خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

لَو جہاد کیا ہے؟
اُن حلقوں نے جنہوں نے مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کا پہلے ہی سے بیڑا اٹھا رکھا ہے چند سال سے ’لَو جہاد‘ کا نیا شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم لڑکی یا خاتون اسلام کے بارے میں کوئی کتاب پڑھ کر یا کسی کی باتیں یا تقریر سن کر یا اپنے طور پر انٹرنیٹ میں کچھ تلاش کر کے اسلام سے متاثر ہوتی ہے اور اسلام قبول کر کے کسی سے نکاح کرلیتی ہے تو اس عمل کو یہ لوگ ’’لَو جہا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لوگ کئی سال سے پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ مسلمانوں نے جہاد کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ مسلم نوجوان غیر مسلم لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے دامِ محبت میں گرفتار کرلیتے ہیں پھر ان کا دھرم بدل کر انہیں اسلام میں لے آتے ہیں۔ مسلم آبادی بڑھانے کا بھی یہ ایک حربہ ہے۔ یہ پروپیگنڈا بہت زور و شور سے جاری ہے، یہاں تک کہ اب اسے قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ تبدیلی مذہب کی روک تھام کے نام پر ایک قانون بنایا گیا ہے جس کی دفعات بہت سخت ہیں۔ یو پی کی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کر کے اپنی اچھل کود شروع کر دی ہے۔ اب تک درجنوں معاملات درج کیے جا چکے ہیں جس کے تحت کئی افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ اس کے خلاف کئی مبصروں اور آئین و قانون کے ماہروں نے آواز اٹھائی ہے۔ شہری حقوق کے حلقے بھی اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
عدالتوں کی معاملہ فہمی
اور اب سیاسی پارٹیاں بھی اِس شر انگیز قانون کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ ۲۸؍ دسمبر کو بہار کی جنتا دل (یو) نے ایک بیان میں لَو جہاد کی ٹرم اور اس کے قانون پر سخت تنقید کی ہے۔ پارٹی کی نیشنل کونسل کے دو روزہ اجلاس کے بعد پارٹی کے سنیئر لیڈر کے سی تیاگی نے کہا کہ لَو جہاد کے نام پر ملک میں نفرت اور عدم اعتمادی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، ہمارا آئین بالغ مرد اور عورت کو اپنے شریک زندگی کے انتخاب کی پوری آزادی دیتا ہے اور اس میں ذات برادری یا مذہب کی کوئی قید نہیں۔ مسٹر تیاگی نے بتایا کہ ’’سوشلسٹ حلقے رام منوہر لوہیا کے زمانے سے اس اصول پر عمل کرتے آ رہے ہیں جبکہ آج کی حکومت اس مسئلے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر کے ملک میں نفرت کی فضا پیدا کر رہی ہے۔ ‘‘……عدالتیں بھی اِس غیر انسانی مہم کا نوٹس لے رہی ہیں۔ پچھلے دنوں یو پی کے ایٹہ میں دو مختلف فرقوں کے لڑکے اور لڑکی نے اپنے طور پر شادی کرلی تھی۔ لڑکی والوں نے لڑکے کے خلاف حبس بے جا کی ایف آئی آر درج کرائی تھی اور لڑکی کو بچوں کی دیکھ بھال کے مرکز بھیج دیا تھا۔ دوسرے دن اسے اس کے ماں باپ کو سونپ دیا گیا۔ یہ سلسلہ تقریباً دو ماہ سے جاری تھا۔ اب الٰہ آباد ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے ایک فیصلے کے ذریعے لڑکے لڑکی کو یک جا کر دیا ہے اور ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات مسترد کر دیے ہیں۔
ہوش مند شہری آگے آئیں
بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے ’’لڑکا اور لڑکی دونوں بالغ ہیں اور شادی بیاہ کے سلسلے میں اپنا فیصلہ خود کر سکتے ہیں کوئی دوسرا ان کے معاملے میں دخل نہیں دے سکتا۔ انگریزی اخبار دی ہندو نے اس خبر کی سرخی کچھ یوں لگائی ہے ’’الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایٹہ میں مختلف فرقوں کے جوڑے کو پھر یک جا کر دیا‘‘۔ اس سے قبل الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایسے ہی ایک معاملے میں مثالی فیصلہ سنایا تھا۔ سلامت انصاری کے مقدمے میں سنائے گئے اس فیصلے پر کئی ماہرین قانون نے تائیدی تبصرے لکھے تھے۔ اگر حکومت ہند کے اس قانون پر یا یو پی گورنمنٹ کے آرڈینینس پر پارلیمنٹ میں یا پارلیمنٹ سے باہر کہیں آزادانہ بحث ہو تو معقولیت کی بنیاد پر قانون یا آرڈینینس نہیں ٹک پائے گا۔ موجودہ حکومت ’ہندتوا کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک کے بعد ایک احمقانہ اقدامات کر رہی ہے‘ صرف اِس لیے کہ اس سے ہندتوا کے قدیم حمایتیوں کی قلبی تسکین ہو رہی ہے اور معیشت کی تباہی جیسے بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹ رہی ہے۔ ملک کے حالات بہت تشویشناک ہیں خصوصاً اُن شہریوں کے لیے جو اس ملک کو صحیح مفہوم میں جمہوری ومعاشی لحاظ سے خوشحال اور سماجی لحاظ سے مطمئن دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلم جماعتیں، تنظیمیں اور افراد بھی اس سلسلے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021