بے ضمیر بلکہ انسانیت دشمن سرمایہ دار دنیا میں کسی بھی طرح کا امن نہیں چاہتے بلکہ انسانوں کے درمیان جنگ وجدل کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو آپس میں لڑوا مرواکر اپنے سرمایہ میں اضافہ کر سکیں۔ چنانچہ آج دنیا کے کروڑوں معصوم بچے اسی بربریت کا شکار ہیں۔
داستان درد بھری ہے:
عالمی سطح پر ’’Save the children‘‘ نامی ادارے کی طرف سے شائع ایک رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک بچہ جنگی اور جارحانہ تشدد کا شکار ہوتا ہے۔پچھلے پانچ سالوں میں تقریبا پانچ لاکھ بچے دنیا کے صرف دس ممالک میں مارے گئے۔ اس کے علاوہ تقریباً 870000 بچے پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہلاک ہو گئے۔
جنسی بربریت کا شکار بچوں میں دس میں سے نو بچے لڑکیاں ہوتی ہیں اور زیادہ تر لڑکے جنگ میں مارے جاتے ہیں۔
بی بی سی نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فوج ہر سال تقریبا 500 سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتی ہے جن کی عمریں 12 سال سے کم ہوتی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق غزہ کی سرحد پر گزشتہ بارہ مہینے کے دوران کم ازکم 40 بچے شہید ہوگئے۔
بھارت میں 53 فیصد بچے جنسی چھیڑ چھاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 1 بلین بچے جو دو سال سے سترہ سال کے درمیان کے ہوتے ہیں وہ جسمانی، جنسی اور جذباتی جارحیت کا شکار ہوتے ہیں۔ CRY کی رپورٹ کے مطابق تقریبا 47 فیصد جرائم بھارت میں بچوں کے اغوا کیے جانے سے متعلق ہیں اس کے بعد جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کی تعداد آتی ہے۔
امریکہ اور یوروپ کے کئی ملکوں میں جارحانہ تشدد کا شکار عام طور پر اسکولی بچے ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال دنیا کے پچاس فیصد بچے تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک بچہ تشدد کے ذریعے مارا جاتا ہے۔دس میں سے ایک بچہ اٹھارہ سال کی عمر سے قبل جنسی ہراسانی کا شکار ہو جاتا ہے۔دس میں سے نو بچے ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں جسمانی سزا دینے پر پابندی نہیں ہے۔ اس طرح 732 ملین بچے کسی بھی طرح کے قانونی تحفظ سے محروم ہیں۔246 ملین بچے عالمی سطح پر اسکول سے متعلق تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی تین میں سے ایک بچہ اپنے ساتھیوں کے تشدد کا شکار ہو جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی کوشش:
9 اگسٹ 1982 کو یونایٹیڈ نیشن کا ایک خصوصی ہنگامی اجلاس فلسطین کے مسئلہ پر منعقد کیا گیا تھا۔ اس وقت فلسطین اور لبنان میں بڑے پیمانے پر معصوم بچے اسرائیل کے ظلم اور بربریت کا نشانہ بنائے گئے تھے جس سے ساری دنیا دہل گئی تھی۔اقوام متحدہ نے اپنے خصوصی اجلاس میں یہ اعلان کیا کہ ہر سال 4 جون کا دن ’’تشدد اور جارحیت کے شکار معصوم بچوں کے دن‘‘ (International Day of Innocent Children Victims of Aggression)کے طور پر منایا جائے گا۔
اس یوم کے منانے کا مقصد ان تمام بچوں کے درد کا احساس کرنا ہے جو ساری دنیا میں جسمانی، ذہنی اور جذباتی ظلم کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ دن یونایٹیڈ نیشن کے ذریعے بچوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ 1997 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق سے متعلق ایک قرارداد پاس کرائی، اس قرارداد کو تصادم اور بد امنی کے دور میں بچوں کے حقوق کی حفاظت سے متعلق ایک نمایاں قدم کے طور پر مانا گیا ہے۔ اس کے باوجود پچھلے کچھ سالوں میں بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے ذریعے ساری دنیا میں پائیدار ترقی کے لیے ایک خاکہ ترتیب دیا گیا جسے ’’پائیدار ترقی کا ایجنڈہ 2030‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس ایجنڈے میں بچوں کے مستقبل کی ضمانت کے لیے ایک آفاقی منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ اس نئے ایجنڈے میں واضح اہداف طے کیے گیے کہ ’’بچوں پر ہونے والے ہر طرح کے ظلم وتشدد کا خاتمہ کرنا ہے‘‘۔
اسی ایجنڈے کے تحت یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ دنیا میں عام طور پر بچوں پر چھ قسم کے بڑے مظالم ہوتے ہیں۔ بچوں کی جنگ میں شمولیت، بچوں کا قتل، جنسی زیادتی، بچوں کا اغوا، اسپتالوں واسکولس پر حملہ اور بنیادی ضرورتوں سے محرومی وغیرہ۔
اقوام متحدہ کے اہداف:
2030 تک بچوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اہداف طے کیے گیے جیسے ہر قسم کے تشدد اور اس سے ہونے والی اموات کو نمایاں طور پر ختم کر دینا۔ بچوں کی بے عزتی، استحصال، اغوا نیز ہر قسم کے تشدد پر روک لگانا۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا اور تمام بچوں کو یکساں انصاف دلوانا۔ ملکوں کے درمیان غیر قانونی ہتھیاروں اور دولت کے تبادلہ پر پابندی لگانا۔ ہر قسم کے منظم تشدد اور جرائم کو روکنا، معلومات کے حصول کو آسان بنانا وغیرہ۔
اسلامی نقطہ نظر:
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اسلام نے بچوں کی اچھی پرورش و پرداخت پر زور دیا ہے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی تاکید کی ہے چنانچہ دوران جنگ بھی دشمن کے کسی بچے سے زیادتی کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ہماری تاریخ کے روشن صفحات گواہی دے رہے ہیں کہ ہمارے رسول اکرمﷺ نے نہ صرف انسانوں کے بچوں کی حفاظت اور عزت کی ضمانت دی ہے بلکہ جانور اور پرندوں کے بچوں کی ضمانت بھی دی ہے۔ خلیفتہ المومنین سیدنا عمر کی سیرت میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ آپ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ کوئی بچہ بھوکا نہ سوئے۔
ہماری ذمہ داری:
اقوام متحدہ کے ذریعے معصوم بچوں پر جارحانہ تشدد کو روکنے کے لیے 4 جون کو دنیا بھر میں ایک دن منایا جاتا ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ظالم سرمایہ دار انسانیت نواز منصوبوں کو کس طرح ناکام بنا دیتے ہیں اور بلاشبہ یہ سرمایہ دار بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ لیکن ہم بھی مایوس نہیں ہیں۔ملت اسلامیہ کی ذمہ داری مسائل کی سنگینی سے واقفیت کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو ختم کرنے کی آخری کوشش تک ہے۔ ظلم کا شکار یہ بچے نہ ہندو ہیں نہ مسلمان نہ عیسائی وہ محض بچے ہیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں نیک شریف اور اچھے انسان بنائیں۔ دنیا کے ان معصوم بچوں کو تشدد سے بچانے کے لیے اب ملّی تنظیموں، اداروں اور افراد کو مضبوط لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ یہ لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے اس پر دانشوران قوم وملت غور فرمائیں اور حرکت وعمل کے لیے آمادہ ہو جائیں۔


 

اس یوم کے منانے کا مقصد ان تمام بچوں کے درد کا احساس کرنا ہے جو ساری دنیا میں جسمانی، ذہنی اور جذباتی ظلم کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ دن یونایٹیڈ نیشن کے ذریعے بچوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت کے طور پر منایا جاتا ہے۔