میلکم ایکس سے جارج فلائڈ تک: ظلم و بربریت کے سو سال

امریکہ میں سیاہ فام شخص کے قتل کے بعدسوشل میڈیا میں اسلام پسند رہنما کے خیالات کی گونج

فواز جاوید خان

۲۹ مئی کو میلکم ایکس کی یوم ولادت تھی انسٹاگرام پر ان کا ایک پوسٹر میری نظر سے گزرا۔ ’’میں حق کا حامی ہوں چاہے اسے کوئی بھی بیان کرے۔ میں انصاف کا حامی ہوں، چاہے وہ کسی کے موافق ہو یا مخالف۔‘‘
میلکم ایکس کا یہ ایک جملہ میرے اندر ان کے بارے میں جستجو پیدا کرنے کے لیے کافی تھا۔ نیٹ پر ان کے بارے میں ڈھونڈنا شروع کیا، ان کی ایک آپ بیتی اور ایک ڈائری میرے ہاتھ لگی۔ میں جتنا ان کے بارے میں پڑھتا گیا حیران ہوتا گیا۔صرف انتالیس سال کی عمر میں ان کو شہید کر دیا گیا تھا۔ ایک کالے گھرانے میں پیدا ہونے اور والدین کے نہ ہونے کی وجہ سے نہ ان کی کوئی تربیت ہوئی نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی خاص موقعہ ملا۔ اکیس سال کے تھے جب ان کو اور ان کے ایک دوست شارٹی کو چوری کے الزام میں پکڑا گیا اور دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ۱۹۵۲ میں وہ جیل سے چھوٹے اور نیشن آف اسلام نامی تنظیم میں شامل ہوئے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ۱۹۵۲؁ سے ۱۹۶۵؁ کے درمیان صرف تیرہ سال کے مختصر سے عرصے میں انہوں نے کتنی محنت کی ہوگی کہ آج بھی بلیک نیشنلزم اور پین افریکانزم مومنٹس کے بڑے رہنماؤں میں گردانے جاتے ہیں۔ مظلوم قوموں کے لیے آواز اٹھانے اور حقوق انسانی کی خاطر جد وجہد نے ان کو تمام دبے کچلے لوگوں کا مسیحا بنا دیا۔ آج کی اس نام نہاد متمدن دنیا میں جارج فلائڈ نامی ایک کالے شخص کو کچھ گورے پولیس آفیسر امریکہ کے ایک بڑے شہر مینا پولس میں سڑک کے بیچوں بیچ دن دہاڑے گردن پر گھٹنا رکھ کر گلا گھونٹ کر مار دیتے ہیں۔ یہ واقعہ اسی مئی کی ۲۵ تاریخ کا ہے۔ ایک مرتبہ پھر لوگوں کو میلکم ایکس کی اس کے خیالات اور اس کے نظریات کی یاد آجاتی ہے۔ ان کو یاد آتا ہے کہ میلکم ایکس نے کہا تھا ’’یکطرفہ طور پر کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا‘‘۔ میلکم ایکس نے کہا تھا کہ ’’مظلوم کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے ظلم برداشت کرتے رہنے کی تلقین کرنا جرم ہے چاہے تلقین کرنے والا کوئی بھی ہو‘‘ اس نے کہا تھا کہ ’’وہ شخص جو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کرتا اسے بالآ خر اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر حد تک گِرنا پڑتا ہے‘‘
پہلے تو مجھے ان کا یہ تلخ لب ولہجہ نہیں بھایا لیکن جب میں نے ان کی اپنی زندگی کے بارے میں پڑھا تو مجھے اپنی رائے بدلنی پڑی۔ جب وہ اپنی ماں کے پیٹ میں تھے تبھی ان کے گھر پہ گوروں نے حملہ کر دیا تھا، وہ ان کے والد کو مارنے کے لیے آئے تھے۔ ان کے والد اس وقت گھر پہ نہیں تھے اس لیے ان کی جان بچ گئی۔ حالتِ حمل میں سفر کرنا مناسب نہیں تھا اس لیے وہ میلکم ایکس کی ولادت تک کسی طرح وہیں رہے لیکن ولادت کے فورا بعد وہاں سے کوچ کر گئے۔پھر ایک دن گوروں نے ان کے اس گھر پہ بھی ہلا بول دیا، دن دہاڑے گھر والوں کے سامنے ان کا گھر جلا دیا گیا۔ پولیس والے آئے اور سامنے کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتے رہے نہ تو آگ بجھائی نہ ہی آگ زنی کرنے والوں کو گرفتار کیا۔ ان کے والد کو البتہ پوچھ گچھ کے لیے لے گئے اور مستقل ان کو جانچ پڑتال کے نام پر ستاتے رہے آخر ان کو وہ گھر بھی چھوڑنا پڑا۔
میلکم ایکس نے اسی بات کو اپنی ایک تقریر میں کہا تھا جو کہ جارج فلائڈ کے قتل کے بعد کافی وائرل ہو رہی ہے ’’وہ معصوموں پر ظلم کرتے ہیں، پھر الزام بھی انہی کے سر دھر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے امریکہ کا انصاف، یہ ہے امریکہ کی ڈیموکریسی۔‘‘ان کے والد کو ہمیشہ یہ خطرہ لاحق ہوتا تھا کہ گورے ان کو مار ڈالیں گے، ان کے والد کے چھ بھائیوں میں سے چار بھائیوں کو الگ الگ طریقہ سے مارا جا چکا تھا۔ بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ۱۹۳۱؁ میں ان کے والد کو مار کر ایک گاڑی سے کچل دیا جاتا ہے۔ پولیس اسے ایکسیڈینٹ کا نام دیتی ہے اور قانونی کارروائی کرنے سے دامن بچا لے جاتی ہے ۔ انشورنس کمپنی والے اسے خود کشی کا نام دیتے ہیں اور پالیسی ایشو کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ والدہ ڈیپریشن میں چلی جاتی ہیں۔ بالآخر ۱۹۳۸؁ میں ان کو ایک مینٹل ہاسپٹل میں بھرتی کر نا پڑتا ہے۔
اب میلکم ایکس کے بھائی بہن الگ الگ یتیم خانوں اور رفاہی کام کرنے والوں کے پاس بھیج دیے جاتے ہیں۔ میلکم ایکس ایک کے بعد ایک کئی الگ الگ جگہوں پر بھیجے جاتے ہیں۔ نہ اپنا کوئی ٹھکانہ نہ اپنا کوئی گھر۔ اوروں کے رحم وکرم پر رہتے ہوئے وہ خود بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں کسی ہوٹل میں برتن دھونا کہیں جوتے پالش کرنا وغیرہ۔ ایک بار ان کو ایک اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے جہاں وہ امتیازی نمبرات حاصل کرتے ہیں۔ ایک دن جب کہ وہ درجہ آٹھ میں ہوتے ہیں ان کے انگلش کے استاد کلاس میں سوال کرتے ہیں کہ ’’تم سب کو آگے چل کر کیا بننا ہے؟‘‘ گورے بچے جو پڑھائی میں ان سے کمزور ہوتے ہیں اپنے اپنے خواب بتاتے ہیں اور استاد سے شاباشی لیتے ہیں۔جب میلکم ایکس استاد سے اکیلے میں مل کر ان کو یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک وکیل بننا چاہتے ہیں تو ان کو جواب ملتا ہے ’’انسان کو زندگی میں حقیقت پسند ہونا چاہیے، تم زیادہ سے زیادہ ایک کارپینٹر بننے کا خواب دیکھ سکتے ہو‘‘ یہ واقعہ ۱۹۳۹؁ کا ہے جب کہ ان کی عمر صرف پندرہ سال تھی۔اس واقعہ کو میلکم ایکس اپنی ایک تقریر میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’گوروں کے معاشرے میں کسی کالے بچے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے چاہے وہ کتنا ہی با صلاحیت اور با شعور کیوں نہ ہو۔‘‘استاد کا یہ جواب سن کر وہ بہت مایوس ہو جاتے ہیں، پڑھائی چھوڑ کر اپنی ایک بہن ’ایلا ‘ کے پاس ’بوسٹن‘ چلے جاتے ہیں۔ وہاں وہ جوتے پالش کرنے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔ وہاں انہیں شارٹی نام کا ایک پارٹنر مل جاتا ہے جو ان کو غلط راستے پر لے جاتا ہے۔ وہ کافی دنوں تک اس کے ساتھ کام کرنے کے بعد ۱۹۴۶؁ میں پکڑے جاتے ہیں اور دس سال جیل کی سزا سنا دی جاتی ہے ۔ جیل جانے سے پہلے تک کے اس پورے عرصے میں وہ اپنی نیگرو شناخت مٹانے پر تلے ہوتے ہیں، اوروں کی طرح ان کو بھی نیگرو ہونا عار اور رسوائی کا باعث لگتا ہے۔ اس عار کو چھپانے کی خاطر وہ دوسروں کی طرح بناوٹی زندگی گزارنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔جیل میں ان کو پڑھائی کا شوق ہوتا ہے، وہ جیل کی لائبریری میں کتابیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیل کے آخری دنوں میں ان کے بھائی ان سے ’نیشن آف اسلام‘ نامی ایک تنظیم کا تعارف کرواتے ہیں جس کا مقصد کالوں کے حقوق کا تحفظ اور بلیک نیشنلزم کا دفاع ہوتا ہے۔ ۱۹۵۲؁ میں رہائی کے بعد وہ اس تنظیم کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔
یہاں سے دراصل وہ میلکم لٹل سے میلکم ایکس یعنی وہ جس کی شناخت کھو گئی ہو، بنتے ہیں ۔ یہاں سے ان کی اصل زندگی کی شروعات ہوتی ہے۔ وہ بہت جلد ’نیشن آف اسلام ‘ کے ذمہ داروں میں شمار ہونے لگتے ہیں۔ عوام میں ان کے اثر ورسوخ کا اندازہ آپ اس سے لگائیے کہ ان کی شمولیت سے پہلے ’نیشن آف اسلام ‘ کے صرف چار سو ممبر تھے ان کی شمولیت کے صرف آٹھ سال بعد یہ تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔ 10سال سے زائد عرصہ ’نیشن آف اسلام‘ میں رہنے کے بعد کچھ وجوہات کی بنا پر وہ ۱۹۶۴؁ میں اس سے الگ ہو گئے۔ جیسے ہی وہ فارغ ہوئے الگ الگ ملکوں کے سربراہان کی دعوت آنا شروع ہو گئی۔ وہ اب ایک علاقہ یا ایک نسل کے لیڈر نہیں بلکہ ایک عالمی لیڈر اور قائد کے طور پر سامنے آئے۔۲۱ فروری ۱۹۶۵؁ میلکم ایکس میان ہٹن سٹی کے ایک پبلک پروگرام میں تھے، کچھ لوگوں نے ان پر فائرنگ کر دی، اکیس سے زائد گولیاں ان کو لگی تھیں جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے اور ہاسپٹل پہنچتے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کو اپنے والد کی طرح ہمیشہ سے یہ لگتا تھا کہ ان کو مار دیا جائے گا اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس آواز کو جو اب برداشت سے باہر ہو رہی تھی طاقت کے بل پر دبا دیا گیا تھا۔ میلکم ایکس نے بنیادی طور پر جس سماجی وسیاسی مسئلہ پر گفتگو کی وہ تھا رنگ ونسل یا کسی اور بنیاد پر اونچ نیچ کا مسئلہ، کچھ لوگ اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو دوسروں سے برتر واعلیٰ سمجھنے لگتے ہیں اور وہ اپنے سے کمتر قوم کو ستانا شروع کر دیتے ہیں، بات چلتے چلتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ان سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ چنانچہ اب ہم نے جارج فلائڈ کو ایک گورے کے گھٹنے تلے دم توڑتے ہوئے دیکھا ہے۔سلسلہ صفحہ نمبر ۱۴
اس مسئلہ کا حل انہوں نے بہت واضح لفظوں میں اپنی ڈائری میں ذکر کیا ہے۔ ڈائری کی خوبصورتی ان کے حوصلہ مند افکار اور جان دار جملے ہیں۔ یہ ڈائری ان کی زندگی کے آخری چند سالوں کی ہے جس میں وہ حج کے سفر پر شہزادہ فیصل کے مہمان کے طور پر پہنچے تھے، بعد میں مصر اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ ساتھ چند افریقی ممالک کا بھی دورہ کر کے آئے تھے۔ وہ اس سفر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اسلام ہی وہ مذہب ہے جو تمام طبقات اور رنگوں کے لوگوں کو ایک درجہ میں رکھتا ہے۔ حج اس کی شاندار مثال ہے۔ صرف مسلم، حق پرست، آپسی بھائی چارہ رکھنے والے ہی مکہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ جس کے پاس جو ہے وہ اسے دوسروں کے ساتھ بانٹنے کو تیار ہے، آپس میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں، علم رکھنے والے دوسروں تک علم کو پہچانے میں لگے ہیں‘‘
چند صفحات کے بعد لکھتے ہیں ’’اگر صرف اور صرف حج کے پیغام کو ہی ہم صحیح معنوں میں باہر کی دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہر سال خود بہ خود ملینوں کی تعداد میں لوگ دین اسلام میں شامل ہونے لگیں گے۔ لیکن اس کے لیے ہم کو ماڈرن دنیا کی سائیکولوجی کو سمجھنا ہوگا۔ میری دعا ہے کہ جس طرح یہاں کے مسلمان ماڈرن انداز کی سڑکیں، عمارتیں اور اسکول تعمیر کر رہے ہیں بلکہ خود مسجد حرام کو جس قدر ماڈرنائز کر رہے ہیں، وہ تبلیغ اسلام کے طریقوں کو بھی کچھ ماڈرنائز کریں اور اسلام کی تصویر کو اس انداز سے متمدن دنیا کے سامنے پیش کریں کہ وہ اس کی سمجھ میں آسکے۔‘‘
وہ مکہ مکرمہ میں کچھ دن قیام کے بعد مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں اور وہاں کی منظر کشی کچھ اس طرح کرتے ہیں ’’شہر انتہائی پر سکون ، پر امن اور روح افزا ہے۔ جس نبی نے امن واخوت پر مبنی دین کی بنیاد رکھی ہو اس کی آخری قیام گاہ یقیناً ایسے ہی کسی شہر میں ہونی چاہیے تھی۔‘‘
وہاں بھی جس چیز نے ان کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آپسی بھائی چارہ اور انسانی مساوات ہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ایسا بھائی چارہ کہ ہر رنگ اور نسل کے لوگ دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ آپس میں بالکل گھل مل گئے ہیں۔ ایک خدا کی عبادت کی طاقت آج مجھ پر واضح ہوئی۔ مجھے امریکہ کی اونچ نیچ اور اس سے پیدا ہونے والی برائیوں کے بارے میں کھل کر باتیں کرنے کا بھی موقعہ ملا‘‘خلاصئہ کلام یہ ہے کہ تمام مسائل کا حل اسلام ہے، اسلام ہی ہر قسم کے مسائل کا واحد حل ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کو ماڈرن دنیا کے سامنے قابل فہم انداز میں پیش کریں۔ میلکم ایکس اگر الحاج ملک الشہباز بن سکتے ہیں تو نہ جانے اور کتنے لوگ ہیں جو خدائی رہنمائی کے محتاج بلکہ اس کی تلاش میں سرگرداں لیکن ہدایت کے سرچشمہ سے دور ہیں۔


 

وہ معصوموں پر ظلم کرتے ہیں پھر الزام بھی انہی کے سر دھر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے امریکہ کا انصاف، یہ ہے امریکہ کی ڈیموکریسی۔‘‘