دکن اداس ہے

ڈاکٹر جہانگیر احساس، حیدرآباد

(معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تعلق دکن سے تھا ان کے انتقال پرڈاکٹر جہانگیر احساس نے اس انشایہ میں سر زمین دکن کے احساسات کی ترجمانی کی ہے۔)
۲۷؍ مئی کی صبح لاک ڈاؤن کے باوجود زندگی معمول کے مطابق حرکت میں تھی لیکن اچانک ۱۰ بجے ایک اندوہناک خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں دل تھام کے رہ گیا۔ میری نگاہوں کے سامنے مجتبیٰ حسین کے بچپن سے لے کر عنفوان شباب پھر شہر گل وبرگ سے اس کا میرے تاج حیدرآباد اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے بھائی کے ہاں منتقل ہونا، عثمانیہ یونیورسٹی کے وہ خوش رنگ مناظر، یار دوستوں کے ساتھ مجتبیٰ حسین کی دل پھینک باتیں، لطائف، پھر شام ہوتے ہوتے اس کا اورینٹ ہوٹل میں آنا۔ یہ ایسی یادیں ہیں جو مجھے ہر وقت کچوکے لگاتی رہیں گی۔ مجتبیٰ حسین کو دیکھ کر مجھے اکثر یہ خیال آتا کہ یہ کس طرح مزاج نگار بن گیا اس کے چہرے مہرے سے تو وہ ہر گز ایسا دکھائی نہیں دیتا بلکہ ہر وقت سوچ وفکر میں ڈوبا ہوا متفکر چہرہ، اس پر ہمیشہ چشمہ کا پہرا، زندگی کےشب وروز یوں ہی گزرتے رہے۔ یونیورسٹی سے اخبار کے دفتر پھر اس کے بعد وہی یار دوستوں کی محفلیں۔۔۔!! یوں بھی ہوٹل اور اردو کا آپس میں بہت گہرا رشتہ رہا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار مجتبیٰ حسین نے کہا تھا کہ ہم نے گریجویشن کے بعد آگے کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی نہیں بلکہ ’’اورینٹ ہوٹل میں داخلہ لیا تھا۔ اس کے لب ولہجے کی تہوں میں ایک درد مند دل کی کئی صدائیں اور ہمدردیاں ہوا کرتی تھیں وہ بھلے زمانہ کو ہنسانے کا ہنر جانتا تھا مگر اندر سے اتنا غمگین تھا کہ جہاں کہیں کوئی نا انصافی‘ ظلم وزیادتی یا مذہب کے نام پر تفریق کے واقعات رونما ہوتے اس کا وجود چیخ اٹھتا۔وہ اپنے قلم سے انسانیت کے لیے ایک پیغام کی صورت میں قرطاس پر بکھیرتا جس سے دنیا جہاں کے مسائل میں الجھے ہوئے قاری کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی۔ ایسا ہنر صرف وہی جان سکتا ہے جس نے زمانہ کے سرد وگرم حالات کو اپنے فکری زوایے سے جانچا ‘ پرکھا ہو۔ اپنے سفر ناموں اور خاکوں کے ذریعے مجتبیٰ حسین نے بڑی سے بڑی شخصیت چاہے وہ نوکر شاہی ہو یا دانشور، صحافی ہو یا پروفیسر غرض ۔۔! زندگی سے جڑے تمام کرداروں کو اس نے اپنی تخلیق کا موضوع بنایا۔ یہاں تک کہ اپنی قبیل کے مزاح نگاروں کو بھی نہیں بخشا۔ طنز کا انداز اتنا کاٹ دار کے بغیر تکلیف دیے معاشرے کی اصلاح ہو جائے اور مزاح کا ایسا اسلوب جو پڑھے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائے۔ اب ’’کنہیا لال کپور، پر لکھے اس خاکہ کو ہی دیکھیے کہ کس طرح کنہیا لال کی شخصیت اور ان کے حلیہ کو اپنے خاکہ کا موضوع بنایا اور اس کے ذریعے ہندوستان کے عام انسانوں کے مسائل کو منظر عام پر لایا کہ ایک سچا وطن پرست یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ کیا واقعی ہمارے ساتھ اس طرح کا بھونڈا مذاق کیا جا رہا ہے۔ اس پر اپنے طنز آمیز جملوں کے ذریعہ عوام کو بیدار کرتا۔
مجتبیٰ حسین میں، مَیں نے ایک ایسے دکنی کو دیکھا جو ہمیشہ دوسروں کے لیے جیا کرتے ہیں۔ مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۴۸ میں میرے دامن کو تار تار کرنے کے بعد میرے اپنے کئی برسوں تک ہنسی کو ترس گئے تھے۔ یہ وہی فرد ہے جس نے اپنے جیسے زندہ دل نوجوانوں کو لے کر ایک تنظیم بہ نام زندہ دلان حیدرآباد کی شروعات کی۔ اس کے ذریعہ مجتبیٰ حسین نے سیکڑوں متاثرین پولیس ایکشن کے چہروں کو ہنسی جیسی انمول دولت سے سرفراز کیا۔ اردو اور مسلمانوں پر مابعد آزادی کس طرح کے مظالم ڈھائے گئے اس سے ایک دنیا واقف ہے چند سال قبل کچھ دینی پس منظر رکھنے والے نوجوان دہلی ایئرپورٹ پر اپنے کسی عزیز کو ریسیو کرنے گئے تھے گفتگو کے دوران کسی زبان سے لفظ ’’مسائل‘‘ ادا ہونا تھا کہ سیکوریٹی عملہ پوری مستعدی کے ساتھ حرکت میں آگیا اور انہیں اپنی حراست میں لے کر دریافت کرنے لگا کہ بتاؤ تم لوگ میزائیل کہاں کہاں پر گرانے کا منصوبہ بنائے ہو اس پر وہ حیرت واستعجاب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پولیس وسیکوریٹی والوں کو لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ قائل کرنے میں ناکام ہوگئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ان نوجوانوں میں سے ایک نوجوان کے چچا اثر ورسوخ رکھنے والے سیاست داں تھے ان کے فون پر ان کی رہائی عمل میں آئی۔ جب ان رہا شدہ نوجوانوں نے غور کیا کہ آخر ہم سے ایسی کیا خطا ہوئی کہ ہمیں اس طرح کی سزا ملی۔ ان میں سے ایک نوجوان کو اس کی وجہ سمجھ میں آئی اس نے کہا کہ ہم نے ایک جملہ جو ایئرپورٹ کے مسائل پر ادا کیا تھا شاید اسی لفظ مسائل کو انہوں نے میزائیل سمجھ لیا جب یہ واقعہ میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آیا تو مجتبیٰ حسین نے اس واقعہ کو موضوع بناکر ایک کالم لکھ ڈالا۔ اس کے ذریعہ مجتبیٰ حسین نے ہندوستان کے موجودہ سسٹم پر کھل کر تنقید کی اور بتایا کہ کس طرح محض مذہب کے نام پر لوگوں کو یہاں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ مشہور صحافی خشونت سنگھ سے کون واقف نہیں ۱۹۸۴ کے سکھ فسادات کے فوراً بعد مجتبیٰ حسین نے جب ان کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ۔۔۔ یار مجتبیٰ ۔۔۔! تم مسلمان واقعی اس ملک میں ستم رسیدہ ہو۔ تمہارے صبر کی داد دینی چاہیے۔

ہمیں دیکھو کل تک ہمیں اکثریتی طبقہ کا ایک ذیل گروہ سمجھا جاتا تھا جوں ہی ہمیں علیحدہ مذہبی شناخت کی بنا پر اقلیتی درجہ ملا اس کے چند دنوں کے اندر اندر، اندرا گاندھی کے قتل کو بنیاد بنا کر ہمیں جس طرح نشانہ بنایا گیا اس پر پہلی بار احساس ہوا کہ ہندوستان میں اقلیتی طبقہ سے وابستہ رہ کر جینا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ مذکورہ واقعہ کو مجتبیٰ حسین نے خشونت سنگھ پر لکھے خاکہ میں بیان کیا ہے جس سے اس کی انسانیت دوستی جھلکتی ہے۔
طالب علمی کے زمانے سے مجتبیٰ حسین ترقی پسند نظریات سے متاثر رہا بلکہ عمر کے آخری ایام تک ان نظریات سے اس کی وابستگی قابل دید تھی کیوں کہ انسان کا کسی ایک نظریہ کے تحت پوری زندگی گزارنا اپنے آپ میں کسی چیلنج سے کم نہیں مگر اس نے اپنے کمٹمنٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
مخدوم محی الدین، مجتبیٰ حسین کے پسندیدہ شاعر تھے وہ اکثر مخدوم کے ایک شعر سے
ہم نے ہنس ہنس کzے تری بزم میں اے پیکر ناز
کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم۔۔۔!!
کو کئی بار اپنے خاکوں اور انشائیوں میں کوٹ کیا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی اس سے آٹو گراف مانگتا تو وہ اس شعر کے ساتھ آٹو گراف دیتا۔ ایک عقیدت تھی جو آخری سانس تک قائم رہی۔۔۔!!
مجتبیٰ حسین کو جو چیز دوسروں سے ممتاز بناتی تھی وہ اس کا ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آنا تھا۔ میرے ہی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان صحافی نے مجھے بتایا کہ جب وہ روزنامہ سیاست میں جاب کے لیے گیا تو اچانک اسے مجتبیٰ حسین نظر آیا اور وہ نوجوان فوراً ان سے ملاقات کے لیے آگے بڑھا سلام کیا تو مجتبیٰ حسین نے فوراً نہ صرف جواب دیا بلکہ اس نوجوان کی خیریت دریافت کی جیسے اس کی برسوں کی شناسائی ہو اور ساتھ ہی ادارہ سیاست آنے کا سبب پوچھا تو نوجوان نے بتایا کہ وہ شعبہ ادارت میں جاب کے لیے آیا ہے تو دعاؤں سے نوازا اور کامیاب مستقبل کی تمناؤں کا اظہار کیا۔
آپ اندازہ لگائیے کہ ایک بڑا فن کار آج کے اس مادہ پرست دور میں جب اس طرح کی اپنائیت کا اظہار کرے تو پھر کیوں نہ لوگ اس کے شیدائی و دیوانہ ہوں گے۔ ایک اور ریسرچ اسکالر نے بتایا کہ جب وہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں ایم فل کا طالب علم تھا تو اسی اثنا مجتبیٰ حسین کا شعبہ اردو میں بہ طور وزیٹنگ پروفیسر انتخاب عمل میں آیا تھا۔ مختلف موضوعات مثلاً سجاد ظہیر، راجندر سنگھ بیدی سحر و دیگر پر لکچر سیریز تھی۔ ایک دن لکچر کے فوراً بعد اس نے مجتبیٰ حسین سے اس کے حقیق جائے پیدائش کے بارے میں دریافت کیا تو جواب دینے کے بجائے کہنے لگا جناب لگتا ہے آپ کس ادارے سے وابستہ ہیں اس پر اسکالر نے جواب دیا کہ وہ ’’آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد‘‘ سے بہ حیثیت کیژول اناؤنسر اردو، وابستہ ہے تو کہنے لگا تبھی تو آپ کے سوال کرنے کا انداز بھی اناؤنسمنٹ کی طرح ہے۔ اس جواب کے بعد وہ اسکالر مجتبیٰ کے فن کا قدر دان تو تھا ہی اس کی شخیصت کا معترف ہوگیا۔
۲۷ مئی سے اب تک میں بہت مغموم ہوں۔ ایسا نہیں کہ میں نے اس طرح کے سانحہ کو پہلی بار جھیلا ہے اس سے قبل شاذ، جامی، مخدوم، زور، امجد، صفی، سراج، ولی و قلی کے انتقال پر بھی میری یہی حالت ہوئی تھی۔
ہر علاقے میں یوں تو کئی شعراء وادباء ہوا کرتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں صرف چند فن کار ہی ایسے ہوتے ہیں جو اس کے بجا طور پر نمائندے ہوتے ہیں۔ موجودہ عہد میں اگر میں مجتبیٰ حسین کو ’’دکن یعنی میرا نمائندہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ نمائندگی ہر کس وناکس کے حصہ میں نہیں آتی اس کے لیے متعلقہ علاقہ سے اس کی جذباتی وابستگی کے ساتھ اس علاقہ سے منسلک ہر شئے سے اسے بے پناہ محبت ہونی چاہیے۔ یہ تمام باتیں مجتبیٰ حسین میں بہ درجہ اتم موجود تھیں۔ وہ دراصل میری اس تابندہ روایات کا تسلسل تھا جنہوں نے ہر حال میں میری عظمت اور وقار کو برقرار رکھا۔ اس کی جتنی بھی تخلیقات کا آپ جائزہ لیں اس میں کہیں بھی منتشر خیالات یا دقیانوسی مضامین پڑھنے کو نہیں ملیں گے بلکہ زندگی سے ہم آہنگ اور اس سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دکھائی دے گا۔
خاکے ہوں یا سفر نامے، انشائیے ہوں یا کالم مجتبیٰ حسین نے زندگی سے بھر پور مزاجوں کو اپنی تخلیقات کا سرنامہ کلام بنایا۔ قنوطیت اس کے یہاں نام کو نہیں اب آپ ہی بتائیے کہ ایک ایسا شخص آج کے اس پر آشوب دور میں زندگی کے مصائب ومشکلات سے بے حال اپنے قاری کو ہنسی جیسی قیمتی شئے سے نوازا ہو وہ کتنا عظیم ہوگا۔ شائستگی ومتانت کے ساتھ مزاح نگاری کوئی عام بات نہیں۔ ذرا سی لغزش مزاح کو پھکڑ پن میں تبدیل کر دیتی ہے۔
مجتبیٰ حسین نے مزاح نگاری کے لیے جس اسلوب نگارش کو اختیار کیا وہ اس کے زندگی کے تئیں اعتماد و یقین کا مظہر تھا۔
میرے یہاں ویسے تو ازل سے ہی کئی مزاح نگار گزرے ہیں اور ابھی کئی باحیات ہیں مگر جو بات مجتبیٰ حسین میں تھی اس کا نعم البدل مشکل نظر آتا ہے۔
مجتبیٰ حسین دراصل میرے اس سنہرے دور کا پروردہ تھا جو انسان کو انسان سمجھ کر اس کے دکھ سکھ اور زندگی کے دیگر مسائل کو اپنے ذاتی مسائل تصور کرنے کا درس دیا کرتا تھا۔ آج ایسے فن کار کہاں ملیں گے جنہوں نے بنی نوع انسان کے مسائل ومصائب کو پوری شدت کے ساتھ اپنی زندگی کا لازمہ بنایا ہو۔ اور اسی کو موضوع بنا کر وقت اور حالات کا شکار ہوئے ابن آدم کو کچھ سوچنے، سمجھنے کے ساتھ زندگی جینے کا حوصلہ بخشتے ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ مجتبیٰ حسین نے جس تندہی اور جرات مندی کے ساتھ ’’گلشن طنز و مزاح‘‘ کی آبیاری کی اس سے نئے گل وبوٹے وجود میں آئیں گے جن کی مہک اور خوشبو سے گلشن طنز ومزاح پھر سے معطر ہوگا جو زمانہ کی چیرہ دستیوں اور ظلم وبربیت کو بے نقاب کرنے کے لیے طنز کے نشتر کے ساتھ مزاح کو بھی شامل موضوع رکھیں گے تاکہ عوام کی اصلاح کے ساتھ ان کے مزاج میں خوش گواری آجائے۔
خیر ۔۔۔!! مجتبیٰ حسین میں تمہیں بہ دیدہ نم وداع کرتا ہوں، تمہارے فن اور تمہاری دیرینہ ادبی، معاشرتی، اصلاحی خدمات کو سلام۔۔!!
مالک کون ومکان ضرور بہ ضرور تمہیں اس کا اجر عظیم عطا کرے گا۔ میں بھی دست بہ دعا ہوں کہ رب ذوالجلال تمہاری قبر کو نور سے بھردے اور تمہیں جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ۔۔ ثمہ آمین۔۔ !!!
***


 

مجتبیٰ حسین دراصل میرے اس سنہرے دور کا پروردہ تھا جو انسان کو انسان سمجھ کر اس کے دکھ سکھ اور زندگی کے دیگر مسائل کو اپنے ذاتی تصور کرنے کا درس دیا کرتا تھا۔ آج ایسے فن کار کہاں ملیں گے جنہوں نے بنی نوع انسان کے مسائل و مصائب کو پوری شدت کے ساتھ اپنی زندگی لازمہ بنایا ہو۔ اور اسی کو موضوع بنا کر وقت اور حالات کا شکار ہوئے ابن آدم کو کچھ سوچنے، سمجھنے کے ساتھ زندگی جینے کا حوصلہ بخشتے ہوں۔