حجاب آئینی حق، حجاب پر پابندی جمہوری اصولوں کے منافی…!
پوری دنیا میں باحجاب خواتین کو عزت مگر بھارت میں حجاب تنازعہ کا سبب
سید خلیق احمد
تنزانیہ کی باحجاب خاتون صدر سامعہ حسن کی کامیابی قابل رشک
رواں سال جنوری میں کرناٹک میں چھ مسلم طالبات کو حجاب پہننے پر کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ریاست بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ سے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ تک پہنچا۔ بدقسمتی سے اس ملک میں حجاب کو فرقہ پرستی کی علامت کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے جہاں کی تہذیب میں پردہ (اوڑھنی، دوپٹہ اور گھونگھٹ وغیرہ) شامل ہے۔ مدھیہ پردیش کے ’ڈاکٹر ہری سنگھ گوڑ یونیورسٹی‘ میں کلاس روم سے ہٹ کر ایک باحجاب طالبہ کو نماز پڑھتا دیکھ کر ہندو شدت پسند تنظیم آگ بگولہ ہوگئی اور پرنسپال سے شکایت کر دی۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پرنسپال صاحبہ نے جانچ کے احکامات بھی صادر کر دیے۔ یہاں پر اس واقعہ کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں حجاب کے متعلق جو منفی سوچ پنپ رہی ہے اس کا احاطہ ہو جائے۔
دوسری طرف دیگر ممالک میں باحجاب خواتین کو عزت بخشی جا رہی ہے اور حجاب کا سرکاری محکموں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں استقبال کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر نیوزی لینڈ نے، جہاں گزشتہ برسوں میں متعدد مساجد پر حملے ہو چکے ہیں، پولیس فورس کی وردیوں میں مسلم خواتین کے لیے حجاب کو شامل کر دیا ہے۔ حکومت کے ترجمان کے مطابق نیوزی لینڈ میں اعلیٰ پولیس افسروں کی سفارش پر مسلم خواتین کا لحاظ رکھتے ہوئے حجاب کو یونیفارم کا حصہ بنانے کی اجازت دی گئی۔ رپورٹس کے مطابق لندن کی میٹروپولیٹن پولیس اور اسکاٹش پولیس نے حجاب پہننے والی مسلمان لڑکیوں کو پولیس کی وردی کے حصے کے طور پر سیکیورٹی فورسز میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔
سنگاپور کے وزیر اعظم لی سین لونگ نے نرسوں کے لیے حجاب متعارف کروانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "حجاب مسلم خواتین کے اپنے عقیدے اور شناخت کے اظہار کا ایک اہم حصہ ہے جبکہ آسٹریلیا میں باحجاب مسلم خواتین کو پولیس فورس میں شامل ہونے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
ہمارے سامنے اس وقت سب سے اچھی مثال با حجاب مسلم خاتون سامعہ سلوہو حسن کی ہے جو مشرقی افریقی ملک تنزانیہ کی صدر ہیں۔ 2021 میں تنزانیہ کی صدر بننے والی 62 سالہ سامعہ سلوہو حسن کو مختلف شعبوں میں ترقی اور غربت کی شرح میں کمی کے لیے تنزانیہ کے ہر طبقے کی جانب سے سراہا گیا۔ ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کے مطابق تنزانیہ کی 60فیصد آبادی عیسائی، 36 فیصد مسلمان، دو فیصد روایتی مذہب کے پیروکار ہے اور ایک فیصد دیگر ہے۔ سامعہ کو افریقہ کی پہلی خاتون سربراہ مملکت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انہیں افریقی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک گروپ میں کام کرنے کا تجربہ بھی ہے۔
سامعہ کو ان کے قائدانہ انداز اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کو آگے بڑھانے کے لیے بھی سراہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس تنزانیہ کے سابق صدر جان میگوفولی خواتین کے حقوق کو پامال کرنے کے لیے بدنام تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے حاملہ خواتین کے اسکولوں اور کالجوں میں جانے پر پابندی عائد کر دی تھی جس سے خواتین کی تعلیم کافی متاثر ہوئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تنزانیہ کو میگوفولی کے دور میں بین الاقوامی سطح پر علیحدگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن صدارت سنبھالنے کے بعد سامعہ نے کئی افریقی اور عرب ممالک کا دورہ کیا اور اپنے ملک کی سفارتی علیحدگی کو ختم کیا۔ ان کی کوششوں سے تنزانیہ کو کووڈ۔19وبائی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی اور صحت کے بحران سے باہر آنے میں بھی مدد ملی ہے۔
سامعہ سلوہو حسن کی قیادت میں تنزانیہ نے پڑوسی افریقی ممالک کے بازاروں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ ان کی حکومت نے مشرقی افریقی برادری اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ تنزانیہ میں پیدا ہونے والی بین الاقوامی سرمایہ کاری کی مشیر فرینی لیوٹیر نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ سامعہ کے صدر بننے کے بعد تنزانیہ میں تیار شدہ اشیاء کی برآمدات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ لیوٹیر کے مطابق، تنزانیہ کی قومی غربت کی شرح 2021میں کم ہو گئی جس کے نتیجے میں آج تنزانیہ کی کرنسی (شِلنگ) مشرقی افریقہ کی سب سے مستحکم کرنسی ہے۔
صدر سامعہ پہلی بار سنہ 2014 میں اس وقت توجہ کا مرکز بنیں جب وہ آئین ساز اسمبلی کی نائب چیئر پرسن کے طور پر منتخب ہوئیں جسے آئین کا مسودہ تیار کرنے کا کام دیا گیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ ’ایک بہت ہی سمجھدار رہنما کے طور پر ابھریں جو مخالف آوازوں اور آراء کو متوازن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘
بھارت میں ہر کسی کو اپنے پسند کا لباس اختیار کرنے کا جمہوری حق حاصل ہے اور اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہے۔ حجاب دین اسلام کا ایک اہم جزو ہے اس پر پابندی جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 تا 09 اپریل 2022