خواتین اور گھر کا محاذ

مولانا ابوسلیم محمد عبدالحئی ؒ

 

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بہت سے مردوں کی زندگیاں شادی کے بعد بہت کچھ بدل جاتی ہیں۔ ایسے لوگ جو شادی سے پہلے بہت یار باش اور بے فکروں کی پارٹی کے روح رواں ہوتے تھے شادی کے بعد سنجیدہ اور تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور یاروں کی کوشش کے باوجود ان سے الگ رہنے لگتے ہیں۔ بہت سے لوگ بالکل سادہ زندگی گزارنے کے عادی ہوتے تھے لیکن رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد ان کا رنگ بدلنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ نزاکت و لطافت اور ذوقِ آرائش کا مجسمہ بن جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ جو ہر وقت تاش، شطرنج، شکار، گپ بازی، سیاحی وغیرہ کاموں کی دھن میں لگے رہتے تھے لیکن شوہر بنتے ہی اپنے ان پرانے مشغلوں سے بیزار ہوجاتے ہیں اور وہی دوست جو کبھی ان کو نصیحت کرتے کرتے مایوس ہو چکے تھے ان کے حال کی تبدیلی پر تعجب کرنے لگتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ عورتوں کا اچھا خاصا اثر مردوں پر پڑتا ہے اور اکثر یہ اثر اتنا زبردست ہوتا ہے کہ اس کے نتائج دیکھ کر بہت زیادہ تعجب ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت جب زندگی بھر ساتھ رہنے کے اقرار کے ساتھ ازدواجی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کا اثر بڑی تیزی سے قبول کرتا ہے۔ اس موقع پر اگر آپ کے سامنے زندگی کا ایک سوچا سمجھا نقشہ موجود ہو اور آپ نے اپنی زندگی کے لیے جو رویہ پسند کیا ہو اسے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہو تو یہ بہت مشکل ہے کہ آپ مرد کا اثر قبول کر کے اپنے اس رویے سے ہٹ جائیں۔ البتہ یہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ ایسی صورت میں مرد پر آپ کے خیالات کا اثر پڑنے لگے اور رفتہ رفتہ اس کے مزاج میں تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جائیں۔ مردوں کی اصلاح آپ کے کام کرنے کا ایک میدان ہے۔ اس میدان میں آپ کے سامنے صرف شوہر ہی نہیں بلکہ بھائی، باپ، بیٹے اور سب ایسے مرد شامل ہیں جنہیں آپ بلا جھجھک لیکن مناسب طریقے سے اسلامی زندگی کی طرف بلا سکتی ہیں۔ آپ اس غلط فہمی میں ہرگز نہ رہیں کہ آپ مردوں پر اثر نہیں ڈال سکتیں۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ کے اثرات مردوں پر کس طرح غیر محسوس طریقے سے پڑتے ہیں۔ آپ تسلیم کریں گی کہ خوشیوں اور غمی کی تقریبات میں جب آپ چاہتی ہیں مردوں سے وہ تمام فضول رسمیں کروالیتی ہیں جن کے ترک کر دینے کے لیے مرد معلوم نہیں کتنے ارادے کر چکے ہوتے ہیں۔اگر آپ میں اسلام اور غیر اسلام کی تمیز اچھی طرح پیدا ہو جائے اور آپ یہ کہنے لگیں کہ آپ کو اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کے علاوہ صحابہ کرام اور بزرگانِ دین جیسی شخصتیں پسند ہیں اور کرزن، چرچل، ٹرومین اور اسٹالن جیسے مکروہ چہرے آپ کو بالکل نہیں بھاتے تو آپ دیکھیں گی کہ کتنے نوجوانوں کی شکلیں خود بخود بدلنا شروع ہو جائیں گی۔ ہمارے سامنے بہت سے نوجوانوں کی مثالیں ہیں جو داڑھی کے معاملے میں اسلام کے حکم کو جان لینے کے بعد یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ وہ شریعت ہی کے منشا کے موافق عمل کریں گے۔ لیکن چوں کہ ان کی بیویوں پر اس کی اہمیت واضح نہیں ہوتی اس لیے ان کی ناپسندیدگی ان کے کمزور ارادے کو بار بار توڑ دیتی ہے اور وہ اس وقت تک یہ جراءت نہیں کر پاتے جب تک ان کے ارادے میں اتنی قوت نہیں پیدا ہو جاتی کہ وہ بیویوں کی مخالفت کی پروا کیے بغیر اسلامی احکام پر ڈٹ سکیں۔ کتنے واقعات ایسے ہوئے کہ بہت سے نو عمروں کو اپنے ہونے والی شادیوں سے محض داڑھیوں کی خاطر ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔ اگر آپ گھریلو زندگی میں اسلامی طرز زندگی کو پسند کریں جس میں نماز ہو، روزہ ہو، پرہیز گاری ہو، حسن اخلاق ہو، خدا کا خوف ہو، اسلامی آداب و تہذیب کا لحاظ ہو تو آپ خود دیکھیں گی کہ آپ کے مردوں کی زندگیاں بدلنا شروع ہو جائیں گی اور رفتہ رفتہ آپ ہی کا پسندیدہ رنگ غالب آنا شروع ہو جائے گا۔ آپ اگر مردوں کو صاف صاف بتا دیں کہ حرام ذریعہ سے کمائی گئی دولت سے حاصل ہونے والے عیش و آرام کے بدلے میں آپ کی حلال کمائی سے بسر ہونے والی سادہ زندگی زیادہ پسند ہے اور کوٹھیوں کے بدلے کچے گھر اور مرغن غذاؤں کے بدلے روکھے سوکھے ٹکڑے ہی پسند کرتی ہیں تو آپ دیکھیں گی کہ آپ کے مردوں کی حرام آمدنی اور رشوت میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ جب آپ دولت اور عیش و آرام کے اسباب کو دیکھ کر ان پر ریجھتی ہیں اور شوہر سے ان چیزوں کا مطالبہ کرتی ہیں تو مرد چاہے کتنا ہی خاموش رہتا ہو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے اس کے حوصلے کتنے بڑھ جاتے ہیں اور وہ حرام و حلال کی قید کو توڑ کر کتنی بے باکی سے دولت سمیٹنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح جب مرد حرام ذرائع کو چھوڑنا شروع کرتا ہے اور اس کی آمدنی گھٹنے لگتی ہے تو بھلے ہی چاہے آپ زبان سے کچھ نہ کہیں لیکن صرف آپ کا ناک بھوں سکیڑنا اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کر دینا اس کے ارادوں کو کس قدر کمزور کر دیتا ہے اور وہ کس طرح سنبھل سنبھل کر اس وقت تک پھسلتا رہتا ہے جب تک کہ اس کا ارادہ اتنا پختہ نہ ہو جائے کہ وہ آپ کی کُھلی مخالفت کا مقابلہ کر سکے۔یہ اور اگر اسی طرح کی دوسری باتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ عورتوں کو مردوں کی زندگی پر اثر ڈالنے کا بہت بڑا موقع حاصل ہے۔ لیکن چوں کہ عورتوں کو معلوم نہیں کہ وہ اپنی اس قوت کو کس جگہ کس طریقے سے کام میں لائیں اس لیے یہ قوت بھی بے جا صرف ہوتی رہتی ہے۔ اب وہ عورتیں جن کو اسلام کے تقاضے معلوم ہو جائیں اور جو اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کے لیے اس زندگی میں کچھ کام کرنے کا فیصلہ کرلیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصلاح کی اس مہم کو لے کر اٹھیں۔ اگر وہ سلیقے اور سمجھ بوجھ کے ساتھ اس کام کو شروع کریں گی تو یقیناً وہ اپنے اعزہ واقربا اور خاندان کے لوگوں کی حالت بہت جلد تبدیل کر سکتی ہیں۔ وہ اپنے اور اپنے ملنے جُلنے والوں کے گھرانوں کو بہت سی خرابیوں سے پاک کر سکتی ہیں اور ایسے لوگ تیار کر سکتی ہیں جو پوری اسلامی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیں۔
مردوں کی مدد
اگر خوش قسمتی سے آپ کے گھر کے مردوں میں سے کسی نے اسلام کو دل سے اپنا دین بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اپنی پوری زندگی میں اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو آپ اس کے راستے کا پتھر نہ بنیں۔ بہت ممکن ہے کہ اس فیصلے کے بعد اس اللہ کے بندے کو دولت کمانے کے بہت سے ذرائع سے ہاتھ دھونا پڑ جائے۔ صرف حلال کمائی کی کوشش میں اس کی آمدنی گھٹ جائے، اللہ کے احکام کی پابندی کی وجہ سے وہ بہت سے ایسے کام چھوڑ دے جو باپ دادا سے چلے آ رہے ہوں، بہت سی ایسی رسموں کو ترک کر دے جو بلا وجہ خاندانی شریعت کا درجہ اختیار کر چکی ہوں۔ ان سب صورتوں میں آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کی مدد کریں۔ حلال ذریعہ سے کمائی ہوئی کم سے کم آمدنی میں گزارا کریں۔ اس کی ہمت بندھائیں، تکلیفوں میں اس کا ساتھ دیں، سختیاں جھیلنے کے لیے اس کے اندر حوصلہ پیدا کریں، خود ہر قسم کی مصیبت برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔ بے جا نام و نمود کی خاطر فضول خرچ کرنا بند کر دیں۔ غلط رسم و رواج کی پابندی کو اپنے لیے اور اس کے لیے مصیبت نہ بنائیں۔ غیر ضروری باتوں کو ترک کرنے میں تکلیف کے بجائے خوشی محسوس کریں۔ زیادہ سے زیادہ سادہ زندگی اختیار کریں۔
کسی مسلمان کے لیے زندگی کی سب سے بڑی دولت یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسے کام کرے جن میں اللہ کی رضا ہو اور جن کے بدلے اسے ہمیشہ رہنے والی زندگی میں کامیابی میسر آسکے۔ اب اگر کسی شخص کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس لا زوال دولت کو کمالے تو آپ کا اس کا راستہ نہ روکیں، اس کو اس راستے سے ہٹانے کا باعث نہ بنیں۔ اگر آپ کی کسی خواہش کی تکمیل کے لیے یا آپ کے کسی خاموش تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس کا قدم اس راہ سے ڈگمگا گیا تو آپ اس کے حق میں تو دشمنی کریں گی ہی اپنے حق بھی کانٹے بوئیں گی۔ آخر آپ کو بھی تو اپنے کاموں کا حساب اپنے مالک کو دینا ہے۔ کیا آپ تیار ہیں کہ وہاں کسی شخص کو اللہ کی راہ سے روکنے کا وبال آپ کو بھگتنا پڑے؟
(ماخوذ از ’دین کی حفاظت‘ مسلم خواتین کے کرنے کا کام)

عورتیں جن کو اسلام کے تقاضے معلوم ہو جائیں اور جو اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کے لیے اس زندگی میں کچھ کام کرنے کا فیصلہ کرلیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصلاح کی اس مہم کو لے کر اٹھیں۔اگر وہ سلیقے اور سمجھ بوجھ کے ساتھ اس کام کو شروع کریں گی تو یقیناً وہ اپنے اعزہ واقربا اور خاندان کے لوگوں کی حالت بہت جلد تبدیل کر سکتی ہیں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020