دلت دوشیزائیں ہی زد پر کیوں؟

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

رحمت النساء، دلی

 

افسوس، بدقسمتی اور شرمناک: یہ الفاظ ہاتھرس میں ہوئے وحشیانہ تشدد کے تعلق سے ہمارے احساسات کے اظہار کے لیے کافی نہیں ہیں۔ یہ واقعہ نہ پہلی بار ہوا ہے نہ آخری بار اور نہ ہی یہ شاذ ونادر رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے کئی شرمناک واقعات پیش آتے ہیں لیکن کبھی متاثرین کو خوف زدہ کرکے خاموش کردیا جاتا ہے تو کبھی وہ اتنی ہمت نہیں کر پاتیں کہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔ ہمیں یہ ذہن نشیں کرلینا چاہیے کہ ہاتھرس واقعے کے خلاف ملک گیر احتجاج کے باوجود عصمت ریزی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق جس ملک میں ہر روز 87واقعات عصمت دری کے پیش آتے ہوں وہاں ہاتھرس کے تھرا دینے والے واقعے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک میں موجود انسانی اور نسوانی حقوق کے اداروں نے یہاں کے انصاف پسند عوام اور مظلوم خواتین کو کس قدر مایوس کیا ہے۔
ہاتھرس کی گڑیا کی عزت کو تار تار کیا گیا چنانچہ یہ واقعہ قابل مذمت تو ہے ہی لیکن اس واقعہ کے بعد رونما ہونے والے کئی واقعات نے ہمیں یہ احساس دلایا ہے کہ یہاں کے سرکاری ادارے پوری طرح بے حس ہو چکے ہیں۔ صرف اس لڑکی کی ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان کے اور اس کی حمایت میں کھڑے ہر فرد کی میڈیا اور سرکاری اداروں کے ذریعہ ’عصمت ریزی‘ کی گئی ہے۔ جو کچھ بھی ہوا وہ سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ طبی جانچ میں جان بوجھ کر تاخیر کرنا، رات کے اندھیرے میں آناً فاناً لاش کو اس کے رشتہ داروں کی مرضی کے خلاف نذر آتش کرنا، میڈیا، سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کو مقتولہ کے گھر جانے سے روکنا اور ضلع مجسٹریٹ کا خود مقتولہ کے گھر جا کر اہل خانہ کو دھمکانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مقتولہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درد و غم کی کسی کو پروا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ان کی تمام کوششیں مجرموں کی حمایت اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کی ہیں۔ کیونکہ ان کے مطابق دلت کی لڑکیاں ’ہم‘ میں سے نہیں ہیں۔ وہ لوگ حقیقت کو دنیا کے سامنے نہیں آنے دینا چاہتے اور یہ جتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ لوگ ثبوت کو مٹا دینا چاہتے ہیں تاکہ مجرموں کو بچایا جا سکے کیونکہ وہ ان کے اپنے لوگ ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ یو پی کے وزیر اعلیٰ نے ایک دفعہ اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’مسلمان خواتین کو ان کی قبروں سے نکال کر عصمت ریزی کی جانی چاہیے‘‘۔ وہ لوگ ریپ کا استعمال سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر اپنے مخالفین یا اپنے سے نچلے طبقے کے لوگوں کے لیے کرتے ہیں۔ وہ لوگ اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر اس معاملے کی جیسا کہ پہلے بھی ہوا ہے، پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسے واقعے پر مشہور و معروف شخصیات اور فیمینسٹس بھی خاموش ہیں اور ان کی خاموش بالکل عیاں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حق، انصاف اور برابری کے نعرے سب کے لیے نہیں بلکہ صرف چنندہ لوگوں اور خاص طبقوں کے لیے ہوتے ہیں۔ نربھیا عصمت ریزی معاملے میں جو لوگ احتجاج میں آگے آگے تھے آج وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں کیوں؟ اس کا ہمیں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کا حل نکالے بغیر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دوبارہ ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔ بلکہ ہمیں تشویش میں پڑنے کی ضرورت ہے کہ خاص طبقے کے بعض نوجوانوں میں یہ ایک پسندیدہ عمل بنتا جا رہا ہے بالخصوص شمالی ہند کے علاقوں میں، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہمارے ملک کا ذات پات پر مبنی نظام ہے جو لوگوں کو باور کراتا ہے کہ وہ پیدائشی طور پر ’نچلے‘ طبقے سے ہیں اس لیے وہ سماج میں مساوات کے حق دار نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ کیونکہ انہوں نے پچھلے جنم میں گناہ کیے تھے اس لیے انہیں موکش (نجات) کی خاطر ایسی زندگی برداشت کرنی ہوگی۔ یہاں تک کہ اس طبقے کے تعلیم یافتہ لوگ بھی ایسی خرافات کو حقیقت سمجھتے ہیں اس لیے اسے چیلینج کرنے کی ان کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ آئین نے ہر شہری کو برابری کا حق دیا ہے اور اگر معلوم بھی ہے تو ان میں اس کا مطالبہ کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ان کے دماغوں میں اعلیٰ ذات کی برتری اور حکمرانی کی ہوا بچپن میں ہی بھر دی گئی ہے اس کے لیے وہ لوگ انہیں مذہبی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں جن میں لکھا ہے کہ نچلی ذات کے لوگ اعلیٰ ذات کے لوگوں کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ ذات پات کے نظام نے اعلیٰ ذات کی خواتین کو بھی کئی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ اگرچہ کچھ سماجی اصلاح کاروں کی کوششوں کی وجہ سے اس برائی کی پکڑ دھیرے دھیرے سماج پر کمزور ہوتی جارہی ہے لیکن اعلیٰ ذات کی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے پوری سرکاری مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ملک کو ’منو کال‘ کی طرف واپس لے جایاسکے جسے اعلیٰ ذات کے لوگ ’’بھارتی تہذیب‘‘ کا نام دیتے ہیں اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ’’اینٹی نیشنل‘‘ کہہ کر مختلف طریقوں سے پھنسانے اور بدنام کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے۔
(مصنفہ دلی میں جماعت اسلامی ھند کے شعبہ خواتین کی معاون سکریٹری ہیں۔مترجم: جاوید اختر)

وہ لوگ حقیقت کو دنیا کے سامنے نہیں آنے دینا چاہتے اور یہ جتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ لوگ ثبوت کو مٹا دینا چاہتے ہیں تاکہ مجرموں کو بچایا جا سکے کیونکہ وہ ان کے اپنے لوگ ہیں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020