وبائیں:اسلامی تاریخ کے مختلف مراحل میں

مسلمانوں نے کیسے کیا مقابلہ؟

عربی تحریر: ڈاکٹر علی صلابی
ترجمانی: ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی

انسانی تاریخ میں انسانیت کو بہت سی آزمائشوں اور بحرانوں سے گزرنا پڑا ہے، طاعون، بھک مری، قحط سالی، زلزلے، طوفان اور سیلاب وغیرہ بہت سی آسمانی اور زمینی آفتوں سے واسطہ پڑا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ مسلمانوں کو بھی ان مصیبتوں کو برداشت کرنا پڑا ہے، اسلامی تاریخ میں ایسے حادثات، مصیبتوں اور واقعات کا تفصیلی تذکرہ ملتا ہے، ان میں سب سے خطرناک مصیبت طاعون کی بیماری ہے، جو مصر، شام، مراکش، عراق اور اندلس میں کئی بار پھیلی اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ان واقعات کے رونما ہوتے وقت جو مورخین موجود تھے انھوں نے ان وباؤں کی مختلف شکلوں، صورتوں، پوری دنیا میں ہونے والے ان کے اثرات اور نتائج کو بیان کیا ہے، مثال کے طور پر مقریزی، ابن تغری، بردی ، ابن کثیر، ابن ایاس، ابن بطوطہ اور ابن عذاری مراکشی وغیرہ، میں نے اس موضوع کی تفصیلات جاننے کے لیے لونشریسی اور ابن رشد کی فقہی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔
ان وباوں نے اسلامی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، کیوں کہ ان کا اثر اسلامی اور انسانی معاشروں کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی حالات پر بڑا گہرا ہوا ہے، اس لیے ان پر تحقیق کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
ان دنوں عالمی وبا کورونا وائرس کی خبریں ہر طرف عام ہیں، اس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی موت ہوئی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں، جن ملکوں میں اس وبائی مرض کا خطرہ بڑھ گیا ہے وہاں خوف اور گھبراہٹ کا ماحول ہے، چوں کہ اس قسم کی وبائیں اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں اور یہ تقدیر میں لکھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالی کے اس فرمان: ’’وَأَنْفِقُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّھْلُکَۃِ، وَأَحْسِنُوْا إِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘(البقرۃ:۱۹۵) (اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو، اور احسان کرو، یقینا اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے) کی وجہ سے بحیثیت مومن ہم سے یہ مطالبہ ہے کہ ہم اس مصیبت سے بچنے کے لیے سرگرم ہوں اور اس کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کریں، پھر اس کے بعد اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کریں اور اسباب کو اختیار کرکے خود کو تقدیر کے حوالے کر دیں۔
اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں آئی ہوئی وبائیں
تاریخِ اسلامی میں بہت سی عمومی وبائیں اور طاعون کی بیماری مختلف ملکوں اور علاقوں میں آئی ہیں، ، لیکن ان میں سے مشہور اور زیادہ خطرناک مندرجہ ذیل ہیں:
٭طاعونِ عمواس ۱۸ ہجری مطابق ۶۳۷ء
٭ طاعونِ جارف ۶۹ہجری مطابق ۶۸۸ء
٭طاعون فتیات یا طاعونِ اشراف ۸۷ہجری مطابق ۷۰۵ء
٭طاعونِ مسلم بن قتیبہ ۱۳۱ہجری مطابق ۷۴۸ء
٭مشرقِ اسلامی میں عباسی، مملوکی اور ایوبی دور میں وبائیں اور طاعون۔
٭ مراکش میں وبائیں اور اطعون۔
طاعونِ عمواس عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہِ خلافت میں پھیلا، اٹھارہ ہجری میں بہت ہی خوف ناک حالات پیش آئے، اس کو طاعونِ عمواس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ عمواس ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں سے اس وبا کی شروعات ہوئی، یہ بیت المقدس اور رملہ کے درمیان میں پڑتا ہے، یہیں سے یہ طاعون شام میں پھیلا، یہ طاعون کی بیماری اس وقت شروع ہوئی جب مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان سخت ترین جنگیں ہوئیں، بہت سے لوگ قتل ہوئے اور فضا میں گند پیدا ہوگئی، پڑے ہوئے مردہ جسموں سے فضا میں تعفن پیدا ہونا فطری بات تھی، اللہ کی تقدیر کے مطابق یہاں طاعون کی وبا پھیلی اور شام میں اس کے اثرات سب سے زیادہ ہوئے، اس طاعون میں بڑی تعداد میں لوگ مرے، ان میں ابوعبیدہ بن الجراح بھی تھے جو اسلامی فوج کے سپہ سالار تھے، معاذ بن جبل، یزید بن ابو سفیان، حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم بھی اس موقع پر وفات پانے والوں میں تھے، کہا جاتا ہے کہ آخر الذکر صحابی یرموک کی جنگ میں شہید ہوئے، سہیل بن عمرو، عتبہ بن سہیل اور دوسرے بڑے بڑے لوگ اس میں انتقال کرگئے۔ (الصلابی۲۰۰۵ ص۲۳۱)
طاعونِ جارف بصرہ میں عبد اللہ بن زبیر کے زمانے میں ۶۹ ہجری میں آیا، اس کو جارف کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کثرت سے لوگ مرے، سیلاب کی تیزی کی طرح لوگ اس میں وفات پا رہے تھے، یہ طاعون صرف تین دنوں تک رہا۔ (افاضل ۲۰۱۱، ص۱۰۴)
۸۷ہجری میں عراق اور ملکِ شام میں طاعون آیا، جس کو طاعونِ فتیات (لڑکیاں) کہا جاتا ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس طاعون کا شکار ہونے والی سب سے پہلے عورتیں اور لڑکیاں تھیں، بعض مورخین نے اسے طاعونِ اشراف کا نام دیا ہے، کیوں کہ قوم کے اشراف اور اکابر اس طاعون میں بہت زیادہ وفات پائے تھے۔ (فاضل۲۰۱۱، ص۱۰۵)
اموی دور میں سب سے آخری طاعون ۱۳۱ہجری میں پیش آیا، اس کو طاعونِ مسلم بن قتیبہ کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس طاعون میں سب سے پہلے وفات پانے والے شخص کا نام یہ تھا، یہ طاعون بصرہ میں آیا اور تین مہینوں تک رہا، رمضان میں اس کی شدت میں اضافہ ہوا، ایک ایک دن میں ایک ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ جنازے اٹھائے جاتے تھے۔
ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ جب تاتاریوں نے ۶۵۶ ہجری مطابق ۱۲۵۸ء میں بغداد پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی:’’بغداد میں کئی مہینوں تک مسجدیں ویران ہوگئیں، جماعت اور جمعہ کی نمازیں معطل ہوگئیں، جب امرِ تقدیری ختم ہوگیا اور چالیس دن گزر گئے تو بغداد میں صرف چند گنے چنے لوگ ہی باقی بچے تھے، راستوں پر ٹیلوں کے مانند مقتولین پڑے ہوئے تھے، اس وقت بارش ہوئی، جس کی وجہ سے مردوں کی شکلیں بدل گئیں اور ان سڑے گلے جسموں سے ملک کی فضا متعفن ہوگئی، ہوا بدل گئی، جس کی وجہ سے سخت ترین وبا پھیل گئی، یہاں تک کہ ہوا میں یہ وبا سرایت ہوکر ملکِ شام پہنچی، جہاں کی فضا کی تبدیلی اور ہوا کے بگاڑ کی وجہ سے خلقِ کثیر کا انتقال ہوگیا، اس دوران لوگ بہت سے مصائب کا شکار ہوئے، مہنگائی بڑھ گئی، وبا عام ہوگئی، ہلاکتیں بہت زیادہ ہوگئیں اور طاعون عام ہوگیا۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔ (ابن کثیر:ج۱۳ص۲۰۳)
عصر مملوکی (غلامان کی حکومت) میں ۷۴۸ ہجری میں ملکِ شام میں طاعون آیا، جس کا شکار شام کے تقریبا سبھی علاقے ہوئے، اسی وجہ سے اسے ’’طاعونِ اعظم‘‘ کا نام دیا گیا، کیوں کہ یہ طاعون بہت ہی زیادہ پھیل گیا تھا اور اس سے بہت ہی زیادہ نقصان ہواتھا، اس طاعون نے حلب، دمشق، بیت المقدس اور ساحلی علاقوں کو فنا کر کے رکھ دیا، اسی طرح ۷۹۵ ہجری میں حلب میں ایک وبا پھیلی جس کو ’’فناے عظیم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اس میں حلب اور آس پاس کے دیہاتوں کے دیڑھ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ (الطراونۃ ۲۰۱۰ ص۴۷۔۴۸)
مراکش کی تاریخ میں مرابطین، موحدین اور مرنیین کے زمانے سے لے کر موجودہ زمانے تک بہت سی وباؤں اور قحط سالیوں کا تذکرہ ملتا ہے، ان میں سب سے زیاہ اہم ۵۷۱ہجری کا طاعون ہے جو مراکش اور اندلس میں پھیلا، اور یہ موحدین کے زمانے میں سب سے خطرناک طاعون شمار کیا جاتا ہے، اس کے بدترین نتائج سامنے آئے، اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا، خلیفہ یوسف بن یعقوب کے چار بھائی اس کے شکار ہوئے اور وفات پاگئے، اس کی وجہ سے روزانہ سو سے ایک سو نوّے تک لوگ مرتے تھے۔ (بنملیح ۲۰۰۲، ص۱۲۴)
مراکش میں ۱۷۹۸ء میں بھی طاعون آیا تھا، یہ طاعون تاجروں کے ذریعے یہاں پہنچا تھا، یہ تاجر اپنے ساتھ یہ وبائی بیماری اسکندریہ سے ٹیونس لے آئے، پھر یہاں سے جزائر میں پھیلا پھر مراکش تک پہنچا، یہ طاعون فاس، مکناس میں پھیلتے ہوئے رباط تک پہنچ گیا، اس میں روزانہ ایک سو تیس لوگ مرتے تھے۔ (البزار۱۹۹۲ ص۹۲)
ابن عذاری نے اندلس میں پیش آنے والی وباؤں کی تاریخ کے سیاق میں پانچویں صدی ہجری کے اواخر یعنی بارھویں صدی عیسوی کے اوائل میں بیان کیا ہے کہ ۴۹۸ہجری مطابق ۱۱۰۵ء میں اندلس میں قحط اور متعدی بیماری اپنی انتہا کو پہنچی، جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا‘‘۔ جب جب بھی فضائی وبائیں پھیلتی ہیں تو اس وقت کے انسانوں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اب ہمیں معاشی، نفسیاتی اور صحت کے سخت ترین حالات سے گزرنا پڑے گا، اسی زمانے میں مراقش اور اندلس میں یعنی چھٹی صدی ہجری کے اوائل (بارھویں صدی عیسوی) میں قحط اور بھوک مری کا سلسلہ شروع ہوا، اس موقع پر ۵۲۴ہجری مطابق ۱۱۳۰ء میں فاس اور غرناطہ میں سخت ترین قحط سالی آئی، ۵۲۶ہجری مطابق ۱۱۳۲ ء میں قرطبہ میں قحط سالی بڑھ گئی اور وبا پھیل گئی، کثیر تعداد میں لوگ مرے اور قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، یہاں تک کہ ایک مد گیہوں کی قیمت پندرہ دینار ہوگئی۔ اپنے زمانے کے دو دشمن ممالک اندلس اور مراقش میں فطری مصائب کے حملے جاری رہے، خصوصا ان ملکوں کے درمیان جنگوں کے زمانے میں۔ (البیاض ۲۰۰۸ ص۱۹۔۲۲)
عمومی طور پر مسلمانوں کی تاریخ اپنے مختلف مراحل میں اور عالمِ اسلام جغرافیائی طور پر اپنے مختلف علاقوں میں اس طرح کے مصائب اور وباؤں کا بہت شکا رہوا ہے، ہم نے یہاں چند مثالیں پیش کی ہیں، لیکن اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں پر ان کا کیا اثر ہوا؟ مسلمانوں نے ان وباؤں کا مقابلہ کیسے کیا؟ اور اسلامی عقیدے کی روشنی میں مسلمانوں نے کیا اقدامات کیے؟
اسلامی تاریخ میں وباؤں کے پھیلنے کی وجہ سے معاشرتی، سیاسی اور روحانی کیا اثرات رونما ہوئے؟
جو قومیں طاعون اور وباوں کا شکار ہوتی ہیں ان پر اس کے اثرات بڑے بھیانک ہوتے ہیں، لوگ ہلاک ہوتے ہیں، حکومتوں کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، زوال اور انحطاط کا خطرہ منڈلاتا ہے، یہ وبائیں اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی مصیبتیں ہوتی ہیں، ان ہی کو اپنا شکار بناتی ہیں جن کو اللہ تعالی شکار بنانا چاہتا ہے، یہ اللہ کی تلوار ہوتی ہیں جن کو چاہتا ہے اس کے ذریعے رحمت یا عذاب کے مقصد سے مارتا ہے، اس لیے وبائیں حکومت اور قوم کے امن وامان کے لیے خطرہ ہوسکتی ہیں، طاعونِ عمواس مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا اور بہت ہلاکتوں کا سبب بنا تھا، بیس ہزار سے زیادہ لوگ اس میں مارے گئے تھے، جن میں مسلمانوں کے بہترین قائدین بھی تھے، یہ تعداد شام میں ان کی آبادی کی آدھی تھی، حقیقت میں اگر روم والے شام میں مسلمانوں کو درپیش اس مصیبت کو بھانپ لیتے اور حملہ کردیتے تو مسلمان فوجوں کے لیے ان کا دفاع کرنا مشکل ہوجاتا، لیکن رومیوں کے دلوں میں مایوسی نے گھر کرلیا تھا، اس لیے وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ نہیں سکے۔
(الصلابی ۲۰۰۵ ص۲۳۲)
معاشرتی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عہدِ مملوکی میں آبادی کے ڈھانچے میں توازن باقی نہیں رہا، جس کی وجہ سے شہروں اور دیہاتوں میں آبادی کی کثافت میں توازن بڑی حد تک بگڑ گیا، کیوں کہ بہت سے گاؤں وبا کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوئے، جس کے نتیجے میں آبادیاتی تبدیلی واقع ہوئی، کسانوں کی تعداد بہت کم ہوگئی، زراعتی پیداوار میں بڑی کمی آئی اور جانوروں کی نشو ونما پر بڑا اثر ہوا، ان سب کے نتیجے میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، جس کی وجہ سے معاشی حالات بد سے بدتر ہوئے، کمزور دل تاجروں اور کاریگروں نے اس بحران سے فائدہ اٹھانا شروع کیا اور اپنی مال داری میں اضافہ کرنے کے لیے بنیادی ضرورتوں کے ساز وسامان کو ذخیرہ بنا کر رکھنے لگے، جب کہ دوسری طرف محتاج اور فقیر چوری کرنے پر مجبور ہوئے، جس کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پیدا ہوگئی، اس وبا کی وجہ سے بہت سے متقی اور دین دار لوگ، صالح علماء بھی انتقال کرگئے، جس کی وجہ سے دینی مرجعیت کو بھی زوال ہوا، یہاں تک کہ اس زمانے میں لوگ شعبدہ بازوں اور کاہنوں کی طرف رجوع ہونے لگے تاکہ ان کے پاس اپنے روحانی خلا کو پورا کرسکیں۔ (الطراونۃ۲۰۱۰ ص۴۶۔۵۴)
مسلمانوں نے ان وباؤں کا مقابلہ کیسے کیا؟
طاعونِ عمواس کے موقع پر بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمان طاعون کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سرگرم ہوئے:’’جب تم کسی علاقے کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ، اگر کسی علاقے میں طاعون ہو اور تم وہیں پر ہوں تو وہاں سے بھاگتے ہوئے مت نکلو‘‘۔ اس حدیث میں آج جو سائنسی اور عملی طور پر وباوں کے مقابلے کے مقصد سے لاک ڈاؤن کیاجاتا ہے اس کی طرف واضح اشارہ ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ حکم نہیں دیا ہے کہ اس علاقے میں نہ جائیں جہاں پر وبا پھیلی ہے، بلکہ اس کے بعد یہ بھی حکم دیا ہے کہ طاعون زدہ علاقے سے نکلا بھی نہ جائے، تاکہ اس متعدی بیماری کو پھیلنے سے بچایا جاسکے، کیوں کہ لوگوں کے وہاں سے نکلنے کی صورت میں وبا دوسرے علاقوں تک پہنچ جائے گی۔ اسی وجہ سے یہ حدیث ایک معجزہ ہے جس کو طبِ نبوی کے رجسٹر میں شامل کیا جانا چاہیے۔اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ واپس ہوئے، شام میں نہیں گئے، جب کہ آپ شام جانے کے ارادے سے سفر پر نکلے تھے۔اسی طرح ابو عبیدہ بن جراح اور دیگر صحابہ شام میں وبا پھیلنے کے بعد رکے، وہاں سے نہیں نکلے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ شام کے گورنر ہوئے تو اس کے بعد ہی وبا ختم ہوئی، انھوں نے لوگوں میں خطاب کیا اور کہا: اے لوگو! جب یہ وبا آتی ہے تو آگ کے بھڑکنے کی طرح بھڑکتی ہے، اس لیے پہاڑوں میں جاکر اس سے بچو۔ پھر وہ خود بھی نکلے اور لوگ بھی نکلے، اور الگ الگ ہوگئے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس وبا کو دور فرما دیا۔ یہ خبر حضرت عمر کو پہنچی تو اس کو ناپسند نہیں کیا۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ نے وبا کے شکار لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونے اور ایک ساتھ نہ رہنے کا مشورہ دیا تاکہ متعدی مرض کے منتقل ہونے کا فیصد گھٹا دیا جائے اور جماعتوں کی شکل میں یہ بیماری لوگوں کو ہلاک نہ کردے، بلکہ صرف وہی ہلاک ہو جس کو یہ مرض لاحق ہوا ہے، جس کی وجہ سے دوسرے لوگ اس کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ (الصلابی ۲۰۰۵ ص۲۳۱۔۲۳۲)
بعد میں مسلمانوں نے طاعون اور وباوں سے مقابلے کے طریقوں کو ترقی دی، مملوکی عہد میں شام اور مصر کے باشندوں کو کثرت سے لاحق ہونے والی اور پھیلی ہوئی وباوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چند سلاطین اور مال دار مسلمانوں نے ثواب اور تقرب الی اللہ کے مقصد سے پورے شام میں ہسپتال بنائے، تاکہ طاعون زدہ اور بخار وغیرہ وباوں کے شکار لوگوں کا علاج کیا جاسکے، لوگ چونکہ وبا کے زمانے میں کثیر تعداد میں مر رہے تھے اور تین تین دنوں تک ان کی لاشیں اٹھائی نہیں جارہی تھیں اور بیماری منتقل ہونے کے خوف سے لوگ لاشوں کو دفن بھی نہیں کررہے تھے، چند حکام اور مال داروں نے اسلام کی تعلیمات کے مطابق جتنی جلدی ہوسکے جنازوں کو دفنانے اور انسان کے احترام واکرام کی حفاظت کی غرض سے تابوت فراہم کیے اور جنازوں کو نہلانے کے مراکز قائم کیے، جہاں مسلمانوں میں سے فقراء اور مساکین کے غسل اور کفن کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اسلامی شریعت کے مطابق ان کی تدفین عمل میں آتی تھی۔ (الطراونۃ۲۰۱۰ ص۵۵)

لاک ڈاؤن کو نافذ کرنے کا مسلمانوں کو پہلے سے تجربات ہیں، مراقش میں ۱۷۹۸ء میں طاعون پھیلنے سے پہلے مراقش کے لوگ لاک ڈاؤن نافذ کرنے اور مشرق سے آئی ہوئی وبا سے بچنے کی غرض سے کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، وہ اس وبا کو روک تو نہیں سکے، لیکن اس کو کئی سالوں تک موخر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، اس طاعون کی شروعات اسکندریہ میں ۱۷۸۳ء میں ہوئی تھی، اس وبا کے اپنے علاقے میں آنے سے روکنے میں ان تدابیر کا بڑا ہاتھ ہے جو سیدی محمد بن عبد اللہ نے اپنے علاقے کو الجزائر میں پھیلی ہوئی وبا سے بچانے کے لیے کیا تھا، انھوں نے مراقش کی مشرقی سرحدوں پر ایک فوجی چوکی بنائی تھی، اور طنجہ میں مقیم کونسل کمیٹی نے ۱۷۹۲ء میں سمندری حدود پر احتیاطی اور پرہیزی کارروائیاں شروع کردی،یہ کام اس وقت کیا گیا جب مولای سلیمان کی طرف سے جزائر جہاں اس وقت وبا پھیلی ہوئی تھی کے خلاف لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی موافقت حاصل کی گئی۔

لوگ ایسے سخت ترین مواقع پر بھی اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے اور اس کی طرف رجوع ہونے اور دعائیں کرنے سے غافل نہیں رہے، صالحین اور عبادت گزار لوگوں نے اللہ سے توبہ کرنا، اس سے مغفرت طلب کرنا اور اپنی عبادتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بہت سے لوگوں نے شراب کی دکانیں بند کرنا شروع کی، اور لوگ فحش کاموں اور منکرات سے دور ہونے لگے۔
(الطراونۃ ۲۰۱۰ص۵۷)
لاک ڈاؤن کو نافذ کرنے کا مسلمانوں کو پہلے سے تجربات ہیں، مراقش میں ۱۷۹۸ء میں طاعون پھیلنے سے پہلے مراقش کے لوگ لاک ڈاؤن نافذ کرنے اور مشرق سے آئی ہوئی وبا سے بچنے کی غرض سے کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، وہ اس وبا کو روک تو نہیں سکے، لیکن اس کو کئی سالوں تک موخر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، اس طاعون کی شروعات اسکندریہ میں ۱۷۸۳ء میں ہوئی تھی، اس وبا کے اپنے علاقے میں آنے سے روکنے میں ان تدابیر کا بڑا ہاتھ ہے جو سیدی محمد بن عبد اللہ نے اپنے علاقے کو الجزائر میں پھیلی ہوئی وبا سے بچانے کے لیے کیا تھا، انھوں نے مراقش کی مشرقی سرحدوں پر ایک فوجی چوکی بنائی تھی، اور طنجہ میں مقیم کونسل کمیٹی نے ۱۷۹۲ء میں سمندری حدود پر احتیاطی اور پرہیزی کارروائیاں شروع کردی،یہ کام اس وقت کیا گیا جب مولای سلیمان کی طرف سے جزائر جہاں اس وقت وبا پھیلی ہوئی تھی کے خلاف لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی موافقت حاصل کی گئی۔ (البزار ۱۹۹۲ ص۸۷)
ہم قرآنی نظریہ اور اسباب کو اپنانے کے نبوی طریقے کے مطابق ’’کورونا‘‘کا مقابلہ کیسے کریں؟
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان ’’وَأَنْفِقُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّھْلُکَۃِ، وَأَحْسِنُوْا إِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘(البقرۃ:۱۹۵) (اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو، اور احسان کرو، یقینا اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے) کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اللہ کی اچھی اور بری تقدیر پر راضی برضا رہ کر اور مصائب اور وباوں کے ساتھ مسلمانوں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم مندرجہ ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:
۱۔ پرہیز اور علاج کے اسباب کو اختیار کرنا ضروری ہے، اور اس بات پر یقین اور اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
۲۔ ہمیں اس بات کا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اگر ہم نے اس مرض اور مصیبت پر صبر کیا تو ہمیں اجر وثواب ملے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’طاعون ہر مسلمان کے لیے شہادت ہے‘‘۔ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو کورونا کی بیماری میں انتقال کر جاتا ہے وہ اسی طرح ہے جو طاعون کی وجہ سے مرتا ہے، جب بیمار کی نیت شہید ہونے اور مصیبت پر صبر کرنے اور ہر حال میں اللہ کا شکر بجالانے کی ہو۔
۳۔ جہاں متعدی بیماری پھیلی ہوئی ہے وہاں جانے سے بچنا ضروری ہے اور حکومتوں کی طرف سے عائد کردہ لاک ڈاؤن کے اصولوں کی پابندی کرنا ضروری ہے، کیوں کہ جو کوئی وبا کے علاقے میں ہو اور وبا کا شکار ہو تو نکلنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ نکلنے سے اس کے ذریعے صحت مند لوگوں میں بیماری منتقل ہوجائے گی۔
۴۔ آخری بات یہ کہ سرکاری اداروں اور طبی مراکز کی ہدایات کی پابندی کرنا چاہیے، کیوں کہ وہی لوگ مرض کی تفصیلات اور اس کے اثرات سے زیادہ واقف ہیں، یہ ہر ملک کے لیے ہے، اور انسانوں کو اس خطرناک وبا پر قابو پانے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرنا بہت ہی ضروری اور اہم ہے۔