دھرم پال کی کتاب ’’نخل اسلام‘‘کا جواب’’تبر اسلام‘‘

تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات (قسط11)

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی، علیگڑھ

 

ہندوستان جیسے تعدد پسند اور مشترکہ سماج میں کئی ایسی تحریکیں وجود میں آئیں جو نظریاتی اور فکری اعتبار سے تشدد و تنگ نظری کی آئینہ دار تھیں۔ ان میں سے ایک تحریک شدھی تحریک تھی چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذیل میں اس نظریاتی تحریک کا مختصر تعارف پیش کیا جائے تاکہ مدعا پورا سمجھ میں آ جائے۔ ویکی پیڈیا میں شدھی کا درج ذیل معنی و مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
’’شدھی سے مراد جن لوگوں کے باپ دادا مسلمان ہو گئے تھے انہیں دوبارہ شدھی یعنی پاک کر کے ہندو بنایا جائے‘‘شدھی تحریک کا بنیادی مقصد چھوت چھات کی رسم کو ختم کرنا، غیر ہندوؤں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو ویدک دھرم قبول کرنے کی دعوت دینا اور ہندوؤں میں خودی اور خود اعتمادی کی روح پھونکنا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوؤں کا اسلام اور مسیحیت کی طرف مائل ہونا اور پھر قبول کرنا ایک عام رجحان بن گیا تھا، اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے شدھی تحریک نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پھر سوامی شردھانند نے 1923ء میں بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا
( Indian Hindu Purification Council )کی بنیاد ڈالی۔ اس کا بنیادی ایجنڈا ان لوگوں کو جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اپنے آبائی مذہب یعنی ہندوازم کی طرف واپس لانا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے موروثی مذہب سے بھٹکے ہوئے ہندو ہیں۔ لہٰذا ان کو کسی بھی قیمت پر اپنے موروثی مذہب کو قبول کروانا ہے۔ 1928ء میں مذکورہ تحریک کے بانی شردھانند نے کھلے طور پر اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر ہتک آمیز اور بے جا اعتراضات والزامات چسپاں کیے، اس کے علاوہ اسلام کے عالم گیر پیغام اور احکامات کو تشدد کو بڑھاوا دینے کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا اور اسلام کو امنِ عالم کے لیے خطرہ بتایا۔
یہ تحریک متعصب ہندو سوامی دیانندا سرسوتی اور اس کے شاگرد سوامی شردھانند کی جانب سے 1920ء میں شروع کی گئی تھی۔ اس تحریک کے تحت غیر ہندو بالخصوص مسلمانوں کو جبری طور پر اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندو مت میں داخل کرنا تھا۔ انڈیا میں شدھی تحریک کے بانی سوامی شردھانند کو ایک ہیرو کی حیثیت دی جاتی ہے۔ اسی تحریک سے متاثر ہو کر ایک عبد الغفور نامی شخص مرتد ہوگیا اور اس نے اسلام کی مخالفت میں ایک کتاب ’’نخل اسلام‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ اس کا جواب مولانا ابوالوفا ثناءاللہ امرتسری نے دیا اور اس کے جواب میں ’’تبر اسلام بجواب نخل اسلام‘‘ تحریر کی۔ کتاب پر حرفِ تقدیم رفیق احمد سلفی نے ثبت کیے ہیں۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت 1909 میں ہوئی ہے لیکن کتاب پر کہیں بھی ناشر کا نام درج نہیں ہے۔ اس کی دوسری اشاعت تقریباً ایک صدی بعد یعنی 2004 میں ہوئی ہے کیونکہ رفیق احمد سلفی نے اپنے اہم کلمات تقدیم کے ذیل میں 18/ اپریل 2004 کو درج کیے ہیں۔ بار دوم کو الکتاب انٹرنیشنل جامعہ نگر نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ کتاب 65 صفحات پر مشتمل ہے۔
سبب تالیف
مولانا ثناء اللہ امرتسری نے آریہ سماجیوں کے تقریباً تمام اشکالات کا جواب دیا ہے۔ جب مرتد دھرم پال (عبد الغفور) نے’’ نخل اسلام‘‘ لکھ کر اسلام پر نہایت اوچھے اور رکیک حملے کیے تو اس کا جواب فاضل موصوف نے ’’تبر اسلام بجواب نخل اسلام‘‘ کی شکل میں دیا۔ اس کے کلمات تقدیم میں رفیق احمد سلفی نے جو لکھا ہے اس کا لب لباب ذیل میں نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب دھرم پال کی کتاب ’’نخل اسلام“ کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ یہ شخص گجرانوالہ کا ایک مسلمان تھا جس کا نام عبد الغفور تھا۔ 1903 میں پنڈت دیانند کی تحریروں اور آریہ سماج کی شدھی تحریک سے متاثر ہوکر اسلام سے پھر گیا اور آریہ سماج میں داخل ہوگیا اور عبد الغفور سے دھرم پال بن گیا جس پر آریہ سماجیوں نے بڑی خوشی منائی اور جگہ جگہ جشن منایا گیا۔ اس موقع پر آریہ سماج مندر گجرانوالہ میں دھرم پال کے ایک لیکچر کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں اس نے اپنے تبدیلی مذہب کے وجوہات بیان کرتے ہوئے قرآن مجید پر ایک سو پندرہ اعتراضات کیے جسے مرتب کرکے آریہ سماجیوں نے ’’ترک اسلام‘‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ جب یہ دل آزار کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی تو مسلم کمیونٹی بے چین ہو اٹھی اور ہر طرف سے اس کے جواب کا مطالبہ ہونے لگا تو سب سے پہلے مولانا ثناءاللہ امرتسری سامنے آئے اور انہوں نے اس کے ہفوات کا جواب دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’ترک اسلام‘‘ نامی کتاب کے جملہ اعتراضات کا دندان شکن جواب انہی کے مذہبی ادب و منابعات سے دیا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ دھرم پال نے ان جوابات پر اپنے تاثرات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔ ’’جب میں ’’ترک اسلام‘‘ کی ترک تازی دیکھتا ہوں تو مجھ میں جنگی اسپرٹ جوش نہیں مارتی بلکہ اس کا مصنف میرے سامنے ایک دل ربا کی شکل میں آجاتا ہے جس کا ہر ایک حملہ، ہر ایک چوٹ اور ہر ایک ادا سپاہی کے حملہ سے زیادہ کاٹ کرتی اور اس کاٹ سے درد کی بجائے لذت اور نفرت کی بجائے محبت میں اضافہ ہوتا ہے‘‘ تاہم، اس کے بعد بھی دھرم پال نے مولانا ثناءاللہ امرتسری کی کتاب کا جواب دینے کا عزم کیا اور اس نے پھر چار ہزار صفحات پر مشتمل چار جلدوں پر محیط ایک مسودہ ’’تہذیب الاسلام‘‘ کے نام سے تیار کیا۔ اس کا جواب بھی فاضل مصنف نے ’’تغلیب الاسلام‘‘ کے نام سے دیا۔ یہ کتاب مصنف ممدوح کی چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1906 میں مطبع اہل حدیث امرتسر نے شائع کیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ جب وہ ’’تغلیب الاسلام‘‘ کے جواب کی سکت وقوت پیدا نہ کرسکا پھر اس نے ایک اور کتاب ’’نخل اسلام‘‘ کے نام سے لکھی۔ اس کتاب کے اندر اس نے اسلام، شاہان اسلام اور محمدﷺ پر انتہائی رکیک اور سطحی اعتراضات کیے۔ اس نخل اسلام کا جواب مولانا امرتسری نے ’’تبر اسلام‘‘ کے نام سے دیا۔
دھرم پال کے اعتراضات
مولانا ابوالوفا ثناءاللہ امرتسری نے کتاب کے مقدمے میں تحریر کیا ہے کہ دھرم پال نے اسلام اور اہلِ اسلام پر دو طرح سے حملہ کیے ہیں گویا کتاب کے دو حصے ہیں جن میں کل گیارہ فصلیں ہیں۔ پہلی چار فصلوں میں ہندوستان کے شاہان اسلام کی برائیاں درج کی ہیں۔ چھ سات فصلوں میں اسلام کی عیب جوئی کی ہے۔ جو اعتراضات اس نے اسلام پر کیے ہیں ان کے عناوین درج ذیل ہیں۔
1۔ محمد (ﷺ) اور محمد (ﷺ) کی تعلیم
2۔ محمد (ﷺ) کی بے قراری اور مستورات ہند کی آہ وزاری (نعوذُ باللہ)
3۔ محمد (ﷺ) کی جلد بازی اور شاہانِ اسلام کی خرابی
4۔ محمد (ﷺ) کا دل اور محمدیوں کا دماغ
5۔ محمد (ﷺ) کی اسپرٹ اور کافروں کی گردنیں
6۔ محمد (ﷺ) کی ناشکری اور یہود ونصاریٰ سے بیزاری
7۔ محمد (ﷺ) کا اعلان اور تمام غیرمسلموں کی بیخ کنی
8۔ محمد (ﷺ) کے سپاہی اور محمد (ﷺ) کا بہشت (نعوذ باللہ)
یہ ہیں وہ لچَّر اور بے بنیاد اعتراضات جو دھرم پال نے اپنی کتاب ’’نخل اسلام‘‘ میں کیے ہیں۔ مولانا ثناءاللہ امرتسری نے لکھا ہے ’’ناظرین ان عنوانوں سے ہی سمجھ سکتے ہیں کہ مرتد مذکور کیسا بد زبان اور دل آزار شخص ہے۔ رسالت مآب حضرت محمد ﷺ جن کے جاں نثار پوری دنیا میں موجود ہیں، وہ ایک زندہ قوم کے ہر اعتبار سے پیشوا ہیں جن کا ادب کرنے کو دنیا کا ایک بہت بڑا گروہ اپنی نجات کا ذریعہ تصور کرتا ہے اور ان کی بے ادبی کو حرماں نصیبی سمجھتا ہے۔ سرور کائنات کا نام مفرد کے صیغے سے لکھا ہے جیسے کہ کسی ادنیٰ آدمی کا نام لیا جاتا پے۔‘‘
یقیناً جس طرح بے حرمتی اور بد تہذیبی کا اس نے اپنی اس کتاب میں نمونہ پیش کیا ہے وہ کسی بھی مہذب اور با اخلاق قوم کا وطیرہ نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے مولانا موصوف نے الکتاب کے مقدمے میں آریوں کی دریدہ دہنی کا پردہ فاش خود انہی کے ایک پرچے اور گزٹ سے کیا ہے۔ چنانچہ مولانا ’سناتن دھرم گزٹ لاہور‘ 1908 کے حوالے سے رقم طراز ہیں ’’اس موقع پر ہم کو ہندوؤں کے ایک پرانے با خبر ایڈیٹر کی تصدیق کرنی پڑتی ہے جو کہتا کہ جتنے بد معاش ہیں وہ سب آریہ سماج کی پناہ میں آنے کو تیار ہیں۔ آریہ سماج میں نام لکھا کر دوسروں کو برا کہنے کو تیار ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں کسی بھی مذہب کی حقارت و توہین کرنے کی خاص ممانعت اسلام کے بنیادی مصدر قرآن میں وارد ہوئی ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ قرآن میں تو یہاں تک مذکور ہے کہ کسی بھی دھرم کے پیشوا و مقتدیٰ کو بھی سب وشتم یا نازیبا اور غیر مناسب الفاظ سے مت پکارو۔ کیونکہ اس سے باہم اقوام میں عدم برداشت و تحمل اور بے اعتدالی و بد گمانی کی راہ ہموار ہوگی جو یقیناً پُرامن سماج و معاشرے میں بد امنی اور بد عنوانی کا ذریعہ بنے گی۔ اس لیے آج سماج میں مجادلہ کی نہیں بلکہ تفاہم ومکالمہ کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ مشترکہ سماج میں ان نکات و اقدار کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جن سے دو متضاد افکار کے حاملین باہم مربوط ہو سکیں اور اپنی رسم و رواج اور افکار و نظریات کے مطابق زندگی استوار کر سکیں۔
دھرم پال کے جو اعتراضات تھے ان کو پڑھنے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس نے یہ اشکالات لاعلمی میں نہیں کیے بلکہ وہ عناد و تعصب کی بناء پر اعتراضات کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی کتاب ’نخل اسلام‘ کی چھٹی فصل صفحہ 87پر پردہ کے متعلق انتہائی دل آزار اعتراض کیا ہے۔ ’’محمد کی حرکت کروڑہا بندگان خدا کی آزادی کو چھیننے کا موجب ثابت ہوئی۔ ہم اس پر کوئی لمبی بحث نہیں کرنا چاہتے صرف اتنا ہی بتا دینا چاہتے ہیں کہ دنیا میں اس زہریلے پردے کا موجد محمد ہے‘‘ (نعوذ باللہ)
اندازہ کیجیے کس قدر تنگ نظری کا ثبوت ہے۔ اس کا جواب مولانا امرتسری نے انتہائی عالمانہ اور دانشمندانہ دیا ہے۔ ’’گو بعض اشعارِ عرب سے قبل از اسلام بھی پردہ کا ثبوت ہو سکتا ہے لیکن ہم بطور فخر کہہ سکتے ہیں کہ بے شک اسلام ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ چونکہ بانی فطرت کی طرف سے ہے اس لیےانسانی فطرت کا اس میں لحاظ کر کے پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مرد و عورت میں فعل انفعال کی زبردست کشش ہے کہ کسی کے مٹانے سے مٹ نہیں سکتی‘‘ اس کے آگے لکھتے ہیں کہ اس موقع پر مجھے سوامی دیانند آریہ سماج کا قول یادآ تا ہے کہ ’’ایشور کے سلسلہ کائنات کے مطابق عورت و مرد کا فطری عمل رک نہیں سکتا نیز، یہ بھی کہا کہ عورتوں کے مارے دل قائم نہیں رہ سکتا‘‘ انہی وجوہات کی بنیاد پر اسلام نے پردے کا حکم دیا ہے تاکہ چار چشم ہونے کی وجہ سے کسی کی عزت و وقعت پر کوئی حملہ آور نہ ہو سکے۔ راقم الحروف نے مضمون کی طوالت کے باعث دھرم پال کے مذکورہ اعتراض کے جواب کو پورا نقل نہیں کیا ہے البتہ فاضل مصنف نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ اس کا جواب دیا ہے۔ جو یقیناً آج کے مغرب زدہ معاشرے کو مسکت و لاجواب کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسرا عتراض
دھرم پال نے اپنی کتاب ’نخل اسلام‘ میں ایک اعتراض یہ کیا کہ ’’محمد (ﷺ) کی زندگی میں عجیب انقلابات پائے جاتے ہیں جن کا ثبوت دیگر کتب سے ملتا ہے۔ لیکن خود قرآن بھی اس پر شاہد ہے محمد (ﷺ) نے جب پہلے پہل رسالت کا دعویٰ کیا تو اس وقت وہ بالکل مسکین اور عاجز تھا۔ اکثر اہل مکہ سے ڈرتا اور رواداری (tolaretion) سے کام لیتا تھا۔ چنانچہ اس ابتدائی زمانہ میں جبکہ وہ مکہ میں تھا، اس پر جس قدر الہامات نازل ہوئے ہیں ان میں بہت غضب کی رواداری پائی جاتی تھی چونکہ اس وقت اہل مکہ کے بڑے بڑے سردار اور خود محمد (ﷺ) کے رشتہ دار مثلاً ابو جہل، عاص، ولید، امیہ، اسود بن عبد یغوث، اسود بن عبد المطلب عباس اور ابو سفیان محمد (ﷺ) کے دشمن تھے اس لیے محمد (ﷺ) کو ان کے خلاف کسی قسم کی جرات کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ وہ خود بت پرست نہیں تھا لیکن بت پرستی کی چنداں مذمت بھی نہیں کرتا تھا‘‘ ان مذموم الفاظ کے علاوہ بھی اس نے بہت کچھ کہا ہے جو یقیناً نامناسب اور ایک طرح کی زہر افشانی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دھرم پال نے اسلام کے نظریہ جہاد کو نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح کے اور بھی کئی اعتراض کیے ہیں جن کا مدلل جواب دینا لازمی تھا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے آریہ سماجیوں کے طرف سے اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب انہی کے مذہبی ادب کی روشنی میں دیا ہے۔ اس کے بعد اپنے مذہب و دین کی تعلیمات کے تناظر میں دھرم پال یا اس جیسے معترضین کے شکوک وشبہات کا ازالہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے مولانا لکھتے ہیں کہ ان کے دھرم شاشتروں میں مذکور ہے۔ ویدک دھرم کے دو لیڈر منوجی اور سوامی جی دونوں یک زبان ہو کر راجہ کو ہدایت کرتے ہیں ’’جب یہ معلوم ہو جائے کہ فوراً لڑائی کرنے سے کسی قدر تکلیف پہنچے گی اور بعد میں کرنے سے اپنی بہتری اور فتح ضرور ہو گی تب دشمن سے میل کر کے وقت مناسب تک صبر کرے‘‘
دھرم پال کا قبول اسلام
آخر میں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی مدلل و تشفی بخش تحریروں اور ان کے حسن اخلاق نے دھرم پال کو اس درجہ متاثر کیا کہ اس نے ’ترک اسلام‘ سے لے کر ’نخل اسلام‘ تک جتنی بھی کتابیں لکھی تھیں سب کو نذر آتش کر دیا اور ماہنامہ ’المسلم‘ جولائی 1914 کے شمارہ میں اپنا تاریخی اقبال نامہ شائع کر کے پھر سے اسلام کے سایہ عاطفت میں آگیا اور دھرم پال سے غازی محمود نام رکھ لیا۔ جو اقبال نامہ شائع ہوا اس کے الفاظ کو رفیق احمد سلفی نے نقل کیا ہے۔ ’’14جون 1903 کو میرے بارے میں جس قسم کی نمائش اور جس قسم کے جلسے یا رسوم رچائی گئیں، اسلام میں داخل ہونے کے لیے مجھے ہرگز اس قسم کی نمائش جلسے یا رسم ورسوم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ 4 جون 1903 سے پورے گیارہ سال بعد یعنی 13 جون 1914 کو بغیر کسی شخص کی موجودگی کے تن تنہا اپنے خداوند قدوس کے حضور صدق دل سے دو زانو ہو کر میں نے جو اقبال کیا تھا اس اقبال کا میں یہاں پر اعلان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ اقبال یہ ہے:
’’اشهد ان لا إله إلا الله و اشهد ان محمداً عبده و رسوله‘‘
اس کتاب کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے برادران وطن کے مابین اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں رچی بسی غلط فہمیوں کو رفع کریں۔ جب تک ہم دعوت و تبلیغ کی حقیقی روح کے علم بردار نہیں بنیں گے اس وقت تک یقیناً اسلام اور مسلمانوں کو یوں ہی نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی اس کتاب سے جہاں یہ حقیقت واشگاف ہو گئی کہ دھرم پال نے کس قدر سخت اعتراضات کیے مگر اسی طرح سنجیدگی اور علم و تحقیق سے مملو جوابات نے اس کے دل میں جگہ بنائی اور وہ دوبارہ راہ راست پر آگیا۔ آج ہمیں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ جو ورثہ ہمیں ملا ہے ہم اس کو اب تک کہاں تک پہنچا چکے ہیں کیونکہ آج بھی ہندوستان کی سرزمین پر نہ جانے کتنی جگہیں ایسی ہیں جہاں صرف برائے نام مسلم ہیں یا وہ اس سماج میں رہ رہے ہیں جہاں اکثریت برادران وطن کی ہے تو وہ بھی دین اسلام سے نہ صرف بیزار ہو چکے ہیں بلکہ ارتداد کی راہ پر بھی گامزن ہیں۔ اس لیے اس کائنات کا ہر فرد بہت قیمتی ہے اس کو توحید و رسالت جیسے اہم امر سے واقف کرانا ضروری ہے۔ ایمان کی حفاظت کرنا اور اس کے لیے اقدامات کرنا ہمارا دینی فرض بھی ہے اور آئینی حق بھی۔

اس کائنات کا ہر فرد بہت قیمتی ہے اس کو توحید و رسالت جیسے اہم امر سے واقف کرانا ضروری ہے۔ ایمان کی حفاظت کرنا اور اس کے لیے اقدامات کرنا ہمارا دینی فرض بھی ہے اور آئینی حق بھی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020