’’رام مندر ،چندہ اور مسلمان‘‘

آر ایس ایس کا مسلمانوں کے بھارتی کَرن کا منصوبہ

شبیع الزماں، پونے

 

ہندو تو اپنے تضادات کو چھپانے کے لیے مسلم دشمنی کی بیساکھی ترک نہیں کرے گا
پچھلے دنوں ملک کی معروف شخصیت، جرنلسٹ اور تجزیہ نگار وید پرتاپ ویدک نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کیا کہ انہیں رام مندر کی تعمیر میں چندہ دینا چاہیے اور ایسی کچھ کوششوں کا تذکرہ بھی کیا جس میں بعض مسلمان رام مندر کے چندے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک دو اپیلیں اس طرح کی گردش کرتی نظر آئیں۔ ہندوستان میں نریندر مودی حکومت قائم ہونے کے بعد سے وقفے وقفے سے اس طرح کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ سنگھ سر چالک موہن بھاگوت مسلمانوں کہ یہ یاد دہانی کرواتے رہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے ان کے آبا و اجداد ہندو تھے جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا‘‘
اسی طرح ۲۰۱۸ کے تین روزہ پروگرام کے آخری دن سوال جواب کے سیشن میں مسلمانوں کے تعلق سے موہن بھاگوت نے جواب دیتے ہوئے یہی بات دہرائی تھی کہ ’’ہمارا پیغام راشٹریتا کا ہے جو بھارت کے مسلمانوں کی، عیسائیوں کی سب کی پرمپرا ہے۔۔۔ بھاگوت آگے کہتے ہیں: ’’کن بنیادوں پر ہم آپ کو اپنا مانیں گے یہ ذات، فرقہ یا زبان نہیں ہے بلکہ مادر وطن، تہذیب اور آبا واجداد ہیں۔ ان پر ہم زور دیتے ہیں اور انہیں ہم اپنی راشٹریتا کا اصول مانتے ہیں‘‘
اس طرح کی باتوں سے مقصود مسلمانوں کو بھارتی کَرن پر ابھارنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی تہذیب سے کو چھوڑ کر ہندو تہذیب کو اپنالیں۔ سنگھ کے لٹریچر میں بھی مسلمانوں کے بھارتی کَرن پر کافی زور دیا گیا ہے بالخصوص، گولوالکر کے یہاں اس پر کافی زور دکھائی دیتا ہے۔
اس طرح کی صدائیں وقفے وقفے سے اٹھتی رہتی ہیں۔ اکثر اوقات اکتریتی طبقے کی طرف سے اور مسلمانوں میں بھی بعض سرکاری قسم کے لوگ اس طرح کے مشوروں سے مسلمانوں کو نوازتے رہتے ہیں۔ ان کے چکر میں پڑ کر بعض سادہ لوح مسلمان بھی کہتے رہتے ہیں کہ سنگھ سے ڈسکشن ہونی چاہیے تاکہ دونوں طرف ایک دوسرے کو سمجھنے اور قبول کرنے کا ماحول پیدا ہو۔
اگر مسلمانوں کے بھارتی کَرن پر گفتگو کی جائے تو یہ پروسس دو مرحلوں میں طے ہوگا۔ اول یہ کہ خود مسلمانوں کو اپنی تہذیبی شناخت کو ختم کرکے ہندو سماج میں ضم ہونا پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ خود ہندو سماج یا ہندوتوادیوں کو مسلمانوں کو اپنانا پڑے گا۔
جہاں تک بھارتی کَرن کے پہلے مرحلے کا تعلق ہے تو مسلمانوں کا اپنی مذہبی شناخت پر اصرار، اپنے کلچر اور تہذیبی روایات سے ان کی گہری وابستگی دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایں خیال محال است جنوں است۔ یعنی مسلمانوں کا ہندو تہذیب کو اپنانا تو دور بہت دور کی بات ہے وہ اپنی تہذیب سے دوری تک گوارا نہیں کریں گے اور یہ موقف مسلمانوں کی اکثریت کا موقف ہے۔ رہ گئی بات بعض ایمان فروشوں کی تو وہ ہر زمانے اور ہر قوم میں پائے جاتے رہے ہیں اس لیے ان کا سختی سے نوٹس لینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں اور ویسے بھی اس طبقے کی مسلمانوں کی مین اسٹریم میں نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی انہیں کوئی اثر حاصل ہے۔ بھارتی کَرن کے پروسس کا دوسرا مرحلہ اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ کیا خود ہندوتوا وادی مسلمانوں کو تسلیم کریں گے۔اسے سمجھنے کے لیے ان حالات کو سمجھنا ضروری ہے جس میں ہندوتوا کے نظریہ نے جنم لیا ہے۔
برصغیر میں مسلم سلطنت کے زوال اور انگریزوں کی آمد نے ہندووں میں اقتدار کے عزائم پیدا کر دیے تھے۔ انگریزی حکومت کے ابتدائی زمانے میں جہاں مسلمان اور انگریزوں کے درمیان ہر سطح یعنی سیاسی، سماجی اور تہذیبی سطح پر تصادم برپا تھا ہندووں کے لیے انگریزوں سے تعلق استوار کرنا مشکل نہ ثابت ہوا کیونکہ ہر صاحب اقتدار سے مرعوبیت اور مداہنت ان کا مزاج تھا اس لیے ہندووں کو مغربی تہذیب اور تعلیم کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں مسلمانوں کی طرح دشواری پیش نہیں آئی۔ مغربی تعلیم اور تہذیب نے ہندووں میں دو طرح کے رجحانات کو پیدا کیا۔ ایک الحاد اور مذہب بیزاری کا دوسرے مذہب میں اصلاح کر کے اسے جدید زمانے کے مطابق قابل قبول بنانا۔ ہندووں کی عظیم اکثریت شاستروں کے مطابق اپنے سماج کی تنظیم چاہتے تھے۔ ہندو سماج کی اس ضرورت کو ہندو شدت پسندوں نے پورا کیا۔انہوں نے ہندووں کے اندر اپنے مذہب اور کلچر کے تئیں اطمینان پیدا کیا۔ جس کے سبب ہندووں میں احساس کمتری ختم ہوا اور فخر سے ہندو کہلانے کا مزاج پیدا ہوا۔ اس شناخت کے سبب ہندووں میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا اور ہندووں نے محکوم رہنے کے بجائے اقتدار کے خواب دیکھنا شروع کیا۔ انگریزی حکومت کے خاتمہ کے وقت یہ منزل قریب نظر آنے لگی لیکن اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ایک مضبوط بیانیہ اور نظریہ کی ضرورت تھی۔ ایک ایسا نظریہ جو ہندووں کو متحد کر دے، انہیں ایک شناخت عطا کرے اور جس کے ذریعے پورے ملک پر ہندو تہذیب اور ہندووں کا غلبہ یقنی ہو جائے۔ ابتدائی زمانے کے ہندوتوا وادیوں،جیسے دیانند سرسوتی، شردھانند، تلک اور مالویہ نے اس نظریہ کو مذہبی بنیادوں پر استوار کرنا چاہا لیکن ہندووں میں اختلاف کا بڑا سبب مذہب ہی تھا اس لیے ابتدائی زمانہ میں یہ نطریہ عوامی نظریہ نہیں بن پایا۔
اس لیے ونایک دامودر ساورکر نے ہندوتوا کے نظریے کی بیناد وطنیت پر رکھی جس میں مزید اصلاحات گولوالکر نے کیں اور بہت جلد اس نظریہ نے ہندووں میں عوامی مقبولیت حاصل کرلی۔ اس تاریخی پس منظر کو اگر ذہن میں رکھیں تو ہندوتوا کے لیے مسلمانوں کا وجود ناگزیر نظر آتا ہے۔ اس نظریہ کو اپنی بقا کے لیے مسلمانوں کی شدید ضرورت ہے۔ اس کی وجوہات درج زیل ہیں۔
اول یہ کہ ہندوتوا کے اس نظریہ کی اٹھان ہی مسلم مخالف تاریخ کی بنا پر تھی۔ مسلمانوں کی تاریخ کو بالکل ہی ہندو مخالف تاریخ کے طور پر پیش کیا گیا۔ بابر، اورنگ زیب، خلجی ودیگر مغل بادشاہوں اور مسلم حکمرانوں کے دور کو ہندووں پر مظالم کے دور کے طور پر پیش کیا گیا جن کے خلاف شیواجی اور مہارانا پرتاب جیسے حکمرانوں نے ہندووں کے لیے آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔ ہندوتوا وادی آج بھی اسی بیانیہ کو استعمال کرتے ہیں کہ موجودہ مسلمان انہیں ظالم بادشاہوں کی وراثت ہیں۔ بابر کی اولاد جیسے جملے اس تاریخی بیانیے کو زندہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ ہندوتوا اعلیٰ ذات کے ہندووں کی سیاست ہے جو برہمنی ہندوازم کے اطراف گردش کرتا ہے۔ اس تصور کے تحت منوسمرتی کے طبقاتی نظام کو قائم کرنے کا خواب دکھایا گیا تھا۔ اس خواب میں نچلی ذات کے ہندووں کے لیے کوئی کشش نہیں تھی بلکہ امبیڈکر کی تحریک نے یہ خدشہ پیدا کر دیا تھا کہ یہ لوگ کبھی بھی ہندو مذہب ہی کو ترک کر کے کسی اور طرز حیات کو اپنا سکتے ہیں۔ اس لیے ان تمام لوگوں کو ہندو باقی رکھنے اور منو وادی سماج کی تعمیر میں استعمال کرنے کے لیے ایک مشترکہ ایجنڈے کی ضرورت تھی اور یہ ایجنڈا مسلم دشمنی کی صورت میں بڑی آسانی سے فراہم کر دیا گیا۔ اب ہندوتوا کے نظریہ کی بقا کے لیے مسلم دشمنی ایک لازمی عنصر ہے۔
تیسرا یہ کہ ہندو مذہب کے انتشار فکر کے سبب ہندووں کو متحد کرنے کے لیے ہندوتوا کا نظریہ قائم کیا گیا تھا لیکن ہندو مذہب کی طرح ہندوتوا کا نظریہ بھی اختلاف کا شکار ہے اور اب تک ہندوتوا وادی خود ہندوتوا کی کوئی ٹھوس اور سب کے لیے قابل قبول تعریف طے نہیں کر پائے۔ ابتدائی زمانے کے ہندوتوا وادیوں نے ہندوتوا کی بنیاد مذہب پر رکھنی چاہی لیکن ساورکر مذہب بیزار اور ملحد تھا اس نے ہندوتوا کی بیناد وطنیت پر رکھی۔ گولوالکر اور سنگھ ساورکر کی اصطلاح سے تو متفق تھے لیکن وہ ساورکر کے ہندوتوا کے تصور کے سخت ناقد تھے۔ آج بھی ہندوتوا کے مختلف اسکالرز اس کے مختلف ورژن بیان کرتے رہتے ہیں۔ سنگھ ہندوتوا کے ان تضادات اور کھوکھلے پن کو بہت چالاکی سے مسلم دشمنی کے پیچھے چھپا لیتا ہے۔ ہندوتوا کے نظریہ میں ہندووں کے لیے بہت زیادہ کشش نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کے لیے کوئی بڑی قربانیاں دینے تیار ہیں۔ اگر ۲۰۱۴ میں بے جے پی کو اقتدار نصیب نہیں ہوتا تو ہندوتوا کا نظریہ بھی سیکولرزم اور لیفٹ کی طرح اپنے بچاو کی تدبیریں ڈھونڈ رہا ہوتا۔ اس کمزور اور بودے نظریے کے لیے مسلم دشمنی کی بیساکھی کی ضرورت ہے اس لیے اس کی بنیاد اب کسی مثبت ایجنڈے پر نہیں بلکہ قومی تعصب کی بنیاد پر ہے۔
سنگھ کی سیاسی ونگ بی جے پی نے دین دھیال اپادھیائے کے فلسفے Integral humanism کی بنیاد پر الیکشن میں ناکامی کے اپنے سیاسی ایجنڈے کو مسلم مخالف ایشوز جیسے بابری مسجد، مسلمانوں کی آبادی، مسلمانوں کی تاریخ، جبراً تبدیلی مذہب، گائے کا تحفظ (بیف پر پابندی) پاکستان، وندے ماترم وغیرہ۔ ان تمام ایشوز کا استعمال کر کے بی جے پی اور سنگھ نے ایک سیاسی ہندو تیار کیا۔ یہ سیاسی ہندو اسے ایک مضبوط ووٹ بینک فراہم کرتا ہے۔ اسی سیاسی ہندو کا مذہبی استحصال فی الواقت رام کے نام پر جاری ہے۔ ۔بی جے پی اپنے اس سیاسی ووٹ بینک کو مستقل اس طرح کے جذباتی ایشوز دے کر زندہ رکھتی ہے۔ ۲۰۱۴ اور بالخصوص ۲۰۱۹ میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے ان ہی مسلم مخالف ایشوز کا استعمال کیا گیا۔ ہندوستان کی انتخابی سیاست نے یہ بات ثابت کر دی کہ بی جے پی کو جتنا انتخابی فائدہ نفرت کی سیاست سے ہوا اتنا فائدہ کسی اور ایشو سے نہیں ہوا بلکہ بی جے پی کی انتخابی کامیابیاں مسلم مخالف ایشوز ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ اس لیے مسلم مخالف ایشوز کا استعمال بی جے پی کی صرف نظریاتی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی مجبوری بھی ہے۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان چاہے خود کو کتنا ہی بدل لے۔ چاہے اپنے ہندووں کے ناموں پر رکھ لے، داڑھی ٹوپی، پہننا چھوڑ دے، اپنی کھانے پینے کی عادتوں کو بدل دے، اپنی تہذیب سے دستبراد ہو جائے، جتنی چاہے مساجد کی قربانیاں دے اور کتنا ہی چندہ رام مندر تحریک میں دے لیکن وہ ہندوتوا وادیوں کے لیے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔

مسلمان چاہے خود کو کتنا ہی بدل لے۔ چاہے اپنے ہندووں کے ناموں پر رکھ لے، داڑھی ٹوپی، پہننا چھوڑ دے، اپنی کھانے پینے کی عادتوں کو بدل دے، اپنی تہذیب سے دستبراد ہو جائے، جتنی چاہے مساجد کی قربانیاں دے اور کتنا ہی چندہ رام مندر تحریک میں دے لیکن وہ ہندوتوا وادیوں کے لیے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021