بھارتی معیشت میں زراعت کا زبردست رول

خود کفیل ہونے کا سنہرا موقع

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

عالمی وبائی قہر کی وجہ سے جہاں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے سابقہ مختلف سیکٹروں کی ترقی کی شرح میں تنزلی کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے وہیں ملک کے زرعی شعبے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافہ کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ صنعت تنظیم فکی (FICCI)کے اکانومک آوٹ لک سروے کے مطابق جاریہ سال 21-2020میں زرعی شعبے میں شرح نمو 2.7فیصد اور خدمت کے میدان میں 2.8فیصد کی کمی کا اندازہ ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ریکوری صنعتوں میں 11.4فیصد اور خدمت کے میدان میں 2.8فیصد کی کمی کا اندازہ ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ریکوری کو سرعت دینے کے لیے حکومت دوسرے راحت پیکیج کی طرف قدم بڑھاسکتی ہے۔ اکانومک آوٹ لک سروے کے مطابق جاریہ مالی سال میں زراعت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ شرح نمو 4فیصد تک جاسکتی ہے اور انتہائی خراب مظاہرہ پر زراعت میں 0.8فیصد کی گراوٹ بھی آسکتی ہے۔ 2.7فیصد کی شرح ان دونوں کے درمیان کا ہے۔ خدمت کے شعبے میں اس مالی سال میں زیادہ سے زیادہ 0.1فیصد ضافہ کی امید ہے۔ انتہائی خراب مظاہرے میں یہ کمی 2.3فیصد پر بھی سکڑ سکتی ہے۔ اکانومی آوٹ لک کے مطابق مالی سال 21-2020میں تھوک، مہنگائی کی شرح میں 0.3فیصد کی گراوٹ رہ سکتی ہے۔ وہیں خردہ مہنگائی کی شرح میں 4.4فیصد سے بھی زیادہ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جون میں خردہ مہنگائی 6.09 فیصد تک پہنچی تھی۔ ماہرین اقتصادیات کے ذریعے معیشت میں رفتار لانے کے لیے تک جو بھی ترکیبیں اختیار کی گئیں ان سے کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ اس لیے حکومت کی طرف سے دوسری راحت پیاکیج کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے۔ خاص کر غریبوں کے کھاتوں میں براہ راست رقم ٹرانسفر ہونی چاہیے تاکہ طلب اور کھپت بڑھ سکے۔
باضابطہ اصلاح کے ذریعہ کسانوں کی حالت اور سمت بدلنے میں لگی حکومت کی کوششوں سے زراعت کو قوت ملنے لگی ہے۔ اب زراعتی تجارت پر کسا قانونی شکنجہ ٹوٹنے لگا ہے۔ زراعی پیداوار میں مشغول کمپنی آئی ٹی سی کا کہنا ہے کہ اس شعبے کی عالمی زنجیر نے بہتری کے لیے گھریلو، زراعت کے منجملہ ترقی کی ہے۔ آئی ٹی سی کے ڈویژنل چیف اگزیکٹیو (اگری بزنس) رجنی کانت رائے نے ایک ورچوئل پریس کانفرنس میں زور دے کر کہا کہ حکومت کی اصولی تبدیلی سے زرعی شعبے کے چھوٹے صنعتکاروں کو کافی مدد ملے گی جو پنچایت سے لے کر بلاک تک میں ملنی چاہیے۔ اس لیے حکومت کی مداخلت کا ختم ہونا ضروری تھا۔ کسانوں تک بازار کو لے جانے کی ذمہ داری کمپنیوں کی ہے جس سے طلب کی بنیاد پر پیداوار ہوا کرے گی۔ حکومت کی طرف سے پہلی بار زرعی شعبہ میں 1.60لاکھ روپے کی تقسیم خاص خاص فصلوں کے لیے کی گئی ہے۔ رائے نے کہا کہ کمپنی کی ای چوپال کا چوتھا ششماہی شروع ہوا۔ جس میں نئی نسل کے کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے سلسلے میں کنیکٹویٹی اور ٹکنالوجی کے مد نظر ویلیو چین کو آگے بڑھایا جائے گا۔ کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے سلسلے میں ’’بارہ ماہ ہریالی‘‘ پروگرام شروع کیا گیا ہے اس میں کھیت کی ضرورت اور پیداوار کو بڑھانے کے لیے مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے بہار اور اتر پردیش کے کھیتوں کو دو فصل کے بجائے کثیر الفصل بنایا جائے گا۔ کسانوں کے پیداورا اور زمین کی صلاحیت بڑھانے سے ہی کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے۔ ایک سوال کے جواب میں رائے نے کہا کہ قانونی شکنجہ ختم ہونے سے تجارت میں کھلا پن آئے گا۔ نجی تجارت کو مقامی سے عالمی بازار تک بے جھجھک کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ پروفیسر رگھو رام راجن نے بھی کہا کہ ایک چیز جو ہمارے ملک کے لیے مثبت ہے کہ زرعی شعبہ اچھا مظاہرہ کررہا ہے۔ حکومت نے اس سمت میں کچھ اصلاح کی ہے جس کی عرصہ سے باتیں ہورہی تھیں۔ زراعت کے شعبہ میں حکومت نے 65 سال پرانے ’’اسپیشل کموڈٹی ایکٹ‘‘ میں اصلاح کی۔ جس سے اناجوں، کھانے کے تیل، تلھن، پیاز اور آلو جیسی اشیاء کو اس دائرے سے الگ کر دیا گیا ہے۔
کسان کافی جوش میں ہیں۔ کسانوں نے خریف فصل کی بوائی کا کام جولائی کے پہلے ہفتے میں 55 فیصد مکمل کرلیا ہے۔ گزشتہ سال جولائی کے وسط تک محض 38فیصد تک ہی بوائی کا کام ہوپایا تھا۔ پھر اگست کا مہینہ آگیا۔ اصل وجہ ہے کہ جنوب مغرب کے مانسون کا آغاز وقت پر ہوا نتیجے میں ملک میں 14فیصد سے زیادہ بارش ہوئی۔ اس طرح کسانوں کو رطوبت والی زمین میسر آئی جس سے ہر طرح کی فصل دھان، دالیں، باجرہ، مکئی، جوار، سویا بین، مونگ پھلی اور کپاس وغیرہ کے کاشت میں کافی اضافہ ہوا۔ کھاد کی فروخت کہیں کہیں دگنی رہی۔ ماہ نومبر سے ہی کسانوں کو زمین کو زیادہ ہی کام میں لگانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس طرح ملک میں زور دار خریف پیداوار کی امید ہے۔ اس لیے ٹڈیوں سے حفاظت کے لیے حکومت ایجنسیوں کو 4تا5 ہفتوں تک احتیاطی کنٹرول کے طریقے اپنانے ہوں گے۔ اچھا مانسون اور ربیع کے ریکرڈ فصل سے ٹریکٹر کی فروخت بڑھی ہے۔ مئی کے مقابلے می
ں جون میں بہتری آئی۔ اچھی فصل اور سرکاری امداد سے دیہی علاقوں کی آمدنی بڑھی کیونکہ اچھے مانسون، ربیع کی فصل کی ریکارڈ پیداوار، خریف کی فصل کی زیادہ کاشت اور حکومت کی کوششوں سے دیہی علاقوں میں آمدنی بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ اس کا فائدہ ٹریکٹر صنعت کو بھی ہوا ہے۔ مئی کے مقابلے میں جون میں ٹریکٹر فروخت میں 52فیصد کا اضافہ ہوا۔ جبکہ سالانہ بنیاد پر اس میں 20فیصد کی ترقی ہوئی۔ فروخت میں زیادتی کی وجہ سے جون کے مہینے میں ٹریکٹرس کی ریکارڈ تیاری بھی ہوئی ہے اور یہ بڑھ کر 20ماہ کی اونچائی پر چلی گئی ہے۔ ٹریکٹر اینڈ ٹکینائزیشن اسویس ایشن (ٹی ایم اے) کے مطابق جون میں ٹریکٹر کی گھریلو فروخت 92.888کی رہی جبکہ مئی میں 604441 یونٹس فروخت ہوئیں۔ ٹی ایم اے کے صدر ٹی آر کشون کا کہنا ہے کہ دیہی آبادی پر کورونا وائرس کا اثر زیادہ نہیں پڑا ہے۔ فصل کٹائی، پروکیورمنٹ میں اصلاح اور کسانوں و دیہی باشندوں کو منیریگا کے طور پر حکومت کی طرف سے مدد دیے جانے پر دیہی علاقے میں لوگوں کے خیالات میں اصلاح ہوئی ہے۔ نتیجتاً ایگری ان پٹ کاروبار میں مثبت ٹرینڈ بنا ہے۔ اسی وجہ سے ٹریکٹر کھاد اور ایگری کلچر ٹائر کی فروخت بڑھی ہے۔
2019-20میں زرعی شعبہ میں موجودہ قیمت کے حساب سے 11.3فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے مجموعی سالانہ جی ڈی پی میں 7.9فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔ نیتی آیوگ کے ممبر رمیش چند کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ 81-1980کے بعد دیگر شعبوں کے مقابلے میں زرعی شعبے میں بہت تیزی سے ترقی دیکھی گئی ہے۔ اور یہ واضح ہے کہ پہلی سہ ماہی (اپریل تا جون) میں زرعی پیداوار میں اضافہ غیر زرعی پیداوار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اب صاف ہوگیا ہے کہ ہماری معیشت میں زراعت کو خاص مقام حاصل ہوگیا ہے کیونکہ ملک گیر تالہ بندی میں اسی شعبہ نے بہترین مظاہر کیا ہے۔ گیہوں کے ریکارڈ توڑ پیداوار کا کیا کہنا۔ یکم مئی تک سرکاری ایجنسی نے 14.3ملین ٹن نئی فصل کی خریدی کی ہے جس کی کم تر بنیادی قیمت (بیس ویلیو) 27500کروڑ روپے ہوتی ہے اور 20 ٹن اس ماہ کے اخیر تک کی خریدی پکی ہوگئی۔ زرعی تگ و دو عام طور سے تالہ بندی سے غیر متاثر رہی۔ کیونکہ کھاد کی خریداری اپریل میں بھی زور دار طریقے سے چلتی رہی اور اس کی فروخت میں 45فیصد کا اضافہ ہوا۔ زراعت کا افراط زر کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار رہتا ہے کیونکہ غذائی اجناس کی سپلائی اور تیل کی کم قیمت آر بی آئی کو ایک بہتر پالیسی بنانے میں مدد کرتی ہے مگر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ سرکاری ٹیکسوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 10کروڑ خاندانوں کو زراعت اور مویشی پالن کے ذریعہ 43فیصد کی اوسطاً آمدنی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی غیر زرعی شعبوں میں ترقی بھی کسانوں کے لیے ضروری ہے جو صنعتوں کی ترقی سے ہی ممکن ہے۔ اس لیے زراعت ہی معیشت کی اصل بنیا دہے۔ یہ ہمارے ملک کی خوش نصیبی ہے کہ ملک میں 71لاکھ ٹن اناج (گیہوں اور چاول) سرکاری گوداموں میں پڑے ہوئے ہیں اگر صرف 20لاکھ ٹن اناج ہی مہاجر مزدوروں، غریب اور مفلس عوام میں تقسیم کردیا جائے تب بھی اناج بچ جائے گا۔ایک مطالعہ کے مطابق ہماری قومی ضرورت کے تین گنا سے بھی زیادہ اناج کا ذخیرہ ہونے کے باوجود 80فیصد مہاجر مزدوروں کوغلہ نہیں ملا۔ بھلا ہو نومبرمیں بہار الیکشن کا جس کی وجہ سے وزیر اعظم مودی نے پانچ ماہ تک 80 کروڑ غریب لوگوں تک گیہوں چاول اور دال پہونچانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ سستے مزدوروں کو گاؤں سے لاکر صنعتوں میں کام کے لیے تیار کیا گیا اور زراعت سے بے توجہی برتی گئی۔ کسانوں کو ان کے غلے کی صحیح قیمت بھی نہیں دی گئی۔ پھر بھی کسان بڑی محنت کرکے بڑے پیمانے پر غلہ اگاتے رہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ تالہ بندی کے باوجود ربیع کی فصل بہتر ہوئی۔ ہماری 70فیصد آبادی گاؤں اور زراعت سے وابستہ ہے۔ مگر پچھلے کئی دہائیوں سے زراعت کو ترقی دینے پر کم ہی توجہ دی گئی۔ یہی زراعت 50فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتی ہے مگر 12-2011 سے 18-2017کے درمیان زرعی شعبہ میں مجموعی گھریلو پیداوار اور اخراجات کا تناسب محض 0.3تا 0.4 فیصد رہا ہے۔ اس کورونا وائرس کی مصیبت کے وقت مراعاتی معیشت مضبوط ستون کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس لیے اس محاذ پر پوری توجہ سے تحقیق و جستجو کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ زراعت کو حاشیے پر ڈالنے کی کوشش خود کشی کے مترادف ہوگی۔ آرگنائزیشن آف اکانومک کوآپریشن اور ڈیولپمنٹ (او آئی سی ڈی) کا ایک مطالعہ بتاتا ہے کہ اپنے فصلوں کی مناسب قیمت نہ پانے سے بھارتی کسانوں کے 2000سے 17-2016کے درمیان 5 لاکھ کروڑ روپیوں کا نقصان ہوا۔ اگر کسانوں کو یہ رقم مل جاتی جو 2.6لاکھ کروڑ روپے سالانہ ہوتی ہے تو وہ کھیتی کو ترک کرکے شہروں کی طرف ہجرت نہیں کرتے اور بڑی تعداد میں خود کشی پر بھی مجبور نہیں ہوتے۔
کورونا وائرس کے شدت سے پھیلاؤ کے دوران زرعی شعبے کو کئی طرح کی رعایتیں دیے جانے کے باوجود کسانوں کو بہت بڑے خسارےکا اندیشہ ہے۔ انڈین کونسل فار اگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) نے کورونا بحران کے دور میں زرعی شعبے پر ہوئے اثرات کے تعلق سے جو ابتدائی جائزہ لیا ہے ان کے اعداد و شمار حیرت میں ڈالنے والے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے باغبانی کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ ٹرانسپورٹیشن کی کمی اور بازار کا بند ہونا نقصان کے اہم اسباب ہیں۔ کھٹے پھلوں کے ریسرچ کے مرکزی ادارے واقع ناگپور کے مطابق کھٹے پھلوں کی زراعت کرنے والے کسانوں کو تقریباً 2995 کروڑ روپیوں کے خسارے کا اندیشہ ہے۔ نیشنل آرکڈ ریسرچ سنٹر، کے مطابق آرکڈ کے فروخت میں 100فیصد کی کمی آئی ہے۔ کیلا ریسرچ سنٹر، کا اندازہ ہے کہ تالہ بندی کے دوران موز کی صنعت کو 200کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ سنٹرل ٹبر فصل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ تریوانتا پورم کے مطابق کند کی کاشت کرنے والے کسانوں کو 3832لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ ہندوستانی مصالحہ جات ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کوزی کوڈ کے مطابق پوری زرعی شعبے کے مقابلے میں بیج مصالحہ فصلوں کو کم نقصان ہوا۔ نقل و حمل کی سہولت کے فقدان اور لیباریٹری ٹسٹ سہولتوں کی کمی کی وجہ سے اکسپورٹ ہونے والے مصالحوں کی قیمت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 8تا10 فیصد کی کمی آئی ہے۔ قومی دارالحکومت اور ملک کے مختلف خطوں میں پھولوں کی کھیتی کرنے والے کسانوں کو مندروں، ہوٹلس، ریسٹورنٹس، سماجی تقریبات اور شادیاں وغیرہ بند ہونے سے کافی نقصان ہوا ہے۔
مودی جی کے خود کفیل بھارت کے لیے ضروری ہے کہ ملکی زراعت کو مشن کی حیثیت سے بڑھانا ہوگا جس میں اناج اور غلوں کے پیداوار میں اضافہ کے علاوہ ایگری ان پٹس کے طور پر بیج اور کھاد کے میدان میں پیداوار میں اتنا اضافہ کریں کہ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا بشمول افریقی ممالک کو دونوں اشیاء وافر مقدار میں برآمد کرسکیں۔ نجی سیکٹر ہماری قوت ہونی چاہیے اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والی زنجیروں کو توڑیں اور اس سلسلے کی قانونی جکڑ بندیوں کو بھی ختم کریں۔
***

کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے سلسلے میں ’’بارہ ماہ ہریالی‘‘ پروگرام شروع کیا گیا ہے اس میں کھیت کی ضرورت اور پیداوار کو بڑھانے کے لیے مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے بہار اور اتر پردیش کے کھیتوں کو دو فصل کے بجائے کثیر الفصل بنایا جائے گا۔کسانوں کے پیداور اور زمین کی صلاحیت بڑھانے سے ہی کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے۔