بد انتظامی نے المیہ کو مزید گہرا کردیا

حکام کی بے حسی،پولس کی بد سلوکی اور غریب عوام کی بے بسی۔ہزارہاغیر مقامی مزدور سڑکوں پر لاک ڈاون کی کہانی: پیٹ میں غذا نہیں! ہاتھ میں پیسہ نہیں! اور مددابھی پہنچی نہیں!

ابھے کمار، دلی

کورونا وبا اور پولیس کی زیادتی کے درمیان عوام پھنسی ہوئی ہے۔ میڈیا میں مسلسل اس طرح کی خبریں آ رہی ہیں کہ ملک گیر سطح پر پولیس لاک ڈاؤن توڑنے کے بہانے عام لوگوں پر ڈنڈے برسا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف عوام ضروری اشیا کی قلت سے دو چار ہیں، وہیں دوسری طرف خریداری کے لیے اگر وہ باہر نکلیں تو اس بات کا خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں پولیس ان پر ڈنڈے نہ برسا دے۔ اس بھیانک صورت حال سے امیر لوگ ایک حد تک مقابلہ کر بھی سکتے ہیں مگر مزدور، غریب اور محکوم طبقات، جن کو ہر روز کنواں کھودنا اور پانی نکالنا ہوتا ہے، زندگی اور موت سے لڑ رہے ہیں۔
حکومت کا یہ کہنا بجا ہے کہ عوام زیادہ سے زیادہ وقت اپنے گھروں میں رہیں تاکہ کورونا کے وائرس مزید نہ پھیلے۔ مگر یہ پالیسی کتنی کامیاب ہوگی یہ کہنا مشکل ہے۔ کیوں کہ گھر کے اندر وہی رہ سکتے ہیں جن کے پاس گھر ہیں۔ حکومت سے کون پوچھے کہ بھارت میں لاکھوں لوگوں کو گھر میسر نہیں ہیں اور وہ کُھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سڑک، فٹ پاتھ، زینہ، بڑے پائپ اور فلائی اوور کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، بھارت میں 18 لاکھ لوگ بے گھر ہیں، جن میں 52 فی صد شہروں میں رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں 7 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو صحیح طریقے کے گھر نصیب نہیں ہے۔ ان کے لیے چھت فراہم کرنا تو دور کی بات حکومت نے الٹا 53 ہزار سے زائد گھروں کو سال2017 میں منہدم کرا دیا، جس سے 2 لاکھ اور 60 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے۔ یہی نہیں آفت اور تشدد کے دیگر واقعات میں 29 لاکھ لوگ اپنے مکانوں سے اجڑ گئے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں نام نہاد تجاوزات اور شہر کو خوبصورت بنانے کے نام پر غریبوں کے گھروں کو بلڈوزر چلا کر ملبے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایسی بہت سی بستیاں ابھی باقی ہیں جن کے اوپر’ڈیمولیشن‘ (انہدام) کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ جھگی جھونپڑی میں رہنے والوں کے خون اور پسینے سے شہر کے کاروبار اور کارخانے چلتے ہیں، مگر ان کی جھگیوں کو شہر کی زمین پر تجاوزات (غیر ضروری) سمجھا جاتا ہے۔ مگر حکومت اس بات کا جواب نہیں دیتی کہ دہلی میں 12 لاکھ سے زیادہ پرائیویٹ کاریں ہیں، کیا شہر کی زمین پر یہ کاریں encroachment نہیں ہیں؟ عوام کے نشیمن پر پہلے بجلیاں گرا کر، حکام اب کس منہ سے یہ فرمان جاری کر رہے ہیں کہ عوام اپنے گھروں میں بند ہو جائیں؟
اگر غریب اور مزدور لوگ گھروں کے اندر بند ہو بھی جائیں تو وہ کھائیں گے کیا؟ حکومت کو بخوبی معلوم ہے کہ ملک کے زیادہ تر مزدور ‘غیر منظم شعبہ میں کام کرتے ہیں جہاں ان کو کسی طرح کے سماجی تحفظات دستیاب نہیں ہیں۔ نہ صرف ان کو مزدوری کم ملتی ہے، بلکہ ان کے لیے رہائش گاہ، بچوں کے لیے تعلیم، صحت سے متعلق سہولتیں، پنشن وغیرہ کچھ نہیں ملتا۔ مالک کی مرضی سے ان کو نوکری پر رکھا جاتا ہے اور باہر کر دیا جاتا ہے۔ ان سے کام بھی آٹھ گھنٹوں سے کہیں زیادہ لیا جاتا ہے۔ اگر حکومت ان مزدوروں کو یہ ہدایت دے رہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں تو اسے ان کے کھانے کا بھی تو انتظام کرنا چاہیے۔ ورنہ کورونا وائرس سے پہلے ہی وہ بھوک سے مر جائیں گے۔ مگر ابھی بھی حکومت ان غریبوں کی مدد کے لیے سامنے نہیں آئی ہے۔ نام نہاد کچھ راحتی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے مگر اس کے فائدے زمین پر اترتے نہیں دکھائی دیتے۔ حکومت امدادی کاموں سے پیچھے چلی گئی ہے اور خاکی وردی والوں کو سامنے لا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکی ہے۔ مگر پولیس بھی ان کی مدد کرنے کے بجائے ان پر قہر برپا رہی ہے۔
جو لوگ بڑے شہروں میں محنت اور مزدوری کرا کے اپنا پیٹ بھرتے تھے وہ آج روٹی کے لیے محتاج ہو گئے ہیں۔ جس شہر کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا اور اپنے خون پسینے سے سینچا تھا، آج وہ شہر ان کو اکیلا مرنے کے لیے چھوڑ چکا ہے۔حالات کے ماروں کے پاس اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ مگر ان کا وطن بھی تو بہت دور ہے۔ ریل بند ہو گئی ہے بسیں بند ہو گئی ہیں۔ اس پریشانی کے عالم میں بہت سارے لوگوں نے پیدل ہی سفر طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو لوگ نکل پڑے وہ بھی راستے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پولیس الٹا ان پر ڈنڈے برسا رہی ہے۔مزدوروں اور مسافروں پر پولیس زیادتی کی خبریں کئی ریاستوں سے آ رہی ہیں۔ ہر طرف پولیس انہیں راستے میں روک کر مار رہی ہے اور ان کو آگے جانے سے منع کر رہی ہے۔
جو لوگ ابھی بھی شہر میں موجود ہیں ان کی حالت بھی بہت خراب ہے۔ ان کے سامنے فاقہ کشی منہ کھولے کھڑی ہے۔ ایسے لوگوں کو حکومت کی طرف سے مدد ملنی چاہیے تھی اور ان کے لیے کھانے کا انتظام ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ جب وہ کچھ خریدنے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو الٹا پولیس ان پر زیادتی کرتی ہے اور ان کو مارتی پیٹتی ہے۔ ان کو کورونا وائرس کے خلاف چل رہے لاک ڈاؤن توڑنے کا قصوروار سمجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پولیس اور حکام کی یہ مزدور اور غریب مخالف ذہنیت دیکھیے کہ وہ ہر مزدور کو کورونا کے وائرس سے متاثرہ مریض سمجھتی ہے اور اسے سماج کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے۔ مگر اس طرح کا رویہ وہ امیروں کے خلاف اختیار نہیں کرتی۔ حالانکہ یہ بیماری امیر اور غریب میں فرق نہیں کرتی اور آج اس کی زد میں سبھی آئے ہوئے ہیں۔ بہت سارے بڑے لوگ جو کورونا وائرس کی بیماری میں مبتلا بھی پائے گئے تھے انہوں نے بڑی پارٹیاں بھی کیں لیکن ان کے اوپر اس طرح کی کوئی پابندی نہیں دیکھی گئی، جس طرح کی پابندیاں مزدوروں کے اوپر لگائی جا رہی ہیں۔ یہ سب سماج میں موجود طبقاتی تعصب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ہفتے بھر سے جاری اس لاک ڈاؤن میں مزدور اور مسافر کے علاوہ، ٹھیلا اور فٹ پاتھ پر دکان لگانے والے سبزی اور میوہ فروش بھی پولیس کے ڈنڈوں کے شکار بنے ہیں۔ پانی، ایل پی جی، خوردنی اشیا کی سپلائی کرنے والے لوگ، گوشت فروش بھی پولیس کے ظلم کا شکار بنے ہیں۔رہائشی علاقوں میں جو لوگ غریب ہیں یا جن کے گھر شمال مشرقی ریاستوں میں ہیں ان کو بھی ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے۔ پولیس رہائشی علاقوں کے باشندوں کے ساتھ برا سلوک کر رہی ہے۔ بعض اوقات مشتبہ مریضوں کے ساتھ بھی انتہائی غیر انسانی طریقوں سے سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کی پولیس اپنے قانونی فریضہ کو انجام دینے میں پھر ناکام ہو رہی ہے۔ ان کے اندر تعصب اس قدر بھرا ہوا ہے کہ ان کی نگاہ میں مزدور، غریب اور محکوم طبقے سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی حیثیت دوئم درجے کی شہریوں کی ہے۔ پولیس اصلاحات کی بات برسوں سے ہو رہی ہے مگر آج بھی یہ صرف کاغذوں اور کمیشن کی رپورٹوں تک کی محدود ہے۔ جمہوری ملک میں پولیس کا غیر جمہوری طرزِ عمل مناسب نہیں ہے۔مزدوروں کے درمیان کام کرنے والی تنظیم مزدور بگل نے سرحد پر پھنسے اور پولیس کی زیادتی جھیل رہے کچھ مزدوروں کا حال ایک ویڈیو کے ذریعے سامنے لایا ہے۔27 مارچ کو رات 11 بجے بگل نے دو ویڈیوز مزدور کے فیس بک پیج پر پوسٹ کیے۔ ان میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں مزدور دہلی اور اتر پردیش کی سرحد کالیندی کونج کے پاس پولیس کے ڈنڈوں سے چوٹ کھا کر وہیں رکے ہوئے تھے۔ بارش نے ان بے گھروں کے حالات کو مزید بگاڑ دیا۔ مزدوروں نے اپنی حال زار کچھ یوں بیان کی: ’’پولیس ڈنڈے سے مار رہی ہے اور ہمیں واپس کر رہی ہے‘‘۔ مزدوروں نے یہ بھی کہا کہ وہ کئی گھنٹوں سے کچھ نہیں کھائے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کسی طرح گھر لوٹ جائیں۔ ان میں ایک مزدور نے کہا کہ ’’پولیس بارڈر پار نہیں کرنے دے رہی ہے۔ پولیس والے مار رہے ہیں اور بھگا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آگے نہیں جانے دیں گے‘‘۔ مزدوروں میں بھی سب سے زیادہ تشویشناک حالت خواتین اور بچوں کی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ خواتین مزدور سرحد پر روک لی گئی ہیں۔’’ یہاں بھی پولیس بارڈر کراس کرنے نہیں دے رہی ہے‘‘۔خواتین مزدور کے پاس کھڑے ایک نوجوان مزدور سے جب یہ پوچھا گیا کہ بارش ہو رہی ہے آپ اس وقت کہاں جائیں گے؟ آپ بے گھروں کے لیے بنے شیلڑ میں کیوں نہیں گئے؟ تو ان کا جواب تھا ’’معلوم نہیں ہے۔ پولیس والوں نے کچھ نہیں بتلایا‘‘۔ خواتین مزدور خاموشی کے ساتھ کھڑی تھیں اور سب کچھ سن رہی تھیں۔ ان کے پاس دو ننھے بچے ماسک لگائے کھڑے تھے۔ ان کے قریب کھڑی ایک اور خاتون اپنی جھنجھلاہٹ کو روک نہیں پائی اور بولی کہ ’’میرا راشن کارڈ یو پی کا ہے مجھے گروگرام میں راشن کیسے ملے گا؟‘‘
اس طرح کی خبریں بھی آئی ہیں کہ پولیس نے سڑک سے گزر رہے غریب لوگوں کو سزا کے طور کہا کہ وہ اپنے بیگ کو پیٹھ پر رکھ کر مرغا اور مینڈک کی طرح کودتے رہیں۔ بعد میں بدایوں کے ایس ایس پی نے اس واقعے کی تفتیش کا حکم جاری کیا ہے۔
آسام میں بھی پولیس نے شہریوں کو بری طرح پیٹا۔ 25 مارچ کے انڈیا ٹوڈے میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق کریم گنج، نلباری، کامروپ اور ناگاؤں میں پولیس نے امتناعی احکام کی خلاف ورزی کے الزام میں لاٹھی چارچ کیا۔ بہت سارے لوگوں کو حراست میں بھی لیا گیا اور بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ 26 جنوری کے’ اکنامک ٹائمز‘ میں شائع ایک خبر میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرناٹک کے بلگام کی ایک مسجد میں پولیس نے نمازیوں کو ڈنڈے سے بری طرح پیٹا۔ اس خبر کے ساتھ اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں پولیس کی زیادتی کھل کر سامنے آئی ہے۔ پولیس مسجد کی گیٹ پر ڈنڈے لے کر کھڑی تھی اور جیسے ہی نمازی باہر نکل رہے تھے وہ ان پر ڈنڈے برسا رہی تھی۔ لوگ افرا تفری میں بھاگ رہے ہیں۔ بہت کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے پولیس کی مار نہ کھائی ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر لوگ لاک ڈاؤن کی ہدایت کے باوجود مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے گیے تھے تو اس کا حل ان کو مارنے اور پیٹنے سے تو نہیں نکل سکتا تھا۔ پولیس کو کون بتلائے کہ اس طرح کی زیادتی سے حالات اور خراب ہو سکتے تھے، اور بھگدڑ مچ سکتی تھی جس میں لوگوں کی جانیں جا سکتی تھیں۔ پولیس اور انتظامیہ کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ خود مسلمانوں کی ملی اور مذہبی تنظیمیں لوگوں کو مسجد کے بجائے گھر سے نماز پڑھنے کی اپیل کر رہی ہیں۔ اگر کچھ لوگ ان باتوں سے نا واقف تھے تو ان کو سمجھانے کی ضرورت تھی نہ کہ ان کی جانوروں کی طرح پٹائی کرنے کی؟ ۔ آج کل تو جانوروں کو بھی مارنے کےخلاف لوگوں کے اندر حساسیت پیدا کی جا رہی ہے۔آندھرا پردیش سے بھی پولیس زیادتی کی خبر موصول ہوئی ہے۔ 27 مارچ کے روز ‘ہندو اخبار نے وجئے واڑہ سے ایک درد ناک واقعہ منظر عام پر لایا ہے، جس میں پولیس والے موٹر سائیکل پر سوار ہو کر لوگوں کا پیچھا کر رہے تھے اور انہیں بڑی بے رحمی سے پیٹ رہے تھے۔ اس سے متعلق ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے جس کو دیکھ کر لوگوں میں اس بات کا غصہ ہے کہ بحران کے وقت بھی پولیس، لوگوں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آ رہی ہے۔ اسی طرح ضلع کرنول میں بھی پولیس ایک نوجوان کا پیچھا کر رہی تھی۔ نوجوان پولیس کی مار سے بچنے کے دوران ایک گڑھے میں گر پڑا جس سے اس کی موت ہو گئی۔ بہت سارے وائرل ویڈیوز میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ لاٹھی پکڑی ہوئی پولیس کس طرح لوگوں کو پکڑ پکڑ کر مار رہی ہے۔ ان سب کو دیکھ کر عوام دہشت میں ہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ اعلی افسران پولیس کو ان زیادتیوں کو روکنے کے بجائے خود اپنے ہاتھوں سے عوام کو سرِ عام مار رہے ہیں۔ ایک ڈی ایس پی نے عوام کو اس وقت مارا جب وہ ضروری اشیا کی خریداری کرنے لیے سڑک پر نکلے تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بہار میں پولیس نے ایک ٹرک ڈرائیور سونو شاہ کے پیر میں گولی مار دی۔ مقامی پولیس کی اس سے ناراضگی اس بات سے تھی کہ وہ ان کو رشوت نہیں دے رہا تھا۔ "مجھ سے کہا گیا کہ میں اپنی گاڑی کو پولیس تھانے میں لے چلوں۔ پھر پولیس نے خود اشارہ کیا کہ اگر میں5 ہزار روپیے رشوت دے دوں تو معاملہ رفع دفع ہو جائے گا” شاہ نے کہا جو کہ اسپتال میں زیر علاج ہے۔ وہ پٹنہ میں آلو سپلائی کیا کرتا ہے۔ خبر ہے کہ اس کے پیر میں گولی مارنے والے پولیس کانسٹیبل کو معطل کر دیا گیا ہے۔ 27؍ مارچ کے روز پونے سے آئی ایک اور خبر میں ایمبولینس چلا رہے 49 سالہ ایک ڈرائیور کو پولیس نے اس قدر پیٹا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر جمعہ کے روز دم توڑ گیا۔ پولیس کارروائی کے دفاع میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پولیس کو یہ لگا کہ یہ ڈرائیور اپنی گاڑی میں مسافروں کو لے جا رہا تھا۔ اگر واقعی یہ بات درست ہے تب بھی کیا پولیس کا رویہ درست قرار پائے گا؟ اس واقعے کی جانچ کے احکام دے دیے گئے ہیں۔ دریں اثنا ہماچل پریش کے شہر دھرم سالا سے بھی عوام نے پولیس زیادتی کی شکایت کی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق ریاستی پولیس ہیڈ کواٹرز میں ایک شکایت درج کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ایک سماجی جہد کار کو ‘کورونا کا مریض کہہ کر اس کی بے عزتی کی۔ یہ واقعہ بدھ کے روز رنما ہوا جب ایک پولیس انسپکٹر (جوالا مکھی ٹمپل ٹاؤن پولیس تھانہ کا ملازم ہے) نے مذکورہ سوشل جہدکار کو کورونا وائرس کا مریض قرار دیتے ہوئے بری طرح سے دھمکایا۔ کورونا وبا کے بعد پولیس والے ہی نہیں بلکہ سماج میں بہت سارے ایسے لوگ جو چھوت چھات میں یقین رکھتے ہیں ان کو اپنی غیر انسانی اور غیر مساوی رواج کو جائز قرار دینے کا ایک بہانہ مل گیا ہے۔ بھگوا عناصر سے تعلق رکھنے والے بہت سارے چھوٹے اور بڑے لیڈر اس طرح کی افواہ پھیلا رہے ہیں کہ برہمنی نظام (جو چھوت چھات کو جائز ٹھہراتا ہے) بیماریوں کو روکنے کے لیے مصافحہ کی جگہ ہاتھ جوڑ کر نمستے کرنے کو درست سمجھتا ہے اور یہ نظام زیادہ سائنٹفک ہے جسے اب دینا تسلیم کر رہی ہے! اس طرح کی افواہیں آج کل بہت زیادہ سوشل میڈیا میں گشت کر رہی ہیں۔ مثلاً دار الحکومت دہلی میں شمال مشرقی ریاستوں سے آنے والے لوگوں کے خلاف نسلی تعصب کے واقعات کافی
بڑھ گئے ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ خود مسلمانوں کی ملی اور مذہبی تنظیمیں لوگوں کو مسجد کے بجائے گھر سے نماز پڑھنے کی اپیل کر رہی ہیں۔ اگر کچھ لوگ ان باتوں سے نا واقف تھے تو ان کو سمجھانے کی ضرورت تھی نہ کہ ان کی جانوروں کی طرح پٹائی کرنے کی؟
بدھ کے روز دہلی یونیورسٹی سے متصل وجے نگر علاقے میں 40 سالہ عمر کے ایک شخص نے ایک شمال مشرقی ریاست کی خاتون کو دیکھ کر اسے کورونا وائرس کہا اور اس کے اوپر تھوکا بھی۔ بعد میں اس شخص کی گرفتاری کر لی گئی ہے۔ کٹک سے بھی پولیس کی زیادتی کی خبریں آ رہی ہیں۔ مقامی لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ پولیس ان کو اس وقت بھی پریشان کی تھی جب وہ ضروری اشیا خریدنے کے لیے اپنے گھر سے نکل رہے تھے۔ تاجروں نے بھی پولیس زیادتی کی شکایت کی ہے اور کہا ہے کہ ان کو اپنی دکان کھولنے کے دوران بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔
جہاں ایک طرف سرکار یہ کہہ رہی ہے کہ عوام کی ضرورت کی تمام اشیا مہیا کرائی جائیں گی اور کوئی بھی ذخیرہ اندوزی نہیں کرے گا وہیں دوسری طرف ان چیزوں کی سپلائی کرنے والوں نے قومی راجدھانی دہلی میں یہ الزام لگایا ہے کہ پولیس ان کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔27 مارچ کے ‘ہندوستان ٹائمز’ میں شائع ایک خبر کے مطابق، ایل پی جی، پانی پہنچانے والے اور گوشت کے دکانداروں نے پولیس زیادتی کا الزام لگایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچانک مہنگائی بڑھ گئی ہے۔
مثال کے طور پر دہلی میں 20 روپے فی کیلو بکنے والا آلو پچاس روپے کیلو بک رہا ہے، جبکہ جار میں سپلائی کیا جانے والا پانی دکانوں میں دستیاب نہیں ہے جس سے عوام کافی پریشان ہے۔
کچھ اسی طرح نویڈا میں سبزی فروشوں کے اوپر پولیس قہر بن کر ٹوٹی ہے۔ 28 مارچ کی ‘بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، سریش شاہ اور ان کے بھائی رمیش شاہ، جو نویڈا کے آس پاس گزشتہ 15 سالوں سے سبزی فروخت کر رہے ہیں، پولیس کی زیادتی کا شکار ہوئے۔ سریش کو اس قدر چوٹ آئی ہے کہ وہ اب بھی ٹھیک سے بیٹھ نہیں پا رہا ہے۔ جیسے ہی دونوں بھائیوں نے صبح صبح ٹھیلے گاڑی پر سبزی رکھی اور بیچنے کے لیے آگے بڑھے پولیس والوں نے ان کے پاس آکر گالیاں دینی شروع کیں۔ سریش اس سے پہلے کہ پولیس والوں کو کچھ سمجھا پاتا لاٹھی کی مار اس پر پڑ گئی۔ اسے پولیس والوں نے کئی بار ڈنڈے سے مارا اور اسے بھاگنے پر مجبور کیا۔پولیس کی اس زیادتی کی وجہ سے وہ اپنی سبزی نہیں بیچ سکا اور اس کا اس دن ۳ ہزار روپے کا نقصان ہوا۔”مجھے اس قدر بری طرح مارا گیا کہ آج مجھے بیٹھنے میں دقت ہو رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ میرے لیے نقصان دہ بات میرا کاروبار ہے جس سے میں ایک روز میں 300 روپیے کما لیتا تھا” سریش نے کہا۔صحافی بھی پولیس کی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں، جس کے خلاف ‘ایڈیٹر گلڈ’ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ۲۶ مارچ کو روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس نے کہا کہ پولیس کی زیادتی کی وجہ سے صحافیوں کے کاموں میں خلل پڑ رہا ہے جو کورونا وائرس کے بارے میں رپورٹنک کر رہے ہیں۔آخر پولیس کی زیادتوں کی وجہ کیا ہے؟ اور کیسے پولیس کو انسانی حقوق کی پامالی سے روکا جا سکتا ہے؟ ماضی میں بہت ساری کمیشنوں کی رپورٹس کہاں ہیں جن میں پولیس اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا مگر آج تک ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ پولیس کا رویہ حکومت بدلنے کے باوجود بھی نہیں بدلتا؟ کیرالا کے سابق ڈی جی پی این سی استھانا ان مسائل کے بارے میں دی وائر میں لکھتے ہیں کہ "یہ اور کچھ نہیں ہے بلکہ عہدوں کا غلط استعمال ہے”۔ انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ پولیس کی یہ عادت ہے کہ وہ ڈنڈے پہلے چلاتی ہے اور سوالات بعد میں پوچھتی ہے”۔ مگر ایسا بار بار کیوں کیوں ہوتا ہے؟اس سوال کا جواب وہ کچھ یوں دیتے ہیں: "تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ریاست حکمراں کے لیے بنی ہوتی ہے، نہ کہ رعایا کے لیے؟ اسی لیے ریاست کے جتنے بھی ادارے ہیں بالخصوص فوج اور پولیس، ان کا اصل مقصد عوام کو دبانا ہوتا ہے۔ عوام کو باہری خطرات اور جرائم پیشوں سے محفوظ رکھنا ان کی دوسری ترجیح ہوتی ہے”۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے ملک میں طرزِ نظام جمہوریت ضرور اپنایا گیا ہے مگر ملک کے بہت سارے ادارے، بالخصوص پولیس اور فوج آج بھی جمہوری اقدار سے میلوں دور ہیں۔ اگر ان اداروں کو عوام اور ملک کے آئین اور قانون کے سامنے جواب دہ نہیں بنایا گیا تو انسانی حقوق کی پامالی ختم نہیں ہوگی۔اتر پردیش کے مختلف ضلعوں میں کام کر چکے پولس افسر وبھوتی نرائن رائے نے بھی اپنی کتاب "کمباٹینگ کمیونل کنفلکٹز (۱۹۹۹)” میں پولیس اور انتظامیہ سے اسی جواب دہی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر بڑے افسران، جن کے دائرے حلقہ میں نا انصافی برتی جاتی ہے، ان سے جواب دہی نہیں کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی کارروائی ہوتی بھی ہے تو وہ نچلی سطح کے پولیس افسران پر ہوتی ہے۔ اکثر معاملوں میں زیادہ سے زیادہ ان کی معطلی ہوتی ہے، جو کچھ ہی دنوں کے بعد جبکہ رائے عامہ کسی اور ایشوز کی طرف مڑ جاتی ہے، رد کر دی جاتی ہے۔ یہی نہیں جو جانچ کمیشن بنتا ہے وہ بھی اپنی رپورٹ دینے میں لمبا وقت لگا دیتا ہے، جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد ان کمیشنوں پر کم ہو گیا ہے۔ اس لیے رائے نے ۲۱ جون ۱۹۶۸ کو جاری کی گئی کمیٹی، جس کی تشکیل قومی یکجہتی کونسل نے کی تھی، کی سفارشات کی روشنی میں پولیس کی ناکامیوں کی جواب دہی ضلع کے بڑے افسران جیسے ڈی ایم اور ایس پی پر رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ غور طلب ہے کہ یہ سفارشات فرقہ وارانہ تشدد اور بگڑتے ہوئے نظم وضبط کے چیلنج سے نمٹنے کے غرض سے دی گئی تھیں، مگر ان کی معنویت دیگر معاملوں میں بھی ہے۔ کیا پولیس کی زیادتوں کے لیے بڑے حکام سے ذمہ داری طلب کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے؟
(ابھے کمار نے جے این یو سے پی ایچ ڈی کی ہے)
[email protected]