اتر پردیش:اس بار بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی سے آر ایس ایس کارکنان مایوس،تشہیر میں پرانا جوش نہیں

گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار اتر پردیش کے آر ایس ایس کارکنان بی جے پی قیادت سے مایوس،نظر انداز کرنے کا لگایا الزام

نئی دہلی،19مئی :۔

لوک سبھا انتخابات2024 کے لئے ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔پانچویں مرحلے کی پولنگ کل یعنی 20 مئی کو ہونی ہے۔ اس سے قبل چار مراحل کے لئے ووٹنگ مکمل ہو چکی ہے۔بی جے پی انتخابی تشہیر میں جوش و خروش کے ساتھ سر گرم ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی ،امت شاہ اور جے پی نڈا کے علاوہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی انتخابی جلسوں میں امیدواروں کے لئے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن دریں اثنا ایک چیز جو اس الیکشن میں نظر نہیں آ رہی ہے وہ ہے آر ایس ایس کی سر گرمی۔اتر پردیش میں آر ایس ایس کارکنان میں مایوسی ہے ،ان کا خیال ہے کہ یوگی حکومت نے انہیں اس بار نظر انداز کر دیا ہے۔اس سے قبل انتخابات میں امیدواروں کو طے کرنے اور ٹکٹ تقسیم میں بھی آر ایس ایس کی ضلعی اور بلاک سطح کی ساکھاؤں کا اہم رول ہوتا تھا ،ان کے مشورے سے امیدوار کا انتخاب کیا جاتا تھا لیکن اس بار بی جے پی نے آر ایس ایس کو سائڈ کر دیا ہے ایسا اتر پردیش کے آر ایس ایس کارکنان کو محسوس ہو رہا ہے ۔حالانکہ وہ دل و جان سے بی جے پی کی حمایت میں سر گرم ہیں۔

دی پرنٹ کے لئے ثانیہ ڈھینگرا کی رپورٹ کے مطابق  مرکز میں بی جے پی کے دس سال اور اتر پردیش میں یوگی کے سات سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد آر ایس ایس کے حلقوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔آر ایس ایس سے وابستہ کارکنان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ان کی اپنی ہونے کے باوجود ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔نوکری کی پوسٹنگ ہو یا ایف آئی آر درج کرنا یا قرضہ لینے جسے معاملوں میں بی جے پی  کی حکومت کے تحت ایک عام آر ایس ایس کارکن کی زندگی بمشکل تبدیل ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس کارکنان صرف اپنی ملازمت یا دیگر سرکاری فوائد میں عدم توجہی سے ہی مایوس نہیں ہے بلکہ الیکشن کے دوران بی جے پی قیادت کے ذریعہ ان کو نظر انداز کرنا بھی انہیں کھل رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس بار ٹکٹ کی تقسیم  میں آر ایس ایس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ۔ایک لمبے عرصے سے پارٹی کی خدمت کرنے والے کارکنان پر باہری لوگوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ آر ایس ایس کا الزام ہے کہ بی جے پی ’اہنکاری ہو گئی ہے۔اور اسے تنظیم کی ضرورت نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق موہن لال گنج کے مؤ گاؤں کے رہنے والے آر ایس ایس کے وستارک اندر بہادر سنگھ  کہتے ہیں کہ بی جے پی نے اپنی انتخابی پالیسی سے یہ پیغام دے دیا ہے کہ انہیں اب آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے وہ اب پہلے کی طرح آر ایس ایس رہنماؤں سے ملنے بھی نہیں آتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ عام طور پر مقامی اور ریاستی سطح پر ٹکٹ تقسیم کے سلسلے میں آر ایس ایس کارکنان سے مشورہ لیا جاتا تھا لیکن اس بار تنظیم کو مکمل طور پر در کنار کیا گیا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق عام طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس انتخابات کے دوران ایک یونٹ کی طرح کام کرتے ہیں جہاں بی جے پی کارکن سر گرم طور پر ووٹ مانگتے ہیں وہیں آر ایس ایس کارکنان حساس طریقے سے مہم چلاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اندر بہادر سنگھ کہتے ہیں کہ  ہم کبھی کسی کو نہیں بتاتے کہ کسے ووٹ دینا ہے لیکن ہم گاؤں گاؤں گھر گھر جا کر لوگوں کو ووٹنگ کی اہمیت کے بارے میں بیدار ضرور کرتے ہیں۔اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جو راشٹر اور ہندوتو کے مفاد کا خیال رکھتی ہے۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ پچھلے یوپی الیکشن میں ہم نے رام مندر کی تعمیر ،دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور تین طلاق کے بارے میں زور و شور سے  مہم چلائی ۔ہماری صبح کی شاکھاؤں کے بعد ہم پورے دن تشہیر میں گزارتے تھے۔

راشٹر وادی موضوعات پر تشہیر کرنے کے علاوہ آر ایس ایس مشینری بی جے پی کے لئے ایک زمینی سطح پر بھی کام کرتی ہے،ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں تبدیل کرتی ہے۔

  موہن لال گنج کے مؤ گاؤں کے رہنے والے آر ایس ایس کے وستارک اندر بہادر سنگھ  کہتے ہیں کہ بی جے پی نے اپنی انتخابی پالیسی سے یہ پیغام دے دیا ہے کہ انہیں اب آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے وہ اب پہلے کی طرح آر ایس ایس رہنماؤں سے ملنے بھی نہیں آتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ عام طور پر مقامی اور ریاستی سطح پر ٹکٹ تقسیم کے سلسلے میں آر ایس ایس کارکنان سے مشورہ لیا جاتا تھا لیکن اس بار تنظیم کو مکمل طور پر در کنار کیا گیا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق  لکھنؤ کے پرچارک نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ  ہمارے کارکن  لگا تار میدان میں یہ سمجھنے کے لئے رہتے ہیں کہ لوگوں کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں ، اس سے یہ یقینی ہوتا ہے کہ بی جے پی کے پاس ریئل ٹائم فیڈ بیک رہے کہ کیا کام کرنا ہے اور کیا نہیں۔

حالانکہ اس الیکشن میں ایک تبدیلی کا اشارہ دیا ہے، کئی کیڈر لڑائی سے باہر بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ  تنظیم میں اس بار صرف اہم عہدوں پر بیٹھے لوگ ہی کام کر رہے ہیں۔عام کارکن اور پرچارک بالکل تشہیر نہیں کر رہے ہیں ۔پچھلے الیکشن میں شاکھائیں اہم مقامات میں سے ایک تھیں ،جہاں تشہیر پر گفتگو کی جاتی تھی اور منصوبے بنائے جاتے تھے مگر اب ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔

اس بارتمام انتخابی حلقوں میں  بی جے پی کے اندر جمہوریت کی کمی ،آر ایس ایس میں اقتدار میں حصہ داری کی کمی دبی ہوئی ہےاس سلسلے میں آر ایس ایس کو متعدد شکایات بھی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم کوئی فزیکل فائدہ نہیں چاہتے لیکن  کم سے کم ہم چاہتے ہیں کہ جس تنظیم کو ہم زمینی سطح پر سینچ رہے ہیں اس میں ہمارے تئیں کچھ بنیادی حساسیت ہو۔انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہم تشہیر کر رہے ہیں یا نہیں لیکن انہوں نے اتنا کہا کہ اس بار من تو کھٹا ہوا ہے،مایوسی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جیسا کہ متعدد آر ایس ایس رہنماؤں نے بتایا کہ یہ شکایتیں پارٹی کے مظاہرہ پر اثر ڈال سکتی ہیں ،جبکہ کارکن ابھی بھی بی جے پی کو ووٹ دیں گے لیکن جو اضافی ووٹ وہ عام طور پر اکٹھا کرتے ہیں وہ اس بار ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔

اندر بہادر سنگھ نے کہا کہ بےشک ہمارا ووٹ کہیں نہیں جائے گا لیکن کارکنان ووٹنگ کےے دن درجنوں رائے دہندگان کو پولنگ مرکز پر لاتے ہیں اس بار ایسا نہیں ہو پائے گا۔