خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

مرکزی حکومت کے یہ اشارے
جبسے ہی مرکزی حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ تبدیلی مذہب اور دو فرقوں کے درمیان شادی پر قانونی پابندی لگائی جائے گی ،بی جے پی کی ریاستی سرکاروں نے پوزیشن سنبھال لی ہے ۔اتر پردیش نے تو اس سلسلے میں آرڈیننس بھی جاری کردیا ہے،مدھیہ پردیش سرکار اور کچھ دوسری سرکاریں قانون سازی کی تیاری کررہی ہیں۔لیکن بی جے پی کی اِس فتنہ پردازی کے خلاف بہت سے لیڈر میدان میں بھی آگئے ہیں۔خاص طور سے دلت لیڈر ۔سابق پولس افسر ایس آر داراپوری،کانگریس کے دلت لیڈر اُدت راج اور پاسی سماج کے لیڈر رام کرپال پاسی نے الگ الگ بیانوں میں کہا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام مسلمانوں ،عیسائیوں ،بدھسٹوں اور دلت سماج کو باہم لڑانے اور ان میں خانہ جنگی پیدا کرنے کے لیے ہے۔۲۵؍نومبر کو ایک بیان میں انہوں نے کہا ’’دلت برادریوں کے لوگوں کا دھرم پریورتن اب پہلے جیسا نہیں ہے۔اتر پردیش سرکار نے اس آرڈی نینس کے ذریعے مسلمانوں ،عیسائیوں اور دلت برادریوں کو ہدف بنایا ہے ۔اُدت راج نے کہا کہ حکومت اس آرڈی نینس کے ذریعے دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنا چاہتی ہے۔اکھل بھارتیہ پاسی سماج کے نیشنل سکریٹری نے کہا کہ آرایس ایس اور بی جے پی دلت سماج کو مستقلاً ہندو بنائے رکھنے کے لئے اس قسم کے اقدامات کرتی ہے۔‘‘حکومت اسے ایک مضبوط اور مستقل قانون بنانا چاہتی ہے لیکن دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اسے پسند نہیں آیا ہوگا۔
دلی ہائی کورٹ کا فیصلہ
دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک تازہ فیصلے (۲۵؍نومبر)میں کہا ہے کہ ’’جو بھی جوان خاتون اپنی مرضی سے جہاں کہیں اور جس کسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہو،رہ سکتی ہے۔اسے روکا نہیں جا سکتا نہ مرد کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے‘‘۔کورٹ نے پولس کو ہدایت دی کہ حبس بے جا کی درخواست دینے والے لڑکی کے ماں باپ اور بہن کو سمجھائیں کہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں،لڑکی اپنی مرضی سے گئی ہے اور آرام سے رہ رہی ہے۔مرد (لڑکے)کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں۔دی ہندو کی اس خبر میں کسی کا نام نہیں دیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فریقین کون ہیں،تاہم یہ حقیقت واضح ہے کہ ایک نوجوان لڑکی اور ایک نوجوان لڑکا اپنے طور پر آزادانہ ایک ساتھ رہ رہے ہیں انہوں نے شادی بھی کررکھی ہے اور لڑکی کے گھر والے لڑکے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا چاہتے ہیں۔ہر چند کہ اِس آزادانہ ملاپ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی اگر وہ بغیر شادی بیاہ کے اس طرح رہ رہے ہیں۔ اگرچہ اس آزادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن اب حکومت نئے نئے اور فتنہ انگیز قانون بناکر شہریوں کے بعض طبقات کو ہراساں کرنا چاہتی ہے۔دلت برادریوں پر حکومت کی خاص نظر رہتی ہے کہ کہیں کسی مذہب کی کشش انہیں کھینچ نہ لے اور وہ ماضی کی تاریخ نہ دہرادیں۔
ِِریاستی حکومتوں کے مشغلے
بی جے پی کی ریاستی سرکاریں وہی کرتی ہیں جو مرکزی حکومت کے لوگ کہتے ہیں۔مرکزی حکومت انہیں کوئی ترقیاتی اسکیمیں بنانے کو نہیں کہتیں اس لیے کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے ۔ملک کی معیشت انتہائی خستہ حال ہے ریاستی سرکاریں بھی یہ کام کرنا نہیں چاہتیں۔لہذا مرکز ایسے مسائل اٹھاتا ہے جن میں ریاستیں الجھی رہیں۔مرکز نے تبدیلی مذہب کے خلاف بات کی،ریاستیں فی الفور سرگرم ہوگئیں،کسی نے آبادی کی بات کہی،ساکشی مہاراج نے فوراً مطالبہ کرڈالا کہ قبرستانوں کی تعداد آبادی کے لحاظ سے ہونی چاہئے۔کسی نے ’’لو جہاد ‘‘کا شوشہ چھوڑا،ایک مہیلا سادھوی دھاڑیں’’ان لوگوں کو چوراہے پر پھانسی دینی چاہئے‘‘۔یوپی سرکار نے کانپور میں ’لوجہاد‘ کے واقعات کی تحقیق کے لیے ایک تفتیشی ٹیم بنا کر چھوڑ کر رکھی ہے۔بہت سے لوگ اس میں الجھے ہوئے ہیں۔وہ تو خیر ہوئی کہ اس ٹیم نے اعلان کیا ہے کہ ان واقعات میں کوئی سازش یا بیرونی فنڈنگ کا سراغ نہیں ملا۔اب تبدیلی مذہب اور دو فریقوں کے بچوں کے مابین شادیوں پر قدغن حکومت کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ہر چند کہ یہ اقدامات کچھ طبقات کو ہراساں کرکے اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے کئے جارہے ہیں لیکن مسلمانوں اور دوسرے طبقات کو احتیاط اور ضبط و تحمل سے کام لینا ہوگا۔غیر حکیمانہ رد عمل مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020