خبر و نظر

کورونا وائرس کی بدولت

پرواز رحمانی

چین سے کورونا وائرس نام کی بیماری دنیا میں کیا پھیلی کہ دنیا کے تمام چھوٹے بڑے مسائل دب کر رہ گئے ہیں۔ کئی ممالک پہلے ہی سے اپنے سماجی اور معاشی مسائل میں گھرے ہوئے تھے جب کہ بڑے طاقتور ممالک اپنے چھوٹے اور کمزور پڑوسی ممالک کو دبانے اور ہراساں کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے اور یہ بے چارے خود کے تحفظ کے لیے پریشان تھے۔ لیکن طاقتور اور جارح ممالک اپنے حملہ آورانہ طور طریقوں سے باز نہیں آرہے ہیں بلکہ اس وبائی صورت حال سے مزید فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے ہی جارح ملکوں میں ایک نام نہاد ملک اسرائیل ہے جو فلسطینی اٹھارتی اور اپنے عرب شہریوں کو تنگ کرنے سے ذرا بھی نہیں چُوک رہا ہے۔ امریکہ کی نگرانی میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان اوسلو میں جو معاہدہ ہوا تھا جسے اب بھی اوسلو پیس پیکٹ کہا جاتا ہے اس کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اتھارٹی اور فلسطینی عوام بالعموم اس کا احترام کرتے ہیں، اس معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو مغربی کنارے پر تسلط بھی حاصل ہوا تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ایک مکمل آزاد فلسطینی ریاست کے لیے راستہ بھی ہموار ہوتا ہے لیکن اسرائیل کی غاصب حکومت اور شدت پسند پارٹیاں اوسلو معاہدے کی جا بجا خلاف ورزی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور مغربی کنارے پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔
اسرائیل کا دیرینہ ایجنڈا
اسرائیلیوں کا یہ طرزِ عمل اول روز سے جاری ہے جس سے فلسطینی اٹھارٹی کے صدر محمود عباس پریشان تھے۔ بالآخر ۲۰ مئی کو انہوں نے عالم طیش میں اچانک اوسلو معاہدے سے علیٰحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس طرح فلسطین اب اوسلو معاہدے میں شامل نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہی فلسطین کی آزاد ریاست کا تصور بھی فی الحال ختم ہوگیا ہے۔ اسلام پسند تنظیم حماس نے اوسلو معاہدے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے طور پر فلسطین میں اسلامی طریقوں سے فلاحی ومعاشرتی کام کرتی تھی۔ وہ ضرورت مند یہودی خاندانوں اور ان کے معمر افراد کی خدمت کرتی تھی لیکن اسرائیلی حکومت نے خلیج کی کچھ مال دار حکومتوں کی مدد سے (بلکہ ان کے کہنے پر) اسے کچل کر رکھ دیا۔ نیو یارک ٹائمس کی اس خبر میں جس میں اوسلو معاہدے سے فلسطینی اٹھارٹی کی علیحدگی کا ذکر ہے حماس کے رول کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ دو متوازی اسٹیٹس (فلسطین اور اسرائیل) کے بہت سے حامی بھی اسرائیل کے طرزِ عمل سے پریشان تھے اس لیے انہوں نے بھی محمود عباس کے اقدام کی حمایت کی ہے۔اوسلو معاہدہ یاسر عرفات کی زندگی میں ہوا تھا جو پی ایل او کے لیڈر تھے۔ پی ایل او فلسطینی جنگجو تنظیموں کا وفاق تھا جس میں یاسر عرفات کی تنظیم فتح بھی شامل تھی۔ حماس پی ایل او سے الگ تھی۔
اب کیا ہوگا
اب دیکھنا یہ ہے کہ فلسطین کی صورت حال کس رخ پر جاتی ہے۔ اسرائیل نے دو مملکتوں کے تصور سے اتفاق تو کرلیا تھا لیکن وہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ آزاد فلسطینی ریاست وجود میں آئے۔ اوسلو معاہدے سے محمود عباس کی علیحدگی کا اعلان اس لحاظ سے اسرائیل کے حق میں جاتا ہے۔ اب وہ کورونا وائرس کے خوف وغضب کے درمیان اپنے ایجنڈے کو مضبوطی سے آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کی آڑ میں جن جارح طاقتوں نے دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ان میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ اب وہ فلسطینی ریاست اور فلسطینیوں کے ساتھ جو چا ہے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جہاں تک عرب مالداروں کا تعلق ہے انہیں فلسطین کی آزاد ریاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حماس کی مطلوبہ ریاست کا تو وہ نام بھی سننا نہیں چاہتے، وہ تو اپنی مملکتوں اور دنیا کے عام مسلمانوں کی رعایت سے بیت المقدس کا بس ذکر کر لیتے ہیں۔ اسرائیل جیسے اور بھی ممالک ہیں جو کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال سے فائدہ اٹھا کر اپنے اپنے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں اور بہت خوش ہیں۔ اس صورت میں امت مسلمہ کی حکمت عملی کیا ہو اس پر امت کے خواص کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور غور وفکر کرنا ہوگا۔

 

امریکہ کی نگرانی میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان اوسلو میں جو معاہدہ ہوا تھا جسے اب بھی اوسلو پیس پیکٹ کہا جاتا ہے اس کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اتھارٹی اور فلسطینی عوام بالعموم اس کا احترام کرتے ہیں، اس معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو مغربی کنارے پر تسلط بھی حاصل ہوا تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ایک مکمل آزاد فلسطینی ریاست کے لیے راستہ بھی ہموار ہوتا ہے لیکن اسرائیل کی غاصب حکومت اور شدت پسند پارٹیاں اوسلو معاہدے کی جا بجا خلاف ورزی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور مغربی کنارے پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔