خواتین کی گھٹتی تعداد باعثِ تشویش

قاری ایم ایس خان، حیدرآباد

 

تلنگانہ ریاستی الیکشن کمیشن کی مجریہ فہرست رائے دہندگان برائے عظیم تر بلدیہ حیدرآباد انتخابات کے لحاظ سے بلدیہ کے 150وارڈس میں رائے دہندوں کی جملہ تعداد 74,67,256 ہے۔ ان میں مرد رائے دہندوں کی تعداد 38,89,637 اور خاتون رائے دہندوں کی تعداد 35,76,941 ہے اور متفرق یا دیگر رائے دہندوں کی تعداد 678 ہے۔ خاتون رائے دہندوں کی تعداد مرد رائے دہندوں کے مقابلے میں 3,12,696 زائد ہے۔ یہ ایک بے حد سنگین صورت حال ہے۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ خواتین کی زیادہ تر تعداد ووٹر آئی ڈی کارڈ بنانے میں یقین نہیں رکھتی۔ ان میں کئی گھرانے خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے یا ووٹ ڈالنے کے عمل کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ کچھ گھروں میں خواتین کو ووٹر آئی ڈی کارڈ بنانے کی ترغیب بھی نہیں دی جاتی۔ لوگوں کو ووٹر آئی ڈی کارڈ بنانا اس وقت یاد آتا ہے جب انہیں اس کے ذریعے سرکاری کام نکالنے یا مراعات حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ پسماندہ طبقات اور درج فہرست قبائل میں ایسی شکایتیں عام ہیں جبکہ مسلمان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
دوسری بڑی وجہ مرد و خواتین کے درمیان بڑھتے تفاوت کے اعداد وشمار ہو سکتے ہیں۔ اس کی قطعی تعدادِ فہرست، مردم شماری کی فہرست کے ساتھ موازنہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار، مردم شماری کے اعداد وشمار کے مساوی نہ ہوں بلکہ قریب قریب ہوں لیکن یہ تفاوت بھی تشویش ناک ہے۔ ماضی قریب سے ہی ہندوستان میں مرد و خواتین کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق کو کم کرنے کے لیے حکومتی اداروں کی جانب سے کئی ایک منصوبوں کو عمل میں لایا گیا ہے۔ لیکن لگتا ہے ان منصوبوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے ہیں جس سے کئی ایک سماجی برائیوں کے اندیشے پیدا ہو گئے ہیں۔3,12,696 خواتین رائے دہندوں کی کمی ہر ذی شعور انسان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
فی زمانہ صنفی امتیاز کا کلچر اور مادر رحم میں جنین کشی کا بڑھتا رجحان خواتین کی دن بہ دن گھٹتی ہوئی تعداد کی اصل وجہ ہے۔ اکثر والدین جہیز، جوڑے کی رقم (تگڑی) اور لاکھوں روپوں کی شادی سے بچنے کے لیے بھی بذریعہ اسقاط جنین غیر قانونی و ناجائز دختر کشی کر رہے ہیں جس کی وجہ سےحال ومستقبل میں قحط النساء پیدا ہو جائے گا اور مردوں کو شادی کے لیے عورت کا ملنا مشکل ہو جائے گا۔
وزارت بہبود اطفال و خواتین (مرکزی و ریاستی دونوں) کے علاوہ ویمن کمیشن آف انڈیا و تلنگانہ اسٹیٹ کے علاوہ ملک ہند کی خواتین پر مبنی سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتیں اس کی جڑ تک پہنچیں اور اس کی مکمل تحقیقات کر کے حقائق، ثبوتوں اور شہادتوں کو منظر عام پر لاتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ مرد و خواتین کے درمیان درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کی اصل وجہ رحم مادر میں جنین کشی ہے۔
اسلام نے خاص طور پر بیٹی کو خدا کی رحمت قرار دیا ہے اور اسے حق وراثت ،حق شہادت، حق ولایت حق وصیت اور حق نکاح و خلع جیسے کتنے ہی قانونی و معاشرتی حقوق عطا کیے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی بیٹیوں سے متعلق بڑا ہی متاثر کن اور ممکن العمل ’’بیٹی بچاو۔ بیٹی پڑھاو‘ کا نعرہ دیا لیکن سیکولرازم، لبرل ازم، آئی سیکٹر، گلوبلائزیشن اور زوجین کی ملازمتوں و دیگر ذرائع معاش برائے مرد و زن نے خواتین کو اس کی فطری و قدرتی ذمہ داریوں سے محروم کر کے اس پر نفسیاتی تشدد روا رکھا اور اسے بازاروں، دفتروں، سیاسی ایوانوں اور فلموں و تشہیری صنعتوں سے وابستہ کر دیا۔ جبکہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو عورت کو اس کی ہر عمر میں کفیل فراہم کرتا ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21