ایک ملک، ایک الیکشن اور جمہوریت کا مستقبل

اپوزیشن جماعتوں کو ختم کرنے کا منصوبہ۔۔!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآ باد

 

ملک میں پھر ایک مر تبہ یہ موضوع زیرِ بحث آرہا ہے کہ سارے ملک میں ایک ہی مرتبہ انتخابات ہونے چاہئیں۔ 2014 میں پہلی مرتبہ مرکز میں بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد برسر اقتدار پارٹی کے حلقوں کی جانب سے اس بحث کا آغاز کیا گیا تھا کہ کیوں نہ عوام کو زحمت سے بچانے اور سرکاری خرچ کو کم کرنے کے لیے پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت منعقد کیے جائیں۔ اس پر سیاسی پارٹیوں سے رائے بھی طلب کی گئی تھی۔ ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیوں نے اس کے خلاف رائے دی تھی۔ بی جے پی چونکہ اس نظریے کی محرک ہے۔ اس لیے اس نے پورے ملک میں ایک ہی وقت میں الیکشن کرانے کی بھر پور وکالت کی تھی۔ گزشتہ دنوں خود وزیر اعظم نے ایک بار پھر اس موضوع کو چھیڑا ہے۔ ان کا ادعا ہے کہ ایک ملک میں ایک ہی مرتبہ انتخابات ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے پسِ پردہ بی جے پی کے عزائم کیا ہیں؟ ہندوستان جو ایک وسیع و عریض ملک ہے کیا یہ ممکن ہے کہ یہاں اس نوعیت کے انتخابات کرائے جا سکیں۔ آیا اس سے واقعی جمہوریت کی بنیادیں مستحکم ہوں گی یا پھر ہندوستانی جمہوریت دنیا کی نظر میں ایک مذاق بن کر رہ جا ئے گی۔ 130کروڑ کی آبادی والا یہ ملک دنیا بھر میں اپنی کچھ منفرد حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے دستور سازوں نے ہندوستان کو کثرت میں وحدت رکھنے والا ملک قرار دیا ہے۔ اس ملک کے مختلف علاقوں کی زبان، تہذیب اور روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دستور ہند میں ان تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملک میں ہمہ جماعتی نظام (Multi Party System) کو رائج کیا گیا۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انتخابات کے موقع پر عوام کو اپنے نمائندوں کو منتخب کر نے میں سہولت کے ساتھ آزادی بھی حاصل ہو۔ امریکہ یا برطانیہ کی طرح یہاں دو جماعتی نظام (Two Party System) نہیں ہے۔ اس طرح کے سسٹم میں رائے دہندوں کو محدود حق اختیار ہوتا ہے۔ دو میں سے کسی کم بُرے امیدوار کو منتخب کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح دستور سازوں نے ایک جماعتی نظام (One Party) کی بھی تائید نہیں کی۔ اس سے جمہوریت برائے نام ہو کر رہ جاتی ہے۔ سابقہ سویت یونین اور چین اس کی مثالیں ہیں، جہاں کیمونسٹ پارٹی کے سوا کسی اور پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد ہمہ جماعتی نظام کو لاگو کرنے کا مقصد یہی تھا کہ عوام اپنی پسند کی کسی بھی پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ یہ اس ملک کی بد قسمتی رہی کہ دستور تو ہمہ جماعتی نظام کی وکالت کرتا ہے لیکن یہاں ایک پارٹی کی حکومت ہی زمانہ دراز تک چلتی رہی۔ Single Dominant Party کے اس تصور نے کانگریس کو ایک نا قابلِ تسخیر پارٹی کے روپ میں ابھارا تھا چنانچہ ملک کی آزادی کے بعد کم و بیش نصف صدی تک کانگریس بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے مزے لوٹتی رہی۔ ایک مختصر عرصے کے لیے جنتا پارٹی کے ہاتھوں میں اقتدار آیا تھا لیکن مختلف پارٹیوں کا یہ معجونِ مرکب زیادہ دن نہیں چل سکا۔ ایک لمبے عرصے تک اقتدار میں رہنے سے کانگریس بھی وہی رنگ ڈھنگ اختیار کرتی چلی گئی جو بالآخر جمہوریت کو بھی مطلق العنانی میں ڈھال دیتا ہے۔ کانگریس نے اندرا گاندھی کے دور میں یہی چاہا تھا کہ ملک سے تمام سیاسی پارٹیوں کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے اور کانگریس جمہوریت کے نام پر اپنی من مانی کرتی رہے۔ چنانچہ یہ نعرے بھی کانگریسیوں نے لگائے کہ India is Indira, Indira is India یعنی ہندوستان ہی اندرا ہے اور اندرا ہی ہندوستان ہے۔
ہندوستانی جمہوریت کی کمزوریوں میں ایک سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ یہاں سسٹم سے زیادہ شخصیت پرستی کا رجحان عام ہے۔ اب وزیر اعظم مودی نے ایک ملک ایک الیکشن کا جو شوشہ چھوڑا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ اب ملک کی ساری سیاسی پارٹیوں کو ختم کر کے اپنا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ملک میں بہ یک وقت پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جائیں تو وہ کسی جذباتی ایشو کو عوام کے سامنے لا کر پورے ملک میں اپنی پارٹی کو اقتدار دلانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایک ملک ایک الیکشن کا نظریہ علاقائی پارٹیوں کے لیے سَمّ قاتل ثابت ہوگا۔ ہر ریاست میں علاقائی پارٹیاں اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔ اس وقت ملک کی تقریباً ہر ریاست میں علاقائی پارٹیاں موجود ہیں۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس، آندھرا پردیش میں تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس، بہار میں جے ڈی یو، یو پی میں سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی، تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور اے آئی ڈی ایم کے اور ابھی حال میں فلم ایکٹر رجنی کانت نے اپنی ایک سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ غرض یہ کہ ہندوستان کے ہر علاقے میں ان علاقائی پارٹیوں کا وجود ہے۔ اور بہت ساری ریاستوں میں انہیں اقتدار بھی حاصل ہے۔ ایسے میں بی جے پی، ایک ملک ایک الیکشن کی تجویز پیش کرتی ہے تو اس سے یہی ثا بت ہوتا ہے کہ وہ ان علاقائی پارٹیوں کو اقتدار سے دور کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ جذباتی مسائل کو چھیڑ کر بآسانی رائے دہندوں کے ووٹ بٹور سکتی ہے۔ اسی ماہ ہوئے عظیم تر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں بی جے پی نے جس جارحانہ انداز میں مہم چلائی اس سے پورے حیدرآباد کے سیاسی ماحول میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ بی جے پی اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب بھی ہوئی اور اسے 150 رکنی کارپوریشن میں 48 سیٹوں پر کامیابی بھی ملی۔ صرف ایک ہفتہ کی اس مہم کے دوران بی جے پی کے قائدین نے وہ زہر اُگلا کہ برسرِ اقتدار پارٹی کے حلقوں میں تک دراڑ پڑ گئی اور اس نے وہاں بھی اپنے پرنکال لیے۔ ٹی آر ایس جس نے 2016 حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں 99 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی اسے صرف 56 بلدی وارڈس میں کامیابی ملی۔ جب کہ ٹی آر ایس کی قیادت دعویٰ کر رہی تھی کہ اسے ایک سو سے زائد نشستیں حا صل ہوں گی۔ کم وقت میں اس نوعیت کے سیاسی فائدے بی جے پی آنے والے وقت میں ایک ملک ایک الیکشن کے ذریعہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ملک کے موجودہ جمہوری ڈھانچے کو بدلنے کے مقصد سے ہی یہ نعرہ دیا جا رہا ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے بار بار کے الیکشن کے بجائے صرف ایک مرتبہ کا الیکشن کافی ہے۔ اگر ملک میں اس نظریے کو تقویت دی جائے تو اس سے ریاستوں کے لیے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات میں قومی مسائل زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں ریاستی مسائل پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ دونوں کے بہ یک وقت انتخابات سے ریاستی مسائل کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ ایک دوسرا بڑا خطرہ یہ ہوگا کہ اگر مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کو اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ عوام کے بنیادی مسائل سے صرفِ نظر کرتی رہے گی بلکہ من مانی اقدامات کرنے لگے گی۔ سابق میں اس قسم کا تجربہ ہندوستانی عوام کو بار بار ہوتا رہا ہے۔ کانگریس جب مرکز اور ملک کی مختلف ریاستوں میں برسر اقتدار رہی تو اس نے عوامی توقعات کو پورا کرنے میں کسی قسم دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی ریاستوں میں مختلف علاقائی پارٹیاں وجود میں آئیں۔ عوام نے بھی علاقائی پارٹیوں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے انہیں حکومت بنانے کا موقع دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب بھی علاقائی پارٹیوں پر عوام کا اعتماد باقی ہے۔ بی جے پی ایک ملک ایک انتخاب کے تحت علاقائی پارٹیوں کی اہمیت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
بی جے پی نے اپنی پہلی معیاد کے دوران ملک سے کانگریس کو پوری طرح ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں وہ بڑی حد تک کا میاب بھی ہوئی۔ 135سالہ قدیم پارٹی کی آج جو حالت ہوگئی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ بہار میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس صرف 19 حلقوں میں کا میاب ہو سکی ہے۔ جب کہ اس نے 70 نشستوں پر مقابلہ کیا تھا۔ حالاں کہ وہ بہار میں ایک طویل عرصہ تک حکومت کرتی رہی لیکن آج ریاست کی سیکولر پارٹیوں سے اتحاد کرنے کے باوجود کانگریس اپنی ساکھ بچانے میں ناکام رہی ہے۔ بی جے پی ملک کی ساری ریاستوں کو اسی طرح ٹھکانے لگانا چاہتی ہے جس طرح اس نے 2014 کے عام انتخابات کے بعد ملک کو کانگریس سے ’مکت‘ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ایک ملک ایک الیکشن کے پیچھے دراصل یہی نظریہ کام کر رہا ہے کہ کسی طرح ملک کے ہمہ جماعتی نظام کو ختم کر کے ایک پارٹی سسٹم کو ملک میں لاگو کر دیا جائے۔ جب ملک میں بہ یک وقت الیکشن کرائے جائیں گے تو بی جے پی کسی نہ کسی نوعیت کے حسّاس موضوع کو اچھالتے ہوئے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی۔ 2019 کا الیکشن اس نے محض پلوامہ پر دہشت گرودں کے حملے کو موضوع بنا کر جیت لیا۔ اپنی پہلی معیاد کے دوران بی جے پی نے جو کچھ وعدے کیے تھے اس میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ اقتدار پر آنے سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ ہر غریب کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے جمع کرائے جائیں گے۔ ہر سال بڑی تعداد میں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرایا جائے گا۔ کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں گے۔ اور بی جے پی حکو مت نے بیرون ملک سے کالا دھن واپس لانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ کالا دھن تو واپس نہیں آیا البتہ وزیر اعظم نے راتوں رات نوٹ بندی کا اعلان کر کے غریب عوام کی زندگی کو مزید اجیرن کر دیا۔ ایک سو سے زائد لوگوں کی جانیں نوٹ بندی کے فیصلے نے لے لی۔ اس کے بعد سے ملک کی معیشت کو جو گہن لگا اس سے ملک کا ہر شہری بخوبی واقف ہے۔ ان ساری ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے عوام پھر بی جے پی پر بھروسہ کیسے کر سکتے تھے۔ اس لیے بی جے پی کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے امکانات موہوم ہوتے جا رہے تھے۔ ایسے میں جموں وکشمیر میں دہشت گردی کا جو واقعہ پیش آیا اس سے بی جے پی کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن مل گئی۔ چنانچہ ملک کے سارے مسائل پسِ پشت ڈال دیے گئے اور قوم پرستی کا ہوّا کھڑا کر کے بی جے پی نے اپوزیشن پارٹیوں کو انتخابی میدان میں پچھاڑ دیا۔ پلوامہ کے دہشت گردانہ واقعے پر ملک کے سارے ہی طبقوں نے بھرپور انداز میں مذمت کی تھی اور اس کارروائی کو انجام دینے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن بی جے پی نے پاکستان کے فوجی اڈّے پر سرجیکل اسٹرئیک کرنے کا دعویٰ کر کے لوک سبھا کے انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنا لیا۔ پلوامہ پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کو روکا جا سکتا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہندوستانی جوانوں کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔ بی جے پی حکومت اس حساس معاملے میں اپنی سنگین غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ملک کی عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اسی طرح کے واقعات آئندہ بھی پیش آسکتے ہیں۔ اس لیے ایک ملک ایک الیکشن کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی زبردست کوشش کی جا ری ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے اس کی تائید کے بعد بی جے پی کے دیگر قائدین بھی اس کے حق میں بیانات دینے لگے ہیں۔ اگر بی جے پی اپنے ارادوں میں کامیاب ہوتی ہے تو ملک میں جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹر شپ کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ اس لیے اپوزیشن پارٹیوں کو شد و مد سے ایک ملک ایک انتخاب کی مخالفت کرنا چاہیے تاکہ رائے دہندوں کو الگ الگ وقتوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو منتخب کرنے کا موقع ملتا رہے اسی سے جمہوریت کامیاب ہوگی۔

اسمبلی انتخابات میں ریاستی مسائل پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ دونوں کے بہ یک وقت انتخابات سے ریاستی مسائل کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ ایک دوسرا بڑا خطرہ یہ ہوگا کہ اگر مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کو اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ عوام کے بنیادی مسائل سے صرفِ نظر کرتی رہے گی بلکہ من مانی اقدامات کرنے لگے گی

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020