جیوتی با پھلے کی تعلیمی خدمات کو خراج

اسکول کے لیے عثمان شیخ نے اپنا گھر وقف کر دیا تھا

سید شعیب قمر الدین ہاشمی

جوتی با پھلے اور ان کی اہلیہ ساوتری بائی پھلے نے ملک سے ذات پات کے نظام کو ختم کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ پسماندہ طبقات میں تعلیم نسواں کے لیے جوتی با اور ان کی بیوی ساوتری بائی نے بیش بہا خدمات انجام دیں اور اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جان کی بازی تک لگادی۔ جوتی با پھلے اور ساوتری بائی پھلے کا سب سے اہم کارنامہ جسے صدیوں تک نہیں بھلایا جائے گا وہ ہے پسماندہ طبقات کی لڑکیوں میں تعلیم کی شروعات کرنا۔ لیکن جوتی با پھلے کے اس تعلیمی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جس اہم شخصیت نے انتہائی اہم رول نبھایا ہے وہ ہیں پونے کےعثمان شیخ جن کی بیش بہا قربانیوں کے بغیر جوتی با پھلے کا یہ خواب شاید ہی شرمندہ تعبیر ہو پاتا۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ تاریخ کے اوراق سے عثمان شیخ کی قربانیوں کو یکسر مٹا دیا گیا۔
عثمان شیخ نے جوتی با پھلے کے تعلیمی مشن کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا گھر وقف کردیا اور لاکھ مخالفتوں کے باوجود ہر محاذ پر جوتی با کے ساتھ ڈٹے رہے۔ عثمان شیخ کی ان قربانیوں کے پیش نظر پونا کی سماجی تنظیموں نے مومن پورہ میں واقع پھلے واڑہ میں عثمان شیخ کی یادگار تعمیر کروانے کا حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔ جوتی با اور ساوتری بائی کے تعلیمی مشن میں نمایاں رول نبھانے والے عثمان شیخ کی تمام قربانیوں کو تاریخ کے صفحات سے انتہائی سفاکی کے ساتھ مٹا دیا گیا ہے۔ لیکن شولاپور کے معروف مورخ ایڈوکیٹ سید شاہ غازی الدین نے اپنی تصنیف ’جوتی با پھلے حیات اور کارنامے ‘ میں جوتی با پھلے کے تعلیمی مشن اور مسلمانوں کی قربانیوں کو بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ سید شاہ غازی الدین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’پونا میں جب جوتی با پھلے نے تعلیم نسواں کے لیے اسکول کی شروعات کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت انہیں کوئی بھی ہندو اپنا مکان کرایہ پر دینے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن عثمان شیخ نے کئی مخالفتوں کے باوجود جوتی با کو اپنا مکان دے دیا۔ جس کے بعد نچلے طبقات کی لڑکیاں کثیر تعداد میں اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ مومن پورہ میں واقع عثمان شیخ کے اس مکان کو آج ’پھلے واڑہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی پھلے واڑہ میں جوتی با نے اپنا پہلا اسکول شروع کیا تھا۔ عثمان شیخ نے اپنا گھر وقف کرنے کے بعد جوتی با نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ تقریباً ۱۴ اسکولوں کی شروعات کی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی بہن فاطمہ شیخ کو اسی اسکول میں داخل کروایا۔ اور یہ دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی پہلی ٹرینڈ معلمہ کا اعزاز فاطمہ شیخ کو جاتا ہے۔ پھر ان دونوں بھائی اور بہن نے مل کر ہر محاذ پر جوتی با اور ساوتری بائی کا ساتھ دیا۔ پونہ کے مسلم اکثریتی علاقہ میں واقع عثمان شیخ کا یہ گھر جوتی با پھلے کی یادگار بنا دیا گیا ہے اور اسے اب پھلے واڑہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹرا حکومت کی جانب سے ساوتری بائی پھلے اور جوتی با پھلے کی یادگار بھی بنائی جارہی ہے۔
اس سلسلہ میں بہوجن مہامانو سمیتی کے صدر رمیش راکشے سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے جوتی با پھلے کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ بے شک جوتی با نے پچھڑے ہوئے طبقات کے لیے جو تحریک چلائی اس کے دور رس نتائج آج ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کی جوتی با پھلے کے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے عثمان شیخ، فاطمہ شیخ اور دیگر مسلمانوں نے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ رمیش راکشے کا کہنا ہے کہ جوتی با کے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے جن مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں پونے میں ان کی بھی یاد گار تعمیر کی جانی چاہیے تاکہ نئی نسل کو صحیح تاریخ کا پتہ چل سکے۔ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہماری جانب سے بھارت مکتی مورچہ اور دیگر تنظیمیں کوششیں بھی کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ مومن پورہ میں واقع مہاتما پھلے واڑہ کو دیکھنے کے لیے روزآنہ کئی سیاح یہاں آتے ہی۔
اس بارے میں سماجی کارکن انجم انعامدار نے بتایا کہ پونہ میں جوتی با پھلے کے تعلیمی مشن کو کامیاب بنانے کے لیے عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ نے اپنا گھر بار وقف کردیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پھلے واڑہ میں ان کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی کہیں پر ان کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس سلسلہ میں شاہ غازی الدین ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ذمہ داران سے معلومات حاصل کی گئیں تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ کے بارے میں تحقیق کی لیکن جتنی معلومات ایڈوکیٹ سید شاہ غازی الدین صاحب کی کتاب "مہاتما جوتی با پھلے حیات اور خدمات” میں موجود ہیں اس سے زیادہ معلومات کہیں سے بھی حاصل نہیں ہوئیں۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ مراٹھی زبان میں مہاتما پھلے پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن کہیں بھی عثمان شیخ کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔
دور حاضر میں تعلیم نسواں کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو خوشی کم اور مایوسی زیادہ ہوتی ہے۔ بڑے بڑے شہروں کے بیشتر خانگی ادارے تعلیم کے نام پر ایک بزنس ہب بن چکے ہیں۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں تعلیم نسواں پر کام ہو رہا ہے۔ مختلف شہروں میں بہت ساری این جی اوز اس مشن میں سرگرم عمل ہیں جن کا تفصیلی تذکرہ یہاں ممکن نہیں۔
واضح رہے کہ ہر سال 11 اپریل کو جوتی با پھلے کے یوم پیدائش پر ان کی تعلیمی خدمات کو یاد کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہر قدم پر ان کا ساتھ دینے والے عثمان شیخ کا کہیں تذکرہ بھی نہیں ہوتا اور اس معاملے سے اردو اسکولوں کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
****

پونے شہر کے مومن پورہ علاقے کے رہائشی عثمان شیخ نے اپنا گھر پسماندہ طبقات کی لڑکیوں کے اسکول کے لیے جوتی با پھلے کے حوالے کر دیا تھا، آج اس جگہ کو پھلے واڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پھلے واڑہ میں عثمان شیخ اور فاطمہ شیخ کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں یادگار تعمیر کی جائے، جوتی با پھلے کے یوم وفات پر سماجی تنظیموں کا مطالبہ ہے۔