رمضان المبارک کا شایان شان استقبال کیجیے

روزہ اور تلاوت قرآن کے ذریعہ ایمان کو تر و تازہ کرنے کا موقع

جاویدہ بیگم ورنگلی

ہر شخص چاہے وہ غریب ہو یا امیر، دیہاتی ہو یا شہری مہمان کا استقبال اپنی حیثیت و قدرت اور اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے۔ کسی مہمان کے آنے کی اطلاع ملتے ہی ایک ہلچل سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر سوچنے لگتا ہے کہ اس کو مہمان کا استقبال کس طرح کرنا ہے پھر اپنی سوچ کے مطابق مہمان کے استقبال کی تیاریاں شروع کردیتا ہے۔ ہر عمل کی بنیاد سوچ و فکر ہوا کرتی ہے۔ سوچ ہی عمل کے سانچے میں ڈھلتی ہے۔ اگر آنے والا مہمان معزز و محترم ہو اور ذاتی سفارشات بھی اس کے ساتھ وابستہ ہوں تو سونچ کا انداز بدل جاتا ہے۔ اعلیٰ پیمانے پر استقبال کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں اور بڑی باریک بینی سےاپنی تیاریوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔ صفائی و ستھرائی کا نہ صرف خیال رکھا جاتا ہے بلکہ سب سے پہلے صفائی و ستھرائی کا کام ہی شروع کیا جاتا ہے کیونکہ اعلیٰ پیمانے پر کی گئی ساری تیاریاں بے کار محض ہوکر رہ جاتی ہیں اگر اشیا ہر طرف بکھری پڑی ہوئی ہوں۔ اس طرح بہترین سے بہترین پکوان پکاتے وقت برتن کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ اس قابل نہیں رہتے کہ مہمان کے سامنے پیش کیے جائیں۔ بہترین مشروب اگر کسی میلے گلاس میں پیش کیا جائے تو کوئی اس کو پینا پسند نہیں کرتا۔
اس طرح جسم پر لگے ہوئے میل کچیل کو دور کیے بغیر بہترین لباس زیب تن کیا جائے تو وہ میل کچیل بہترین لباس کو خراب کرکے رکھ دے گا۔ یعنی کوئی عمل اسی وقت مفید و کار آمد ثابت ہوتا ہے جب وہ ہر قسم کی ناپاکی سے پاک ہو وہ ناپاکی جسم کی ہو یا دل کی ہو یا خیالات و عقائد کی ہو یا نیت کی اس کے لیے ضروری ہے کہ صفائی کی اہمیت کو سمجھا جائے تاکہ استقبال کی تیاریاں بیکار محض ہوکر نہ رہ جائیں۔ وہ مبارک مہینہ جس میں اللہ کی سب سے عظیم نعمت نازل کی گئی اس کے استقبال کے لیے فکری تیاری کرنی چاہیے۔
محسن انسانیت ﷺ کا احسان ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں ہماری عملی رہنمائی فرمائی ۔ آپؐ کا معمول تھا کہ ماہ شعبان میں خطبہ دیا کرتے تھے جس میں آپﷺ آنے والے ماہ رمضان کی عظمت و اہمیت بیان فرمایا کرتے تھے اور اس ماہ کی برکتوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے پوری محنت و کوشش کی تاکید بھی فرمایا کرتے تھے۔ اس ماہ مبارک سے فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس کی عظمت و اہمیت کو سمجھے۔ اللہ کی سب سے عظیم نعمت قرآن اس ماہ مبارک رمضان میں نازل کی گئی۔ قرآن اللہ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کے لیے دنیا کی ہر چیز قربان کرنے پر بھی اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ قرآن اللہ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ اسکی عظمت و شان کا انسان اندازہ کرہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’اگرہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر بھی نازل کیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے دباجارہا ہے۔ پھٹا پڑتا ہے۔ (الحشر ۲۱) یہ اللہ کی عظیم نعمت قرآن ماہ رمضان میں نازل کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو ہزار مہینوں سے بہتر بنایا ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ ارشاد ہوا اور ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ وہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوںسے بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک (القدر)
قرآن اللہ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ اس کی عظمت کا اظہار الفاظ کے ذریعہ ادا کرنا مشکل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ نصیحت ہے جو ان سارے امراض کی شفا ہے جو تمہارے سینوں اور دلوں میں پائے جاتے ہیں یہ اللہ کا فضل اور بندوں پر اس کی رحمت ہے (یونس ۵۷)سورہ بقرہ میں فرمایا گیا ہے۔ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست بتانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے (بقرہ ۱۸۳) ’’تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ہم خود راہ نہ پاسکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا ’’(اعراف۴۴)’’ مہربان خدا، نے اس قرآن کی تعلیم دی‘‘۔
قرآن، فانی اور دائمی زندگی کی فلاح و کامرانی کا راستہ بتاکر اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے زندگی گزارنے اور انجام کار دوزخ کے عذاب سے بچانے والا ہے۔ توحید خالص کا سبق دے کر غیر اللہ کی غلامی سے نجات دلاتا اور انسان کو اس کے مقام و مرتبہ اور منصب سے روشناس کرواکے اس کو مقصد زندگی سے آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح دنیا کو فتنہ و فساد سے بچانے کا انتظام کیا۔ انسانیت کا سبق دے کر انسانوں کا ہمدرد و خیر و خواہ بنایا عدل و قسط کا سبق دے کر سب کے ساتھ انصاف کرنے اور ظلم و زیادتی کرنے سے روکا۔ زندگی کا راز کھول کر عارضی زندگی کے عیش و آرام اور رنگینیوں، نفس کی سرکش قوتوں، شیطان کے فریب سے بچاکر اللہ کی رضا کا راستہ بتایا جس کے نتیجے میں ملنے والی جنت کی بیش بہا نعمتوں کا طلب گار بنایا۔
رمضان وہ ماہ مبارک ہے جس میں نفل اعمال صالح، فرض اعمال صالحہ کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں اور فرائض ستر گنا زیادہ وزنی اور بلند ہوجاتے ہیں۔ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں نیکی کے راستوں پر چلنے کی سہولت اور توفیق عام ہوجاتی ہے جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور برائی کے مواقع کم سے کم ہوجاتے ہیں (بخاری، مسلم)
اس ماہ مبارک رمضان میں روزے فرض کیے گئے۔ روزوں کے بارے میں آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے، آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے ایک نیکی دس گناہ ہے ستر گنا تک پھلتی پھولتی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے وہ خاص میرے لیے ہے اور میں اس کا جتنا چاہتا ہوں بدلہ دیتا ہوں۔
ایسے عظیم الشان مہینے سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہونے کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے استقبال کے لیے تیار کرنے کے لیے فکری تیاری ہونی ہے یعنی اس کی عظمت و اہمیت کو سمجھ کر تن من دھن سے اس راستے پر اپنے آپ کو لگانا ہوتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے نیت کی درستگی ضروری ہے۔ ہر عمل اللہ ہی کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ ہی کے لیے ہو کسی دوسری غرض کا شائبہ تک نہ ہو۔ یعنی ریا و دکھاوا نمود و نمائش اور ذاتی اغراض سے بالکل پاک ہو۔ صرف اور صرف اللہ کی رضا مطلوب ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو صرف اسی کے لیے ہو اخلاص نیت ہو ارادے میں پختگی ہو تو اس کا ماہ مبارک کا شایان شان استقبال کر پائیں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022