خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

’’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘‘
چند ماہ قبل زراعت کے نئے قوانین کے خلاف جب کسانوں نے آواز بلند کی تو خیال تھا کہ کچھ دن بعد حکومت اسے بھی دبا دے گی کیوں کہ اس کے پاس ایسی آوازوں کو دبانے کے سیکڑوں ہتھکنڈے ہیں، مگر یہ آواز بلند سے بلند تر ہوتی گئی، حتیٰ کہ اب اُس نے باقاعدہ ایک تحریک اور ایجی ٹیشن کی شکل اختیار کرلی ہے، نہ صرف یہ کہ ملک بھر کے بڑے چھوٹے کسان اس میں شامل ہوتے چلے گئے بلکہ شہریوں کے مختلف طبقات کی جانب سے بھی اسے حمایت ملتی گئی۔ کسان لیڈروں نے اگر چہ سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو اس سے دور رکھا ہوا ہے لیکن یہ لوگ اپنے طور پر اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایجی ٹیشن کی حمایت کرتے ہوئے پنجاب کے شرومنی اکالی دل نے کہا ہے کہ ملک میں اصلی ’’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘‘ بھارتیہ جنتا پارٹی ہی ہے اور وہی ملک کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے لڑانے پر تلی ہوئی ہے۔ ۱۵؍دسمبر کو پنجاب میں بولتے ہوئے شرومنی اکالی دل کے صدر سکھبیر سنگھ بادل نے کہا ’’اِس پارٹی نے پہلے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلایا، اب پنجاب کے ہندوؤں کو سکھوں کے خلاف اکسا رہی ہے۔ اس طرح ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے‘‘۔ ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے یہ الفاظ چند سال قبل سہارن پور میں ایک لیڈر نے کہے تھے ’’کہ جو کوئی نفرت ومنافرت کی بات کرے گا ہم اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے‘‘۔
تخریب کاری کا سلیقہ
بی جے پی کو ایسے الفاظ کہنے اور انہیں پکڑنے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔ اس کے بعد پارٹی کے لیڈروں نے اپنے مخالفین کے ایک خاص طبقے کے خلاف ’’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘‘ کی رٹ لگا دی۔ سکھ بیر بادل نے اب اُسی کا جواب دیا ہے۔ اکالی دل پارٹی ایک عرصے سے بی جے پی کے ساتھ تھی، اس کی حکومت میں بھی شامل تھی مگر اب کسانوں کے سوال پر اس کے خلاف ہو گئی ہے۔ نئے زرعی قوانین کی مخالفت کا سب سے زیادہ زور پنجاب اور ہریانہ میں ہے۔ یہ ایجی ٹیشن حکومت اور حکم راں پارٹی کے لیے دردِ سر بن گیا ہے۔ ابتدا میں حکومت نے اسے ہنسی مذاق اور ہلکے پھلکے بیانات کے ذریعے نظر انداز کرنا چاہا جس طرح سی اے اے کے خلاف شاہین باغ دھرنے کو کیا تھا مگر جب ایجی ٹیشن مضبوط ہوتا گیا تو حکومت قدرے سنجیدہ ہوئی لیکن مظاہرین کے مطالبات پر سنجیدہ اب بھی نہیں ہے۔ کہہ رہی ہے کہ مخالف سیاسی پارٹیاں کسانوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔ پہلے کہا تھا اِس ایجی ٹیشن کو کچھ پڑوسی ملک ہوا دے رہے ہیں۔ بھارتیہ کسان یونین کے صدر جوگیند سنگھ نے ۱۵؍دسمبر کو کہا کہ ’’حکومت نے ہم پر بہت سارے الزامات عائد کیے، پہلے کہا کہ اس ایجی ٹیشن کو کانگریس چلا رہی ہے، پھر کہا کہ اس تحریک کا تعلق خالصتانیوں سے ہے اور اب کہہ رہی ہے کہ اس کے پیچھے چین اور پاکستان ہیں‘‘۔
ِیہ طریقہ پرانا ہے
اور جہاں تک مختلف فرقوں اور طبقوں میں تفرقہ اندازی کا تعلق ہے تو بی جے پی کا بنیادی طریقہ یہی ہے۔ مسلمانوں کو تو اس گروہ نے پہلے ہی دشمن نمبر ایک قرار دے رکھا ہے جیسا کہ آر ایس ایس کی کتابوں میں موجود ہے اور یہ سلسلہ عملاً جاری ہے۔ شہریت سے متعلق نئے قانون سی اے اے سے صرف مسلمانوں کو یکسر نکال دینا اُسی پالیسی کا حصہ ہے۔ سکھ بھی اس کا زیادہ پسندیدہ فرقہ نہیں ہے۔ ۸۰؍کی دہائی میں جب شدت پسند سکھوں نے شورش برپا کر رکھی تھی اور کئی خالصتانی گروپ سرگرم تھے۔ قتل و غارت گری کے واقعات بھی ہو رہے تھے تو پنجاب سے باہر ملک بھر میں سکھوں کے خلاف ماحول اِسی پارٹی نے تیار کیا تھا ہر چند کہ مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔ اب سُکھ بیر سنگھ بادل نے یہ جو کہا ہے کہ بی جے پی پنجاب کے ہندوؤں کو سکھوں کے خلاف ورغلا رہی ہے تو کوئی غلط نہیں ہے۔ اطلاعات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ یہی عالم ذات برادریوں کے ساتھ بھی ہے۔ برادریوں کی اکثریت کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ یہ تماشا بہار کے حالیہ انتخابات میں خوب دیکھا گیا۔غرض فرقوں کو فرقوں کے خلاف، برادریوں کو برادریوں کے خلاف اور جاتیوں کو جاتیوں کے خلاف کھڑا کرنا بی جے پی کا خاص اور پرانا حربہ ہے۔ پنجاب میں کوئی نیا کام نہیں ہو رہا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21