حضرت حفیظؔ میرٹھی

کومل کومل غزلوں میںطوفانوں کے پیغام کا شاعر

ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ بھٹکل (کرناٹک)

 

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان کا ادب اس زبان سے وابستہ معاشرے کی انفرادی و اجتماعی فکر، تہذیب و ثقافت اور طرزِ زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔جہاں تک اردو زبان و ادب کا معاملہ ہے دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح یہ بھی گزشتہ صدی کے دوران مختلف ادبی نظریات اور تحریکات کے زیر اثر عروج و زوال اور افراط و تفریط کے مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ ایسے میں اردو ادب پر ایک دور ایسا بھی آیا جب ہر طرف ترقی پسندی اور جدیدیت کے نام پر تہذیب واخلاق اور دینی ومذہبی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا تھا۔ سرخ سویرے کے نام پر اماوس کی کالی راتوں کا استقبال کیا جا رہا تھا۔ بے سمتی اور بے راہ روی کا بول بالا ہوا جا رہا تھا۔ تقدیسِ فن اور عصمتِ حرف و قلم نیلام ہوئے جا رہے تھے۔ اس موڑ پر انسانیت کی خیر خواہی کا پیغام لے کر مقصدی اور تعمیری ادب کو فروغ دینے کے لیے چند باکردار اور باشعور فنکار اٹھے اور ادب اسلامی کے پرچم تلے پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ ادبی محاذ پر اس طوفان بلاخیز کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈٹ گئے۔ ایسی سعید روحوں میں حضرت حفیظؔ میرٹھی کا نام ہمیشہ بہت ہی عزت واحترام کے ساتھ لیا جائے گا۔
حضرت حفیظؔ میرٹھی نے اردو شاعری کی آبرو غزل کو ہی اپنے جذبات و افکار کی ترسیل کا وسیلہ بنایا۔ اور اس وقت بنایا جب غزل کو یا تو نیم وحشی صنفِ سخن کے طور پر مسترد کیا جا رہا تھا یا پھر ترقی پسندوں اور جدیدیت پسندوں کے ہاتھوں اس کی آبرو پامال ہو رہی تھی یا پھر کلاسیکل شاعری کے نام پر فرسودہ لفظیات اور سطحی و بے ہودہ خیالات کی جگالی کی جارہی تھی۔
بلا شبہ غزل گوئی کو حفیظؔ نے فیشن کے طور پر نہیں بلکہ شعوری طور پر اپنایا کیونکہ وہ انسانی مزاج پر غزل کے اثرات سے واقف تھے۔ ساتھ ہی غزل کے پُر اثر ہونے کے لیے جن بنیادی لوازمات کی ضرورت تھی، اس میں فنکار کے خونِ جگر کی کیا اہمیت ہے اس کا انہیں بخوبی ادراک تھا۔
غزل بنیادی طور پر غنائیت کی متقاضی ہے۔ اس کا نرم و لطیف لہجہ انسان کی طبیعت میں سوز وگداز بھرنے اور وجدان پر سر مستی کی کیفیت طاری کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ غزل کی اپنی فنی روایت ہے۔ اس کا اپنا ڈھانچہ اور لفظیات وتراکیب ہیں جن کو اگر پوری احتیاط اور مہارت کے ساتھ برتا نہ گیا تو پرورش لوح و قلم کے لیے جگر خون کرنا کسی بھی طرح سود مند نہیں ہو سکتا۔ اس لحاظ سے اگر ہم حفیظؔ میرٹھی کی غزلوں کا جائزہ لیں تو بقول اختر انصاری دہلوی:
’’غزل کی طرف حفیظؔ صاحب کا رویہ ایک تخلیقی اور متحرک رویہ ہے۔ ان کے یہاں غزل کی روایت کی پاسداری بھی ہے اور غزل کے فنی لوازم کا احترام بھی۔ غزل کے رموز و علائم کو انہوں نے سلیقے سے برتا ہے اور ہر جگہ تخیل اور جذبے کی خلاقانہ قوت سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔‘‘
اس تبصرہ کی روشنی میں کلام حفیظؔ میرٹھی کا مطالعہ ہمیں خالص غزل کے چند ایسے شاہکار اشعار سے روبرو کرتا ہے جو سیدھے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک سرشاری کی کیفیت سے دوچار کرتے ہیں۔ ملاحظہ کریں :
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
بحر محبت توبہ توبہ
تِیرا جائے نہ ڈوبا جائے
ہزار حیف کہ ہم تیرے بے وفا ٹھہرے
ہزار شکر کہ ہم کو ہوس نہ راس آئی
لیکن انہیں محبت اور ہوس کے درمیان پائے جانے والے لطیف فرق کا احساس ہے۔ وہ غزل کے رنگ میں سستے اور سطحی جذبات کو ہوا دینے والی شاعر ی سے گریز کرتے ہیں اور مبنی بر اقدار خیالات کو بڑے ہی رکھ رکھاؤ، وقار اور کمال ہوشیاری سے پیش کرتے ہیں:
رنگ آنکھوں کے لیے ، بُو ہے دماغوں کے لیے
پھول کو ہاتھ لگانے کی ضرورت کیا ہے
لا مری سمت بڑھا جام محبت ساقی
میں نہ پوچھوں گا کہ انجام محبت کیا ہے
سچ ہے کہ تقاضائے غزل کو پورا کرنے والے حفیظؔ میرٹھی کے یہ اشعار دل کے تاروں میں جھنکار پیدا کرتے ہیں اور اپنے اندر گہری معنویت اور سنجیدہ پس منظر رکھنے کے باوجود غزل کے عام رومانی مزاج کا مظہر نظر آتے ہیں۔ مگر حفیظؔ میرٹھی ان جزیروں میں مقید نہیں رہتے بلکہ دور کہیں آفاقی وسعتوں میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کو اپنا وسیلۂ اظہار بنانے والے حفیظؔ اسے بے مقصد زندگی کی ترجمان اور بے معنی وقت گزاری کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتے۔ وہ اپنا نظریۂ فکر و فن واضح کرتے ہوئے غمِ جہاں کو غم جاں اور غمِ جاناں پر فوقیت دیتے ہیں:
کیسا خیال ، کس کی محبت ، کہاں کا عشق
یوں ہی جھجھک گئے تھے ترے پاس آکے ہم
اب انتہائے ضبط نے دل میں لگائی آگ
بیٹھے تھے آنسوؤں کی بغاوت دبا کے ہم
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ گیسوؤں کی گھٹاؤں اور عارض گلگوں کی تابانیوں سے پرے انسانیت کی فلاح اور زندگی کی تعمیر کا ایک خاکہ ان کی نظروں میں ہے جس میں رنگ بھرنے کا مشن پورا کرنے کے لیے انہوں نے غزل کو وسیلہ بنایا ہے جس کا اظہار یوں کرتے ہیں:
ہیچ ہیں میری نظر میں آشیاں و گلستاں
آدمی ہوں ، عزم تعمیر جہاں رکھتا ہوں میں
گلوں سے داغ ، کانٹوں سے خلش لینے کو آئے ہیں
گلستاں میں ہم اپنے دل کو بہلانے نہیں آئے
لیکن حفیظؔ جس عہد میں جی رہے ہیں ، وہاں امن و آشتی اور سکون و سلامتی پر جبر واستبداد اور ظلم و ناانصافی کی حکمرانی چل رہی ہے۔ وہ جس طرف بھی دیکھتے ہیں ایک حسین اور محبتوں بھری دنیا کا خواب چکنا چور نظر آتا ہے اور وہ اس منظر نامہ پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ
حصار جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا
مگر انہیں یہ بھی یقین ہے کہ جب اخلاص اور للہیت کے ساتھ انقلاب کے لہجے میں بولا جائے گا تو غرورِ ستمگراں بھی ادب سے بولنے پر مجبور ہو جائے گا۔ مگر حفیظؔ کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ راہ آسان نہیں ہے اس لیے کہ زمانہ میں جب بھی انقلاب کے لہجے میں سچ بولا گیا ہے تو دنیا ہمیشہ بوکھلا اٹھی ہے اور پھولوں میں تولنے والے قتل پر تُل گئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ صرف شعر وسخن کے محاذ پر ہی میں نہیں بلکہ اپنی عملی زندگی میں بھی عزم و حوصلہ اور جرأت و بے باکی کے ساتھ اس قافلۂ سخت جاں کا حصہ بنے رہے جو عزیمت کی اس راہ گزر پر پورے استقلال کے ساتھ گامزن رہا:
وہیں وہیں نظر آیا ہے سر بلند حفیظؔ
پڑی ہے سر کی ضرورت جہاں جہاں لوگو
گھروں سے تا در زنداں وہاں سے مقتل تک
ہر امتحاں سے ترے جاں نثار گزرے ہیں
یہ بات ماننی پڑے گی کہ جناب حفیظؔ میرٹھی نے ایک واضح مقصد زندگی اور اخروی فوز و فلاح کے ضامن نظام حیات کے روشن نقوش کو عام انسانی زندگی پر واضح کرنے کے لیے شعر و سخن کا سہارا لیا۔ مگر انہوں نے شاعری کو دیگر نظام ہائے فکر کے مبلغ فنکاروں کی طرح پروپگنڈہ کا آلہ بنانے اور فن کے ساتھ بھونڈے مذاق سے مکمل گریز کیا۔ ان کے یہاں پیامی انداز ہونے کے باوجود کلاسیکل شاعری کی تراکیب اور لفظیات، تشبیہات واستعارے، رموز و کنایات، علامتیں اور صنعتیں پوری شان اور وقار کے ساتھ نئے زاویے اور نئے افق اجاگر کرتے نظر آتی ہیں۔ ان کے کلام میں زنجیریں، آگ، میدان، برف، میخانہ، پیمانہ، مقتل، جبر، ساقی، میکدہ، نمک دان، زخم، مرہم، طوفاں، ساحل، مالی، باغباں، عشق، محبت جیسے الفاظ استعاروں اور پیکر تراشی کے اعلیٰ نمونوں میں بدل کر بے جان علامتوں میں نئی روح پھونکتے نظر آتے ہیں جیسے:
ابھی کیا ہے کل اک اک بوند کو ترسے گا میخانہ
جو اہل ظرف کے ہاتھوں میں پیمانے نہیں آئے
یہ بھی اک حساس دل رکھتی ہے پہلو میں ضرور
گدگداتا ہے کوئی جھونکا تو بل کھاتی ہے آگ
لیکن انہیں ایک طرف اس پیغام کی اصل مخاطب جو نوجوان نسل ہے اس کی تن آسانی اور خود فراموشی والی زندگی فکر مند کرتی ہے تو دوسری طرف اپنی زندگی کے بنیادی مقصد کو نظر انداز کر کے بدلتے ہوئے حالات سے بیگانہ رہنے والی ملت کی سرد مہری سے وقتی جھنجھلاہٹ بھی ہوتی ہے اور وہ زیر لب یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:
میدان کارِ زار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا جوان آئینہ خانے میں رہ گیا
خاک سرگرمی دکھائیں بے حسی کے شہر میں
برف کے ماحول میں رہ کر ٹھٹھر جاتی ہے آگ
حالانکہ ان کی ذاتی زندگی بھی رنج والم بھرے نشیب و فراز سے گزری ہے لیکن غمِ جہاں میں آنسو بہانے والا یہ دلِ درد مند، غم ذات کو اس ہنر مندی کے ساتھ غمِ کائنات بنا کر غزل کی زبان میں بیان کرتا ہے کہ یہ آپ بیتی ہوتے ہوئے بھی جگ بیتی بن جاتی ہے:
داد دیجیے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
حفیظؔ میرٹھی ایک خود دار انسان اور خود شناس فنکار تھے۔ عزتِ نفس کی پاسداری ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی پوری زندگی سادگی، شرافت اور وقار کی آئینہ دار تھی۔اس کا عکس بھی ہمیں ان کے کلام میں کچھ اس انداز میں جھلکتا ہوا ملتا ہے:
کیسی ہی مصیبت ہو بڑے شوق سے آئے
کم ظرف کے احسان سے اللہ بچائے
جام ساقی نے جب بے رخی سے دیا
میکدے سے نکل آئے ہم بے پیے
انہیں اپنے مقصدِ وجود اور پیام حیات کی حقانیت پر پورا اعتماد اور بھروسہ تھا۔ اپنے نصب العین سے شعوری وابستگی نے انہیں ایک غیر متزلزل ایمان اور ایقان سے سرفراز کیا تھا۔ اس کا اظہار جابجا ان کے کلام میں ہمیں متوجہ کرتا ہے :
اندھیروں سے ڈرے کیوں دل ہمارا
بہت روشن ہے مستقبل ہمارا
ضمیروں کو چبھن بخشی ہے ہم نے
اثر ہوتا نہیں زائل ہمارا
وہ سماجی زندگی میں رائج دوغلے پن اور صراط مستقیم سے انحراف کو بخوبی سمجھتے ہیں۔حقیقی صورتحال یہی ہے کہ مکارانہ سازشوں کے جنگل میں منزل مقصود کی طرف رواں دواں قافلہ کے لیے حالات اتنے مخدوش ہیں کہ بھروسہ اور اعتماد کا شیشہ قدم قدم پر چور چور ہوا جاتا ہے۔ اور حفیظؔ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:
سب ہماری خیر خواہی کے علمبردار تھے
سب کے دامن پر ہمارے خون کی چھینٹیں ملیں
جان تک دے دی وفا کی راہ میں ہم نے حفیظؔ
کیا کریں پھر بھی اگر ہم کو نہ پہچانے کوئی
حفیظؔ اس ماحول میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ وہ ایک ایک فرد کو اس انقلابی تبدیلی کی ضرورت کا احساس دلانے اور اپنا ہم نوا بنانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ وہ فنکاروں کو فکر اور فن میں موجود فاصلہ کو ختم کر کے قول و عمل میں یکسانیت کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ آدمی کی بے کسی پر ہر ایک دل میں انسانی خیر خواہی کی تڑپ اور ہر آنکھ میں نمی دیکھنا چاہتے ہیں۔ علاجِ دردِ دل کے اسی جذبہ کے تحت وہ کہتے ہیں:
بھر نہ آئے جو کسی کی بے کسی پر اے حفیظؔ
اس کو کیسے آنکھ کہہ دیں ، اس کو کیوں کر دل کہیں
وہ نظمِ جہاں کو ایک مثبت سوچ دینے اور اسے ظلم و جبر سے پاک اور عظمت انسانیت کی منھ بولتی تصویر میں بدل دینے کی راہ میں کسی بھی غم اور ستم کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ ہر مرحلۂ دار ورسن سے گزرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ اپنے زخموں کو نمک دانوں سے وابستہ رکھنے والا یہ درویش صفت فنکار مجاہدانہ شان کے ساتھ غزل کی زبان میں یہ بتا رہا ہے کہ ظالم اور باطل سے لوہا کیسے لیا جائے گا اور صالح انقلاب کس راستے سے آئے گا:
جب سب کے لب سل جائیں گے، ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے
باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں
لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حضرت حفیظؔ میرٹھی کی غزلیں اپنی تمام تر غنائیت اور شبنمی لبادہ کے ساتھ عزم و حوصلہ کی آگ اور تعمیری جذبات کی تپش سے معمور کسی کھولتے ہوئے لاوے سے کم نہیں ہیں۔ ان کی غزلوں میں موجود زیریں لہریں ہر حساس دل اور بیدار ذہن کو تحریک دینے کا سبب بن جاتی ہیں۔ جس کے زیر اثر طاغوتی قوتوں کے آگے سینہ سپر ہونے اور للکارنے کا حوصلہ جوان ہو جاتا ہے۔ اس لیے حاصل کلام کے طور پر حفیظؔ مرحوم ہی کے الفاظ میں ان کے کلام کی جامع تعبیر یہی ہو سکتی ہے:
کومل کومل غزلوں میں طوفانوں کے پیغام حفیظؔ
میٹھی میٹھی باتوں سے بھی تم تو آگ لگاتے ہو
اپنے تعمیر پسندانہ افکار و خیالات کو شاعری کے لطیف پیکر میں ڈھالنے والا تحریک اسلامی کا یہ عظیم شاعر ۲۰ سال قبل ۷؍ جنوری۲۰۰۰ کو حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا کر اجل سے ہم آغوش ہو گیا اور دائمی آرام گاہ میں پاؤں پھیلا کر سو گیا۔ بقول خود
حفیظ ہوگیا آخر اجل سے ہم آغوش
تمام شب کا ستایا ہوا سحر سے ملا
[email protected]
***

حفیظ میرٹھی نظمِ جہاں کو ایک مثبت سوچ دینے اور اسے ظلم و جبر سے پاک اور عظمت انسانیت کی منھ بولتی تصویر میں بدل دینے کی راہ میں کسی بھی غم اور ستم کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ ہر مرحلۂ دار ورسن سے گزرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ اپنے زخموں کو نمک دانوں سے وابستہ رکھنے والا یہ درویش صفت فنکار مجاہدانہ شان کے ساتھ غزل کی زبان میں یہ بتا رہا ہے کہ ظالم اور باطل سے لوہا کیسے لیا جائے گا اور صالح انقلاب کس راستے سے آئے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021