تبلیغی جماعت پر سیاست اور حقائق

کرونا وائرس اور فرقہ واریت:المیہ در المیہ

وسیم احمد،دلی

ان دنوں ٹی وی چینلوں پر اور اخبارات میں دہلی کے علاقے نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں لاک ڈاون کے درمیان دو ڈھائی ہزار لوگوں کی موجودگی پر خوب واویلا مچایا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ وائرس سے متاثر تھے۔ ملک کے برسرِ اقتدار طبقے کو اپنی انتظامی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے تبلیغی مرکز کی صورت میں ایک تازہ موضوع مل گیا۔ ایک ایسے مسئلے کو جسے وہ چٹکیوں میں حل کر سکتے تھے میڈیا میں ڈال کر پورے ملک میں بظاہر تبلیغی جماعت کے خلاف لیکن اس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف مہم چھیڑ دی۔ میڈیا نے بھی حسبِ معمول یکطرفہ طور پر خبریں پھیلانا شروع کر دیں لیکن تبلیغی مرکز کی طرف سے جو وضاحت دی گئی اس کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پوری مسلم قوم کو بدنام کرنے کا تہیہ کر لیا ہے ورنہ تبلیغی مرکز تو ایک بہانہ ہے۔ یہاں تبلیغی جماعت کے بارے میں اتنا بتا دینا کافی ہے کہ یہ ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ اس کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی کے مطابق اس تحریک کا واحد مقصد یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان سو فیصد اللہ کے احکام اور پیغمبر اسلام کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے والے بن جائیں۔
تبلیغ پر سیاست اور حقائق: تبلیغی مرکز کی عمارت حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ سے پانچ منٹ کی دوری پر واقع ہے۔ اس عمارت میں تقریبا پانچ ہزار لوگوں کے ٹھہرنے کی گنجائش ہے۔یہاں ہر روز 1200 سے 1500 افراد جماعت کی شکل میں آتے ہیں اور اتنے ہی افراد ہر روز اندرون وبیرون ملک تبلیغی کام کے لیے نکل جاتے ہیں۔ 24 مارچ کو حکومت کی جانب سے اچانک لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا جس کی وجہ سے یہاں بہت سے لوگ پھنس گئے۔ تبلیغی مرکز نے اعلان کے دوسرے ہی روز یعنی 25 مارچ کو عمارت میں موجود افراد کے بارے میں تھانہ کے ایس ایچ او کو تحریری اطلاع دے دی تھی۔ اس تحریر میں یہ کہا گیا تھا کہ لاک ڈاون کے بعد 1500 افراد کو جو قرب وجوار کے رہنے والے تھے مختلف ذرائع سے انہیں گھر بھیج دیا گیا ہے جبکہ 1000 افراد اب بھی موجود ہیں کیونکہ 22 مارچ سے 31 مارچ تک دہلی حکومت کی طرف کرفیو لاگو ہونے اور ریلوے بند ہونے کی وجہ سے انہیں نہیں بھیجا جا سکا۔ اگر پولیس محکمہ کرفیو پاس جاری کردے تو ہم خود بسوں کا انتظام کرکے انہیں اپنے گھروں کو بھیج دیں گے۔ مگر انتظامیہ کی طرف سے انہیں کوئی مدد نہیں دی گئی۔ اس کے بعد مرکز کے ذمہ داروں نے ایس ڈی ایم کو درخواست بھیج کر 17 گاڑیوں کے لیے منظوری مانگی تاکہ ان پھنسے ہوئے لوگوں کو ان کے گھروں کو بھیجا جاسکے۔ 25 مارچ کو ایس ڈی ایم اور تحصیلدار ایک ٹیم کے ساتھ مرکز پہنچے۔ 26 مارچ کو ذمہ داروں کو ایس ڈی ایم کی آفس بلایا گیا اور ان کی ملاقات ڈی ایم سے کرائی گئی لیکن یہاں بھی ان کی سنوائی نہیں ہوئی۔ 26 مارچ کو مرکز میں موجود لوگوں میں سے 6 کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی۔ 28 مارچ کو ایس ڈی ایم اور ڈبلیو ایچ او کی ایک ٹیم عمارت میں پھنسے ہوئے لوگوں کی جانچ کے لیے پہنچی۔ ان میں سے 6 لوگوں میں کورونا پازیٹیو پایا گیا۔ 29 مارچ کو اے سی پی اتُل کمار کو تبلیغی مرکز نے ایک لیٹر لکھا۔ یہ لیٹر مقامی تھانہ ایس ایچ او کے جواب میں تھا اس میں مرکز میں پھنسے ہوئے تمام لوگوں کی مکمل تفصیلات تھیں۔ اس کے ایک دن بعد تلنگانہ سے یہ خبر آئی کہ تبلیغی جماعت کے چھ افراد کی کورونا وائرس سے موت ہوگئی ہے۔ اس خبر کے بعد غیر ذمہ دار میڈیا اور کچھ شدت پسندوں نے تبلیغی مرکز کے خلاف ایک مہم چھیڑ دی۔ ان لوگوں نے مرکز میں موجود بھیڑ اور اجتماع پر پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو مرکز میں موجود لوگوں سے کورونا کا خوف تو نظر آرہا تھا مگر لاک ڈاون کے دوسرے دن آنند وہار دہلی کے بس اڈہ پر جمع ہوئے ہزاروں کی بھیڑ کے اندر کورونا کا کوئی خوف نظر نہیں آیا۔ تبلیغی مرکز پر الزام ہے کہ اس نے کوورنا وائرس کی وبا پھیلنے کے باجوود مرکز میں اجتماع کیا۔ حالانکہ جس وقت یہ اجتماع ہو رہا تھا اسی وقت شرڈی کے سائیں بابا کے مندر میں ساموہک آرتھک چل رہی تھی جس میں سینکڑوں لوگ ایک ساتھ موجود تھے۔ 24 مارچ کو وزیر اعظم نے لاک ڈاون کا اعلان کیا مگر دوسرے ہی دن یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ایک بڑی بھیڑ کے ساتھ ایودھیا میں رام نومی کی پوجا کرتے ہوئے دکھائی دیے مگر ان پر کسی کو ایف آئی آر درج کرنے کا خیال نہیں آیا جبکہ تبلیغی مرکز نے تمام قوانین کی تعمیل کی اس کے باوجود اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
تبلیغی مرکز کو مورد الزام ٹھہرانے کے تعلق سے ان کے لیگل ایڈوائزر ایم ایس خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ دلی پولیس کے ایک اور انٹلی جینس بیورو کے ایک آفیسر کی مستقل ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ ہر روز مرکز کی کارکردگی اور وہاں آنے جانے والوں کے متعلق نوٹ تیار کریں۔ ہمارے پورے سال کا پروگرام انٹلی جینس سروسز کو معلوم ہوتا ہے تو کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہاں تقریبا دو ہزار لوگ پھنسے ہوئے ہیں؟ اگر پہلی درخواست پر نوٹس لے لیا جاتا تو یہ صورت حال پیدا ہی نہیں ہوتی۔ مگر 29 تاریخ تک انتظار کیا گیا اور جب کھچڑی پک کر تیار ہو گئی تو یہ ہنگامہ برپا کر دیا گیا۔ تبلیغی جماعت پر حکومت اور میڈیا کے اس نا مناسب رویے پر جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’’تبلیغی جماعت کو نشانہ بنانا اور غیر ذمہ دارانہ بھیڑ کو نظر انداز کردینا اور صحت کے اس بحران میں جس کی زد میں ملک کا ہر شہری ہے کمیونل پولرائزیشن کی گندی سیاست کرنا عوامی سطح پر شرمناک حد تک نچلی سطح کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ لہٰذا آئیے! ہم زیادہ ذمہ دار بنیں اور کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کریں‘‘۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے تبلیغی جماعت کو غیر ضروری طور پر تنقید کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج گودی میڈیا اور کچھ نادان لوگ مسلمانوں کے خلاف ایک ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ لاک ڈاون کے اعلان کے بعد دوسرے ہی دن ایودھیا میں مندر تعمیر کے نام پر کتنی بھیڑ اکٹھا کی گئی جس میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے شرکت کی۔ میڈیا کے ذریعہ اس کی مذمت کیوں نہیں کی گئی؟ جبکہ تبلیغی جماعت کے مرکز کے ذمہ داروں نے پہلے ہی اس بات کی اطلاع متعلقہ محکمے کو کردی تھی‘‘۔ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر ورکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل نے اپنے بیان میں کہا کہ’’ کورونا وائرس کے بہانے تبلیغی جماعت کو نشانہ بنانا شرمناک ہے۔ سرکار اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو چھپا رہی ہے‘‘۔ اتحاد ملت کونسل کے صدر اور مشہور بریلی عالم دین اور سیاست داں مولانا توقیر رضا خان حکومت کے اس رویے سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا مسلک الگ ہے لیکن ہم تبلیغ جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہیں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ سنگھ اور دلال میڈیا تبلیغ جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔ جمیعت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے مرکز نظام الدین کے تعلق سے منفی پروپیگنڈے اور کرونا وائرس کو مذہی رنگ دینے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا اور خاص طور پر ہمارا وطن اس مصیبت سے نبرد آزما ہے ہمیں زیادہ حساس اور ذمہ دار انسان کے طور پر خود کو پیش کرنا چاہیے۔‘‘

’’آج گودی میڈیا اور کچھ نادان لوگ مسلمانوں کے خلاف ایک ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ لاک ڈاون کے اعلان کے بعد دوسرے ہی دن ایودھیا میں مندر تعمیر کے نام پر کتنی بھیڑ اکٹھا کی گئی جس میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے شرکت کی۔ میڈیا کے ذریعہ اس کی مذمت کیوں نہیں کی گئی؟ جبکہ تبلیغی جماعت کے مرکز کے ذمہ داروں نے پہلے ہی اس بات کی اطلاع متعلقہ محکمے کو کردی تھی‘‘