بینکنگ میں بھی فرقہ واریت۔۔!

این آر او کھاتہ داروں کےلیے کے وائی سی میں مذہب کی شناخت کا لزوم غیر آئینی

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

’فیما‘ایکٹ میں آر بی آئی کی ترمیم پر ایف اے این انڈیا کا اظہار مذمت
مالیاتی احتساب کے نگران کار ادارے (FAN India) نے آر بی آئی کی جانب سے صارف کی تفصیلات (کے وائی سی) میں مذہب کی جانکاری حاصل کرنے کو فرقہ وارارانہ بینک کاری قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے اور کہا کہ اس اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آر بی آئی مکمل طور پر حکومت کی سیاسی آلہ کار بن چکی ہے اور وہ اسی نہج پر کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
ملک میں مقیم غیر ملکی مسلمانوں کے خلاف بھارتی بینک اور ویزا پینالٹی قواعد کے ذریعہ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا اور مودی حکومت نے گزشتہ 20 ماہ کے دوران متعدد قواعد و ضوابط کو تبدیل کرتے ہوئے ان شہریوں کے لیے جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں بہت ساری آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ درحقیقت یہ سارے ترمیم شدہ اصول و ضوابط واضح طور پر غیر ملکی ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی برادریوں کو مدنظر رکھ کر کیے گئے ہیں۔
یہ نئے قواعد و ضوابط ان لوگوں پر جو مدتِ ویزا ختم ہونے کے باوجود مقیم ہیں پینالٹی، بینک اکاؤنٹ کھولنے اور رہائشی املاک کی خریدی سے متعلق ہیں لیکن تینوں ممالک بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے اقلیتی شہریوں کے لیے خاص ہیں۔ اس فہرست میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے جو ملک میں قانونی طور پر رہائش پزیر ہیں۔ سینئر بینکرس اور وکلا نے اس طرح کے نئے قواعد و ضوابط پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملکی آئین کے آرٹیکل 14 کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’قانون کے سامنے ہر شخص مساوی ہے‘‘۔
دی ہندو نے 16 ڈسمبر 2019 کو سب سے پہلے ان قواعد و ضوابط میں تبدیلی کے بارے میں خبر شائع کی تھی۔ اس نے آر بی آئی کے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ آر بی آئی نے مرکز کی ہدایت پر یہ ساری تبدیلیاں کی ہیں ۔ 26 مارچ 2018 کو آر بی آئی نے فارن ایکسچینج مینجمنٹ (ایکویزیشن اینڈ ٹرانسفر آف امّوویبل پراپرٹی اِن انڈیا) یعنی غیر منقولہ جائیدادوں کی خریدی سے متعلق ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’جو کوئی بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کا شہری ہے اور جو وہاں اقلیتی براداری سے ہو جیسے ہندو، سکھ، بودھ، پارسی اور عیسائی جسے بھارتی سرکار نے طویل المیعادی ویزا (ایل ٹی وی) دیا ہو ایسا شخص بھارت میں ایک غیر منقولہ رہائشی جائیداد خرید سکتا ہے اور ساتھ ہی کاروبار کے لیے بھی وہ ایک غیر منقولہ جائیداد رکھ سکتا ہے۔ جب آر بی آئی کے ذریعہ یہ سرکلر جاری کیا گیا تھا تو اس وقت این آر سی یا سی اے بی (شہریت ترمیمی بل) کا کہیں ذکر بھی نہیں تھا۔ ریزرو بینک آف انڈیا فارن ایکسچینج مینجمنٹ (ہندوستان میں غیر منقولہ جائیداد کی خریدی اور منتقلی) کے قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں سی اے اے قانون کی منظوری سے 20 ماہ قبل ہی کر دی گئی تھیں۔
نئے قواعد کے سیکشن 7 میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت ’’طویل مدتی ویزا‘‘ (ایل ٹی وی) رکھنے والوں کو بھارت کے اندر رہائشی جائیداد خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن اس شق کی قابل اعتراض بات یہ ہے کہ ایسے لوگ جو بھارت میں دوسرے ممالک سے آ کر طویل مدتی ویزا پر رہتے ہوں اور پاکستان سے آنے والے بہت سے مسلم ایل ٹی وی (مثلاً ایسے بھارتی شہری جن کے پاکستانی شوہر یا بیوی ہوں) ان پر یہ شق لاگو نہیں ہوتی۔ نئی شق صرف ان تین ممالک کی اقلیتوں پر لاگو ہوتی ہے یعنی ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی۔ موجودہ قوانین کے تحت تمام پاکستانی، افغانی اور بنگلہ دیشی شہریوں کو بھارت میں رہائش اختیار کرنے اور غیر منقولہ جائیداد رکھنے پر پابندی عائد ہے۔ تو پھر اس طرح کے نئے اور غیر منطقی ضوابط لانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
موجودہ قوانین کے تحت ہمیشہ ہی سے غیر ملکیوں کو کچھ ضروری رہائشی شرائط جیسے 180 دن سے زیادہ ملک میں قیام کی شرط پر بھارت میں جائیداد خریدنے کی اجازت رہی ہے۔ لیکن بھارت سرکار متعدد ممالک کے غیر ملکی شہریوں کو قومی سلامتی کی وجوہات کی بنا پر انہیں جائیدادوں کی خرید و منتقلی پر پابندیاں عائد کرتی رہی ہے یہاں تک کہ چین اور ایران کے شہریوں پر بھی یہ پابندی عائد ہے وہ بھی مخصوص اجازت ناموں کے بغیر بھارت میں جائیداد نہیں خرید سکتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آر بی آئی نے ان تینوں ممالک کے غیر مسلم شہریوں کی مدد کے لیے چور دروازے سے چپ چاپ یہ تبدیلیاں کی ہیں اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اس طرح کی تبدیلیوں کے ذریعے ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو متذکرہ مراعات سے محروم رکھا گیا ہے۔
قواعد و ضوابط کی یہ تبدیلیاں شہریت (ترمیمی) ایکٹ کی تناظر میں کافی اہمیت اختیار کر چکی ہیں۔ اس ایکٹ کے تعلق سے اب تک صرف یہی سمجھا جا رہا تھا اور حکمراں جماعت یہی باور کرارہی تھی کہ یہ ایکٹ ان تینوں ممالک کے چھ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ کو شہریت دینے تک ہی محدود ہے۔ لیکن اب یہ ظاہر ہونے لگا ہے کہ اس کی خباثتیں اور امتیازی سلوک بینک کاری کے نظام تک پہنچ گیا ہے۔
فنیانشیل اکاونٹبلیٹی نیٹ ورک انڈیا نے آر بی آئی کی فارن ایکسچینج مینجمنٹ ریگولیشنز (فیما) ایکٹ میں ترمیم کی سخت مذمت کی ہے جس میں این آر او (غیر رہائشی) اکاؤنٹ کے حامل صارفین کے لیے کے وائی سی میں اپنی مذہبی شناخت کے اظہار کو بھی لازم کر دیا گیا ہے۔
(ایف اے این انڈیا)، سماجی تنظیموں اور مختلف یونینوں نے اجتماعی طور پر آربی آئی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان ترمیمات سے ایسا لگتا ہے کہ آر بی آئی بھارت جیسے سیکولر ملک کے شہریوں کے بیچ مزید سماجی تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جب کہ ملک کا بینک کاری نظام شدید بحران کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ آر بی آئی کی جانب سے نافذ کی جانے والی یہ تبدیلیاں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو عملی طور پر نافذ کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ قواعد ملک میں قانونی طور پر مقیم پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں اور ملحدوں کو بھارت میں جائیداد خریدنے سے روکنے کے لیے ہی وضع کیے گئے ہیں۔
آر بی آئی کے ان اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی آلہ کار بن چکی ہے اور حکومت اس کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ عوامی شعبے کی کمپنیوں کو خانگی اداروں کو بیچ کر، خانگی سرمایہ کاری کو فروغ دے کر اور سرکاری بینکوں کو کمزور کر کے اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ حکومت کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئی ہے۔ کے وائی سی کی تفصیلات میں مذہب کو شامل کرنے کا فیصلہ ’’غیر آئینی قدم‘‘ ہے یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ آر بی آئی اس طرح کی ترمیمات کر کے حکومت کے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر کار بند ہے۔ (ایف اے این انڈیا) اور 45 دیگر تنظیموں نے آر بی آئی سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے والے قواعد وضوابط واپس لے، کیوں کہ مذہبی بنیادوں پر بنیک کو اپنی خدمات نہیں دینی چاہئیں۔
دوسری طرف وزارت خارجہ نے 2019 کے اوائل میں جرمانے کے نئے قواعد و ضوابط متعارف کروائے ہیں جس تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے لوگ جو ویزا مدت ختم ہونے پر بھی ملک میں قیام پذیر ہو گئے ہوں ان پر جرمانے عائد کرنے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ نئے ضوابط کے تحت ان ممالک کے اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو غیر مسلموں کے مقابلے میں 200 گنا زیادہ جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
ایف آر آر او (غیر ملکی علاقائی رجسٹریشن آفس) کے قواعد کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادریوں کے لیے ’’ اوور اسٹے جرمانہ‘‘ یعنی اپنی مدت سے زیادہ ٹھہرنے کا جرمانہ دو سال سے زیادہ مدت کے لیے 500 روپے، 91 دنوں سے دو سال تک کے لیے 200 روپے اور 90 دنوں تک کے لیے 100 روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ مسلمان ہوں یا ان کا کسی بھی مذہب سے تعلق نہ ہو تو ایسی صورت میں انہیں زائد رقم ادا کرنی ہوگی۔ اگر وہ دو سال سے زیادہ کی مدت ٹھہرتے ہیں تو انہیں 500 ڈالر ادا کرنا ہوگا۔ 91 دنوں سے دو سال تک کے لیے 400 ڈالر اور 90 دنوں تک کے لیے 300 ڈالر ادا کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لیٹن داس اگر ایک دن کے لیے بھی زیادہ ٹھہرتے ہیں تو انہیں صرف 100 روپے ادا کرنا ہوں گے، جبکہ سیف الحسن اگر ایک دن کے لیے بھی زیادہ ٹھہرتے ہیں تو انہیں 21000 روپے ادا کرنا پڑیں گے۔ اس طرح کے غیر منصفانہ قواعد و ضوابط سے بین الاقوامی سطح پر بھارت کے سیکولر کرادار پر ایک بڑا سوالیہ نشان پیدا ہو گیا ہے۔ بنگلہ دیش جو ہمارا پڑوسی دوست ملک ہے اس نے ان غیر منصفانہ ضوابط پر شدید تنقید کی ہے۔ کیا اس طرح کے غیر معقول قواعد سے ہمارے اور پڑوسی ملک کے تعلقات مزید خراب نہیں ہوں گے؟ مودی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے فرقہ وارانہ و مذہبی منافرت کے نظریات کو ترک کر کے ملک کے سیکولر کرادار کو اپناتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کریں۔
***

سی اے اے کے تعلق سے اب تک صرف یہی سمجھا جا رہا تھا کہ یہ ایکٹ تین ممالک کے چھ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ کو شہریت دینے تک ہی محدود ہے لیکن اب یہ ظاہر ہونے لگا ہے کہ اس کی خباثتیں اور امتیازی سلوک بینک کاری کے نظام تک پہنچ گیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020