خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

ایک تحریر پر مقدمہ
نئی دلی کی ایک دلچسپ خبر ہے۔ ایک کاروباری روزنامے میں آر ایس ایس پر ایک خاتون جرنلسٹ کا ایک معلوماتی آرٹیکل شائع ہوا۔ اس کے خلاف دلی کے ایک صاحب نے دہلی ہائیکورٹ میں شکایت کی ہے کہ اس آرٹیکل سے انہیں سخت ذہنی تکلیف پہنچی ہے اور سوسائٹی میں ان کا وقار مجروح ہوا ہے۔ لکھا ہے کہ تحریر میں سنگھ کے بارے میں نہایت غلط اور بے بنیاد باتیں کہی گئی ہیں۔ سنگھ کے لوگوں کو کمزوروں پر ظلم کرنے والا کہا گیا ہے اور کہا گیا کہ یہ لوگ ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاو کرتے ہیں۔ شکایت کنندہ پیشے سے وکیل ہیں اور خود کو آر ایس ایس کا ممبر بتاتے ہیں۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اس شکایت کو مسترد کر دیا ہے۔ جسٹس سریش کمار کیٹ نے کہا ہے کہ شکایت کنندہ لوہی تکشا شکلا کی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس آرٹیکل سے انہیں کیوں کر دکھ پہنچا ہے اور ان کا وقار کیسے مجروح ہوا ہے۔ فاضل جج نے مزید کہا ہے کہ مسٹر شکلا اپنی بات کے حق میں کوئی مضبوط دلیل یا ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ ادھر آرٹیکل رائٹر متالی سرن کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ تحریر آج کے سیاسی اور سماجی حالات پر غیر جانب داری سے لکھی ہے اور جو حقائق محسوس کیے ہیں وہ بیان کر دیے ہیں۔ اس کا مقصد کسی فرد یا گروپ کو آزار پہنچانا نہیں ہے۔
خبر دلچسپ کیوں ہے
آغازِ کلام میں اس خبر کو دلچسپ اس لیے کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ اسی سنگھٹن کے ممبر (یا دعویدار) ہیں جس کے درجنوں جرائد اور میگزین نکلتے ہیں اور جب سے یہ سنگھٹن برسر اقتدار آیا ہے۔ سیکڑوں اخبارات اس کی فکر کے زیر اثر آچکے ہیں۔ ان جرائد اور اخبارات میں سنگھٹن اور اس کی سرکار کے خلاف جو کچھ چھپتا ہے وہ جاننے والے جانتے ہیں۔ انگریزی آرگنائزر اور ہندی پنچ جنیہ میں مخالف افراد، گروپوں اور پارٹیوں کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔ ان تحریروں کے خلاف بھی شکایات کی جاتی ہیں مقدمات بھی قائم ہوتے ہیں لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ بہت ہی کم جرنلسٹ ہیں جو اس سنگھٹن اور اس کے لٹریچر کے خلاف بات کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ اگر کوئی کرتا ہے تو سنگھ کے کارندے اس کے تعاقب کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ بحوالہ بالا آرٹیکل کا بھی یہی کیس ہے۔ کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس بہت بڑی اور منظم تنظیم ہے۔ اس کے پاس وسیع تر کیڈر ہے جس کی یکسوئی اور لگن اپنےکام میں قابل رشک ہے۔ اگر لیڈر (سر سنگھ چالک) کہ دے تو کیڈر کا بڑے سے بڑا آدمی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔
کاش کچھ افراد اٹھیں
حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف اتنا وسیع نیٹ ورک اور دوسری طرف مقاصد انتہائی پست۔ ایک خطہ ارض کو عظیم تر قرار دے کر اس کی پرستش اور جو اس سے انکار کرے وہ دشمن۔ پھر جو آبادیاں اس پرستش کے دائرے میں آتی ہیں ان سے پیدائشی ذات پات کا بھید بھاو۔ سنگھ دعویٰ تو یہی کرتا ہے کہ وہ جاتی واد یعنی ذات پات کے خلاف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں کاسٹ سسٹم اسی کے دم سے قائم ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ سنگھٹن انسانی زندگی کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنی توانائی انسانوں کی حقیقی خدمت پر صرف کرتا اور ملک کو دنیا کے سامنے مثالی بنا کر پیش کرتا لیکن افسوس کہ وہ اب بھی اپنی قدیم روِش پر ہی قائم ہے۔ کاش کوئی فرد یا کچھ افراد اٹھیں اور اس سنگھٹن کے ساتھ کائنات کی حقیقت، اس دنیا کی حقیقت، انسانی زندگی کی حقیقت اور زندگی بعد موت کی حقیقت پر تفصیلی تبادلہ خیالات کریں۔ سنگھٹن کے افراد سے افراد کی ملاقاتیں اور بات چیت کی مثالیں تو بہت ہیں لیکن سنگھٹن سے براہ راست گفتگو کا کام ابھی باقی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021