خبرونظر

پرواز رحمانی

مرکزی حکومت کی مضبوطی
11اگست کو جگدیپ دھنکر کے نائب صدر جمہوریہ کا حلف لینے کے بعد مرکزی حکومت کا وہ ہدف پورا ہوگیا جو آئینی مناصب پر مکمل گرفت کے لیے مقرر کیا تھا۔ اب حکومت کو کسی منصب سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ پہلے بھی نہیں تھا۔ اس بار صدر جمہوریہ کے لیے اڈیشہ کی ایک قبائیلی خاتون کو لایا گیا ہے جن کے سیاسی ماضی سے عام لوگوں کو بہت زیادہ واقفیت نہیں ہے۔ اب نائب صدر ایک منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی کو بنایا گیا ہے جنہوں نے مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے لیے کئی مسائل پیدا کیے۔ وزیراعظم کو شاید ان کی یہی کارکردگی پسند آئی۔ اب مگر کوئی بڑا آئینی عہدیدار کوئی الجھن پیدا کرسکتا ہے تو وہ سپریم کے چیف جسٹس این وی رمنا ہیں جن کے کچھ حالیہ بیانات سے حکومت کو قدرے پریشانی ہوئی۔ چیف جسٹس کا منصب بہت بڑا آئینی منصب ہے جسے آئینی اور قانونی روایات کے مطابق پر کیا جاتا ہے لیکن کوئی بے غیرت حکومت طریقہ بدل بھی سکتی ہے جس طرح کہ اندرا گاندھی نے 70کی دہائی میں کیا تھا اور اپنی پسند کا چیف جسٹس لائی تھیں۔ خیال ہے کہ چیف جسٹس رمنا کی سبکدوشی کے بعد بھی یہی کیا جائے گا اگر ایسا ہوا تو 2024کے عام انتخابات میں موجودہ حکمرانوں کو اپنے انتخابات میں مزید آسانی ہوجائے گی ، پھر آئندہ کے لیے بھی میدان صاف رہےگا۔

اپوزیشن پھر سرگرم
اس وقت مرکزی اقتدار پر سیاست کا ایک عیار ترین گروہ قابض ہے تاہم اطمینان کی بات ہے کہ اپنی کمزوری کے باوجود اپوزیشن خاموش نہیں بیٹھی ہے۔ یو پی، اتراکھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور میں بڑی شکست کے بعد کانگریس پست نہیں ہوئی بلکہ سرگرم ہے۔ صدر جمہوریہ کے انتخاب میں اپوزیشن نے قوت کے ساتھ اپنا موزوں ترین امیدوار اتارا جس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ یشونت سنہا نے اپنے بیانات میں وہ باتیں بتائیں جو ایک آزاد ملک کا آزاد صدر کرسکتا ہے۔ اس طرح عوام کے سامنے صدر جمہوریہ کا حقیقی کردار آگیا۔ مارگریٹ الوا نے بھی راجیہ سبھا چیرمین کی اصل ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی جنہیں ادا کرنے کا موقع کوئی حکومت نہیں دیتی۔ اب بہار میں حکومت کی تبدیلی مگر وزیر اعلیٰ کے اٹل رہنے سے اپوزیشن کو بڑا حوصلہ ملا ہے۔ اپوزیشن لیڈر 2024کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ مہاراشٹر میں شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کو دوبارہ لانا چاہتے ہیں۔ اترپردیش میں اکھلیش یادو اپنی پچھلی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کررہے۔ مہنگائی کے خلاف راہول گاندھی کی مہم میں نیا زور پیدا ہوا ہے۔ اپوزیشن کا حمایتی سوشل میڈیا مزید سرگرم ہوگیا ہے۔

بہار میں تبدیلی کے بعد
بہار کے لیڈر نتیش کمار بنیادی طور پر سوشلسٹ لیڈر ہیں۔ کرنی برادری پر ان کا کافی اثر ہے۔ بی جے پی کے ساتھ وہ کئی بار گئے لیکن اپنی فکر پر جمے رہے۔ لالو پرساد یادو کے بعد بی جے پی کے اتحاد سے جب پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے تو ریاست میں لالو پرساد یادو کی سیاسی وراثت موجود تھی، فرقہ وارانہ کشمکش بالکل نہیں تھی کوئی کشیدگی نہیں تھی، نتیش نے اس روایت کو من و عن برقرار رکھا حالانکہ ان کی کابینہ میں بی جے پی کے کئی لیڈر موجود تھے۔ انہوں نے ان سے اپنی حد میں رہنے کو کہا اور وہ رہے۔ ان کی حلف برداری تقریب میں مودی بھی شریک ہونا چاہتے تھے وہ اپنے طور پر دلی سے رخصت بھی ہوئے لیکن نتیش کے ایما پر انہیں پٹنہ ایرپورٹ سے واپس کردیا گیا۔ نتیش کی پہلی حکومت میں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ ان کی بعد کی حکومتوں میں بھی ماحول یہی رہا۔ اب امید کی جاسکتی ہے کہ نتیش اور تیجسوی کی حکومت میں بہار میں پہلے سے زیادہ سکون رہے گا۔ جے ڈی یو اور آر جے ڈی کی حکومت زیادہ بہتر کام کرسکے گی۔ 2024میں لوک سبھا اور اس کے بعد 2025میں بہار اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان دونوں انتخابات میں اس گٹھ بندھن کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر کانگریس بھی پہلے کی طرح ان کے ساتھ ہوجائے تو کام زیادہ آسان ہوجائے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022