خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

عدالت عظمیٰ کا نوٹس
پچھلے دنوں ہادیہ نامی ایک لڑکی کا مقدمہ بہت مشہور ہوا تھا۔ یہ لَو میریج (محبت کی شادی) سے متعلق تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا ’’افراد کون سے کپڑے پہنیں، کھانے میں کیا کھائیں کیا نہ کھائیں، زندگی میں ان کے نظریات کیا ہوں، وہ کس کے ساتھ شادی کریں، یہ تمام امور شہریوں کی آزادی اور شناخت سے متعلق ہیں۔ حکومت اور قانون اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتے اور نہ اپنے کسی شہری کو ہدایت دے سکتے ہیں کہ وہ یہ کریں اور یہ نہ کریں۔ حکومت شہریوں کی یہ آزادی نہیں چھین سکتی‘‘۔ اس فیصلے کا خیر مقدم دانشوروں، ماہرینِ قانون اور سول سوسائٹی کے متعدد حلقوں نے کیا ہے۔ کئی ماہرین نے اس پر تائیدی تبصرے بھی کئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کچھ ریاستی حکومتوں اور ان کی پولیس نے اپنی من مانی کرنا نہیں چھوڑا ہے۔ خصوصاً نام نہاد لَو جہاد کے نام پر ایک مخصوص فرقے کے نوجوانوں کو ہراساں کیا جانے لگا۔ سب سے بڑی شرارت یو پی میں کی گئی جہاں ایک آرڈینینس جاری کر کے پولیس کو مسلم نوجوانوں پر چھوڑ دیا۔ اِسی لئے ماہرین اور انصاف پسند لوگ اس قانون اور آرڈینینس کو خطرناک اور سوسائٹی کو توڑنے والا قرار دے رہے ہیں۔
عدالت حرکت میں کیوں آئی
سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس کی رہنما اور مشہور سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ نے ان قوانین کے خلاف ایک رِٹ پٹیشن داخل کی تھی۔ کچھ اور ماہرینِ قانون نے بھی سپریم کورٹ میں درخواستیں دے رکھی تھیں۔ علاوہ ازیں حکومت اور پولیس کی کارروائیوں کے بارے میں اس دوران تشویش ناک خبریں بھی آتی رہیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ نے ان خبروں اور درخواستوں کے پیش نظر صورت حال کا نوٹس لیا اور یو پی اور اتر اکھنڈ کی حکومتوں کو ۶؍جنوری کو نوٹس بھیجا کہ وہ چار ہفتوں کے اندر اندر بتائیں کہ لَو جہاد اور شادیوں سے متعلق قانون کو بنانے کی کیا ضرورت تھی اور یہ کہ اس قانون کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ یہ خبر اردو پریس کے علاوہ انگریزی اور ہندی اخباروں نے بھی اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے۔ البتہ سپریم کورٹ نے قانون پر پابندی نہیں لگائی اس لئے یو پی اور اتر اکھنڈ کی حکومتیں اور ان کی پولیس آزادانہ اپنے شر انگیز ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ ۶؍ جنوری ہی کو جمعیت العلماء نے بھی عدالت میں ایک درخواست دی ہے کہ اِس معاملے میں اسے بھی فریق تسلیم کیا جائے۔ یہ درخواست برائے غور قبول بھی کرلی گئی۔ مدھیہ پردیش کے سنیئر ایڈووکیٹ سی یو سنگھ کا کہنا ہے کہ یو پی اتر اکھنڈ کے علاوہ مدھیہ پردیش، آسام اور کچھ دوسری ریاستیں بھی اِسی قسم کے قوانین بنانے پر غور کر رہی ہیں جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
عدالت عظمیٰ کا رجحان
عدالت عظمیٰ نے لَو جہاد کی شرارت کا نوٹس لیا اور بروقت لیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن نوٹس بس اِس حد تک ہے کہ سنجیدہ حلقوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ کورٹ بالکل ہی لا تعلق نہیں ہے۔تاہم اب دیکھنا چاہئے کہ دونوں ریاستیں عدالتی نوٹس کا جواب کیا دیتی ہیں اور عدالت عظمیٰ اس پر کیا کارروائی کرتی ہے۔ عدالت کے رجحان کا ایک اشارہ تو اِسی سے ملتا ہے کہ اس نے نفاذِ قانون پر کوئی پابندی نہیں عائد کی ہے۔ گویا پکڑ دھکڑ اور ہراسانی کی صورتحال اس قدر سنگین نہیں ہے کہ عدالت فوری طور سے اس پر روک لگا دیتی۔ ویسے بھی گزشتہ سات سال سے عدلیہ کا رجحان اور میلان دھیرے دھیرے عیاں ہوتا گیا۔ایودھیا کے مقدمے کا فیصلہ اس کا حتمی ذہن ہے۔یو پی اور اتر اکھنڈ کی حکومتیں تو ظاہر ہے کہ قانون کا جواز ثابت کرنے پر اپنی پوری قوت لگادیں گی۔ یہ کام ججوں کے دیکھنے کا ہوگا کہ ان کی کس دلیل میں کتنی جان ہے۔ لیکن اس کا بھی امکان ہے کہ جج صاحبان پوری ذمہ داری کے ساتھ ریاستی حکومتوں کے جواب کا جائزہ لیں گے…..لَو جہاد کی شرارت سب جانتے ہیں کہ یہ در اصل ایک فرقے کے خلاف بھگوا سرکار کی مہم کا حصہ ہے اور مسلمان اس مہم کا ہدف ہیں۔ جمعیۃ العلماء نے یہ بہت اچھا کیا کہ عدالت میں مسلمانوں کی نمائندگی درج کرادی۔ اس قسم کے کاموں کو جماعت اسلامی ہند کی تائید ہمیشہ حاصل رہتی ہے۔ لیکن اب جماعت کو عملاً بھی اپنے طور پر کچھ کرنا چاہئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021