خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

صدر فرانس کی بدحواسی
فرانس کے صدر امینوئل میکرون نے ’’ریڈیکل اسلام‘‘ سے لڑنے کے لیے ایک بڑی حکمتِ عملی تیار کی ہے۔ اپنی کابینہ کے سامنے انہوں نے ایک مسودہ قانون پیش کیا ہے جس کو اگر کابینہ نے منظور کر لیا تو میکرون اسے قانونی شکل دے کر پورے فرانس میں ’’تشدد پسند‘‘ مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ میکرون کا کہنا ہے کہ ’’فرانس اور یورپ میں تشدد کے جو واقعات ہو رہے ہیں ان کا سبب ریڈیکل اسلام ہے۔ اس کے لیے انتہا پسند مسلمان ذمے دار ہیں جو سیکولر اور جمہوری ملکوں کا نقشہ بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم فرانس میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے، ریڈیکل اسلام ایک سیاسی نظریہ ہے جو ہمارا حریف ہے اور ہم اس حریف کو ختم کردینا چاہتے ہیں‘‘۔ میکرون کے اس اقدام پر فرانس کی اپوزیشن پارٹیاں اور بہت سے دانشور مبصرین حتیٰ کہ حلیف ممالک بھی سخت تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس قانون سے حالات مزید بگڑیں گے اور تمام مسلمانوں کو ہراساں کیا جائے گا۔ اس کے جواب میں میکرون اور ان کے وزیر اعظم لین کاسٹیکس کہتے ہیں کہ اس قانون کا ایک بڑا مقصد عام مسلمانوں کو انتہا پسند مسلمانوں سے بچانا ہے۔
یہ حربہ بہت پرانا ہے
اسلام اور امت مسلمہ سے کدورت رکھنے والوں کا یہ بہت پرانا حربہ ہے۔ میکرون نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ پہلے تو تشدد اور دہشت گردی کے غیر مصدقہ واقعات پر مسلمانوں کو ریڈیکل قرار دیا اور اب فرانس تمام مسلمانوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ پچھلے دنوں فرانس کی کسی خاتون ٹیچر نے اسلام کے خلاف قابل اعتراض خاکے بنائے تھے جنہیں یورپ بھر میں پبلسٹی دی گئی تھی۔ میکرون نے اس وقت بھی کہا تھا کہ اسلام دنیا میں مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس کے لیے میکرون پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ اہل مغرب ریڈیکل اسلام یا ریڈیکل اسلامزم اُس عمل کو کہتے ہیں جو اسلامی احکام و تعلیمات کے مطابق جاتا ہے۔ اسلام پر اخلاص اور نیک نیتی سے عمل کرنے والوں کو یہ اہل مغرب طرح طرح کے نام دیتے آئے ہیں مثلاً دہشت گرد، انتہا پسند، تشدد پسند، دقیانوس، رجعت پسند، تخریب کار اور نہ جانے کیا کیا۔ یہ سلسلہ ایک زمانے سے چلا آرہا ہے۔ اہل مغرب چاہتے ہیں کہ مسلمان اسلامی اجتماعیت کی بات نہ کریں۔ نمازیں جتنی چاہیں پڑھیں، درود وظائف جتنے چاہیں کریں، عام اخلاقیات کے تذکرے خوب کریں لیکن یہ نہ کہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔
ِبات کچھ اور ہے
بات دراصل یہی ہے۔ اہل مغرب اور دنیا کی دیگر قوموں کے خواص کو اسلام کی جس چیز سے خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ اس کی اجتماعیت اور اجتماعی نظام ہے۔ انہیں اسلام کی سیدھی سادی باتوں اور عام اخلاقی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ اسلام پوری انسانی زندگی میں رہنمائی کے اپنے فریضے سے دستبردار ہو جائے۔ مسلمان اجتماعی زندگی کی بات نہ کریں۔دنیا میں کہیں اسلام کی اجتماعی زندگی کا نمونہ قائم نہ ہونے پائے۔ اسی لیے بڑی طاقتوں نے مصر، بوسنیا، لیبیا اور خلیج میں اسلامی طرز حکومت قائم نہیں ہونے دی۔ دس سال قبل عرب اسپرنگ کا ’’خطرہ‘‘ خود محسوس کرنے سے زیادہ عرب حکمرانوں کو محسوس کرایا۔ چنانچہ جب مصر میں اخوان المسلمون کے انجینئر محمد مرسی کی جمہوری حکومت قائم ہوئی تو اس سے سب سے زیادہ خطرہ عرب حکمرانوں کو محسوس ہوا۔ مال دار عرب ملکوں نے اپنی پوری قوت اس کے خلاف جھونک دی اور ایک ہی سال میں مرسی کا تختہ الٹ کر ایک یہودی النسل فوجی جنرل کو حکمراں بنا دیا گیا جو اسرائیل کے مفادات پورے کرنے میں لگا ہوا ہے۔ دراصل جب میکرون جیسا کوئی حکمراں اسلام کے خلاف براہ راست بولتا ہے تو اس کا مطلب وہی واقعہ نہیں ہوتا جس کے پس منظر میں وہ بول رہا ہوتا ہے بلکہ کچھ اور ہوتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020