خبر و نظر

پرواز رحمانی

مسائل جو دبا دیے گئے
خیال تھا کہ یوپی کے انتخابات کے بعد کچھ اہم اور دیرینہ مسائل پر زور دار بحث شروع ہوجائے گی اور اپوزیشن پارٹیاں حکومت کو بری طرح گھیر لیں گی لیکن حکومت نے بھی اپنے پتے سنبھال رکھے تھے۔ اس نے وہ پتہ پھینکا کہ تمام مسائل دب کر رہ گئے۔ الیکشن کے بعد جو مسائل اٹھنے والے تھے ان میں پہلا بڑا یہ ہوتا کہ حکومت کو اتنی زبردست کامیابی آخر کیسے ملی۔ الیکشن کمیشن کا رویہ اس قدر غیر ذمہ دارانہ کیوں رہا۔ کیا ہندوتوا کارڈ اندر ہی اندر واقعی کام کر گیا؟ دوسرا بڑا مسئلہ پیگاسس سافٹ ویر کا تھا کہ حکومت نے یہ سافٹ ویر خریدا یا نہیں، صاف صاف بتائے۔ کیوں کہ حکومت نے نہ تو پارلیمنٹ کو صاف صاف بتایا نہ سپریم کورٹ کو واضح جواب دیا۔ نیویارک ٹائمز کی سنسنی خیز رپورٹ کے بعد یہ مسئلہ عالمی سطح پر گہرا ہوگیا تھا۔ پھر چین کی ریشہ دوانیوں کا معاملہ تھا۔ روس اور یوکرین کا بحران بھی جاری تھا۔ ان پر زبردست بحث ہونی تھی۔ مگر منجھی ہوئی بی جے پی نے ’’کشمیر فائلس‘‘ نامی فلم ریلیز کرکے ان تمام مسائل کو پس پشت ڈلوادیا ۔ یہ فلم بن کر پہلے سے تیار تھی۔ ریلیز کے لیے مناسب وقت کاانتظار تھا۔ الیکشن کے بعد حکومت کو یہ وقت مل گیا ۔ اس کے پروموشن کی کمان خود وزیراعظم نے سنبھالی۔

کشمیر فائلس
کشمیر فائلس کشمیری پنڈتوں کی حالت زار پر مبنی ایک کمرشیل فلم ہے۔ اس میں وہ ’’واقعات‘‘ بتائے گئے ہیں جو 1990کے بعد کی تیس سالہ شورش کے دوران پیش آئے ہیں۔ مگر ’’واقعات‘‘ انتہائی مبالغہ آمیز ہیں جو پنڈت برادری پر یک طرفہ مظالم دکھائے گئے ہیں۔ مسلمانوں اور سکھوں پر ہونے والے مظالم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔سینما گھروں میں یہ فلم زبردست رش لے رہی ہے۔ مگر سینما گھروں پر سیکیوریٹی کے انتظامات بھی بڑے سخت ہیں مبادا کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آجائے۔ اس میں ظالم صرف مسلم نوجوانوں کو دکھایا گیا ہے کسی اور پہلو کا کوئی بیان نہیں ہے۔ اسی لیے سوشل میڈیا میں اس پر کڑی تنقیدیں ہورہی ہیں۔ مبصرین اسے یکسر یکطرفہ اور مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلانے والی فلم بتارہے ہیں۔ بیرون ملک آباد لوگ بھی اس کی شدید مذمت کررہے ہیں۔ اس فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ 23مارچ کو دہلی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کیجریوال نے اسے بالکل جھوٹی فلم بتایا جس کا پروپگنڈہ کرکے حکومت اور اس کے فلم ساز کروڑوں کمارہے ہیں۔ اور بی جے پی کے لوگ اس کے پوسٹر بازاروں اور شاہراہوں پر لگارہے ہیں۔ اس طرح ان مسائل کو جو ملکی مفادات سے تعلق رکھتے ہیں اور جن پر بحث ہونی چاہیے تھی ، عوام کے دل و دماغ سے ہٹادیے گئے ہیںاور حکومت گھیرے میں آنے سے بچ گئی۔

پیگاسس
پیگاسس ایک انتہائی قیمتی اور پیچیدہ سافٹ ویر ہے جسے حکومتیں اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ جب ہندوستانی وزیراعظم اسرائیل کے دورے پر گئے تھے تو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے انہیں یہ سافٹ ویر خریدنے پر آمادہ کیا تھا۔ مبینہ طور سے یہ سافٹ ویر خریدا گیا اور انڈیا میں سیاسی حریفوں اور حق گو جرنلسٹوں کے خلاف استعمال کیا گیا ان کے موبائل فون ہیک کیے گئے مگر حکومت اس کی خرید سے مسلسل انکار کرتی رہی۔ اس نے پارلیمنٹ میں بھی صاف جواب نہیں دیا۔ نہ سپریم کورٹ کو کچھ بتایا اس طرح یہ معاملہ دبتا جارہا تھا لیکن حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پیگاسس حکومت ہند نے خریدا تھا اور اسے استعمال بھی کیا گیا۔ تب سے یہ معاملہ زندہ ہوگیا ہے اس پر بحث کھل گئی ہے۔ ایسے اور بھی مسائل ہیں جن پر عام بحث کی جاسکتی ہے لیکن پرائم منسٹر اور ہوم منسٹر بڑی چالاکی کے ساتھ انہیں دبائے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کے دبے رہنے کی ایک وجہ آل انڈیا اپوزیشن کا نہ ہونا بھی ہے۔ کانگریس یقیناً آل انڈیا پارٹی ہے لیکن وہ خود اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ اروند کیجری وال اب پنجاب میں الیکشن جیتنے کے بعد آل انڈیا سطح پر اٹھنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ اٹھ بھی سکیں گے یا نہیں کہنا مشکل ہے۔ سنگھ اور بی جے پی کے لوگ مختلف عنوانات سے ملک میں گروہی آگ لگانے کی کوشش کررہے ہیں یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022