تاریخ میں تم اپنے نشاں چھوڑ چکی ہوشاہین باغ کو صنفِ نازک کے آہنی عزائم کے لیے یاد رکھا جائے گا

شاہین باغ کو صنفِ نازک کے آہنی عزائم کے لیے یاد رکھا جائے گا

عمّارہ فردوس، جالنہ

تخلیقِ کائنات سے لے کر قیامت تک اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آدم علیہ السلام کا تذکرہ ماں حوا کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا ذکر حضرت ہاجرہ کی قربانیوں کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کی جاں گسل کوششوں میں حضرت آسیہ اور حضرت صفورہ کا کردار بھی بڑا نمایاں ہے۔ اسی طرح نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کی حیات مقدسہ میں حضرت خدیجہؓ حضرت عائشہؓ حضرت زینبؓ اور حضرت ام سلمیؓ کا اہم رول عورت کو بلندی ترین مقام عطا کرتا ہے۔
جب کبھی مورخین اسلامی تحریکات کی تاریخ رقم کریں گے تو وہ خواتین کے بغیر ادھوری ہوگی۔ مصر کی زمین پر نمودار ہونے والی اسلامی تحریک اخوان المسلمون میں جہاں امام حسن البنا، سید قطب کی قربانیوں کے ساتھ زینب الغزالی کی قربانیاں بھی قابل ستائش ہیں وہیں بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی کی داعیانہ سرگرمیوں کا ذکر چھیڑا جاۓ تو ان کی شریک حیات محمودہ بیگم کے صبر وقناعت کو بھی مورخ کیسے بھول سکتے ہیں۔ اسی طرح سے دوسری بے شمار خواتین ہیں جنہوں نے اپنے شوہروں اور بیٹوں کے شانہ بشانہ دین اسلام کی اشاعت و فروغ کے لیے جد وجہد کی۔

اس وقت یونیورسٹیوں کی طالبات نے بھی جس بہادری اور جانبازی کا ثبوت دیا ہے اور اپنی رائے کا جس انداز میں اظہار کیا ہے اس کا تصور بھی ظالم حکمرانوں کو نہ ہوا ہوگا۔

یہ تو صرف چند جھلکیاں تھیں ورنہ چشم فلک نے اس کا مشاہدہ روز اول سے لے کر اب تک بارہا کیا ہے اور قیامت تک عورت کے اس اہم رول اور اس مضبوط حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ چنانچہ شیطان اور اس کے چیلوں نے عورت کے رول کا اندازہ خوب لگایا اور اس کو دوسرے میدانوں میں بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس کو بے حیائی کے طوفان کو جوش دینے کے لیے عریانیت کے میدان میں اتار دیا گیا عیاشی کے اڈوں کی رونقیں عورتوں سے بڑھائی گئیں اور تحریک آزادی نسواں کے نام پر عورت کو گھر سے نکال کر شمع محفل بنایا گیا۔ لیکن شیطان کے چیلوں کی یہ چالیں مکڑی کے جالوں سے زیادہ کمزور ثابت ہوئیں اور زیادہ عرصہ تک یہ پر فریب نعرے عورت کو لبھا نہ سکے کیونکہ جس عورت کو آلہِ کار بنایا گیا وہ اپنے دن بدن ہونے والے استحصال سے اوب سی گئی تھی۔ آزادی کے نام پر جب اس پر دوہری ذمہ داری ڈال دی گئی اور وہ گھر کو چھوڑ کر کلبوں اور آفسوں میں پہنچی تو مظلومیت کی داستان بن گئی۔ اس کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس پر وہ چیخ اٹھی۔ الغرض اس طرح عورت کی آزادی کے نام پر برپا ہونے والی تحریک سب سے پہلے اس مغرب میں ہی دم ٹوڑنے لگی جس کی تقلید میں دنیا اندھی ہورہی تھی۔ لیکن انہیں مغربی ممالک کی عورتیں اس اسلام کی آغوش میں جوق در جوق داخل ہونے لگی جس نے صنف نازک کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا اور ایسے عزت و احترام سے سرفراز کیا جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اسلام نے عورت کو ماں بنا کر جنت اس کے قدموں میں بچھادی۔ حصول تعلیم کا بھرپور حق دے کر اس کی صلاحیتوں کو ابھرنے کے مواقع عطا کیے۔ حیا کے زیور سے آراستہ کر کے جنسی بھیڑیوں سے محفوظ کردیا۔ نسلِ انسانیت کی تعمیر کا کام سونپ کر اس کے ہاتھوں میں قوموں کی تقدیر تھمادی۔ مرد کو قوّام بنا کر عورت کی ساری ذمہ داری مرد کے اوپر ڈال دی۔ مہر اور نان ونفقہ کا حق دے کر سماج میں عزت و رتبہ کے ساتھ رہنے کا حق دیا۔ خلع کا حق دے کر مرد کے ظلم سے نجات کی راہ ہموار کی۔ وراثت میں حق مقرر کرکے معاشی طور پر مضبوط کر دیا۔ بیٹیوں کی پیدائش وپرورش پر جنت کی خوشخبری سنا کر بیٹی کو ہمیشہ کے لیے زندہ درگور ہونے سے بچا لیا۔ نکاح کے مقدس بندھن کے ذریعہ خاندانی نظام کو استحکام بخشا۔ بیوہ عورتوں کے حقوق متعین کر کے سماج کی دہکتی ہوئی چتاوٗں کو ہمیشہ کیلیے ٹھنڈا کر دیا۔ مردوں کے شانہ بہ شانہ دین کی خدمت کرنے پر جنت کی خوشخبری سنائی۔ جی ہاں! اس پاکیزہ دین اسلام میں مغرب کی پریشان خواتین آج یہ کہہ کر پناہ لے رہی ہیں کہ
دیار مغرب ہوس میں غلطاں
شباب عریاں شراب ارزاں
جسے بھی دیکھو غریق عصیاں
ہم ایسی تہذیب کا کیا کریں گے
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب خواتین بدل جاتی ہیں تو پھر کائنات کی ہر شے تبدیل ہو جاتی ہے اور اب اس قہرِ این آر سی نے تو اس کو مکمل طور پر بدل کے رکھ دیا ہے اور اس نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا کہ عورت ایک کمزور ہستی ہے اور حالات سے بے خبر ہوتی ہے۔ شاہین باغ کی صورت میں جب یہ اپنے پورے موقف کو واضح کرنے کے لیے سامنے آئی تو بتا دیا کہ یہ وہ عورت ہے جس کو اسلام نے تمام حقوق دے کر وہ طاقت بخشی کہ جس سے ٹکر لینا حکومتِ وقت کے بھی بس میں نہیں ہے۔

اس وقت یونیورسٹیوں کی طالبات نے بھی جس بہادری اور جانبازی کا ثبوت دیا ہے اور اپنی رائے کا جس انداز میں اظہار کیا ہے اس کا تصور بھی ظالم حکمرانوں کو نہ ہوا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر تقریر وتحریر کے ذریعہ ہماری یہ بہنیں اپنے نظریات اور عزائم کو پورے ملک میں منتقل کر رہی ہیں۔ اس لحاظ سے اس مرتبہ کا عالمی یوم خواتین گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں بڑا اہم رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف جب ہم نے پاکستان کی خواتین کو اس عالمی دن کے موقع پر مغرب کی نقالی میں سڑکوں پر اتر کر مردوں والی زندگی کا تقاضا کرتے ہوئے پایا تو بڑی گٹھن محسوس ہوئی کہ جس مغرب کی تہذیب اپنے خنجر سے خود اپنے آپ کو ہلاک کر رہی ہے اسی طرز زندگی کی خواہش میں یہ خواتین مری جا رہی ہیں۔ تو ہم ان کی اس حالتِ زار پر سوائے افسوس کے کچھ نہ کر سکے۔
قران کے تھے جو لوگ امیں
وہ کفر کی مئے کے ساقی ہیں