اپنے محلّے کی فکر کیجیے!

ابوفہد، نئی دلی

 

رسول اللہ ﷺ نے عمر بھر شب و روز کی محنت اور تگ و دو سے جو معاشرہ تشکیل دیا تھا وہ ہمارے آج کے معاشروں سے یکسر مختلف تھا اور یہی اختلاف دونوں معاشروں کو ایک دوسرے سے بہت الگ اور مختلف بنا دیتا ہے۔ رسول اللہﷺ کے تشکیل دیے ہوئے معاشرے میں نیکی کے کاموں میں سبقت کرنا، گناہوں سے بچنا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آنا نہایت آسان ہو گیا تھا۔ اس معاشرے میں نیکی کی راہ پر لے جانے والے تمام ترغیبی اور تشجیعی محرکات موجود تھے جب کہ برائی سے روکنے اور باز رکھنے والے خارجی اور داخلی تمام طرح کے عوامل پائے تو جاتے تھے لیکن مفلوج حالت میں تھے۔ اس لیے اس معاشرے میں نیکیاں غالب رہتی تھیں اور برائیاں مغلوب۔ بلکہ ایک خود کار سسٹم کے تحت برائیاں ختم ہوتی جاتی تھیں اور نیکیوں کو پھلنے پھولنے کے لیے پورے کا پورا ماحول ساز گار بھی تھا اور مواقع بھی دستیاب تھے۔
اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک راستہ ٹیڑھا میڑھا اور اوبڑ کھابڑ ہو اور دوسرا راستہ سیدھا اور صاف ستھرا ہو۔ ظاہر ہے ایک پر چلنے میں دشواری ہوگی اور دوسرے پر چلنے میں آسانی۔ ایک پر چلنے میں حادثات زیادہ ہوں گے اور منزل تک پہنچنے میں دیر لگے گی جب کہ دوسرے پر چلنے میں حادثات کم ہوں گے اور آدمی وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔
ایسے ہی معاشرے کا حال بھی ہے۔ جو لوگ اچھے اور نیک سیرت لوگوں کے معاشرے میں رہیں گے اور تعلیم وتربیت پائیں گے ان کے لیے خارج میں بھی بہت سے ایسے محرکات اور داعیات موجود ہوں گے جو انہیں نیکی کی طرف لے جانے میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے اور جو لوگ علم وتعقل کے اعتبار سے پست معاشرے میں رہیں گے اور غلط لوگوں کی صحبت انہیں میسر ہوگی انہیں خارج میں ایسے محرکات سے سابقہ پڑے گا جو انہیں برائی کی طرف راغب کریں گے۔ جب کہ داخل میں انسان کے اندر خیر وشر دونوں طرح کے فطری داعیات موجود ہیں۔ ایسے میں خارج سے یعنی معاشرے سے انہیں جس طرح کی ترغیبات ملیں گی ان کی داخلی داعیات انہی ترغیبات کو قبول کرتی چلی جائیں گی اور انہیں احساس بھی نہیں ہوگا۔
ہم نے مدارس میں دیکھا ہے کہ وہاں پر تنظیم اوقات کا جو سسٹم ہے وہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس میں رہ کر عبادات بر وقت ادا کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ سے وابستہ تمام افراد کے اوقات اس طرح طے کیے گئے ہیں کہ وہ تقریباً پانچوں نمازوں کی ادائیگی کے لیے بالکل فارغ رہتے ہیں۔ اور یہ سسٹم نماز کی ادائیگی کی میں ان کی مدد کرتا ہے۔جب کہ مدارس کے باہر کا سسٹم ایسا نہیں ہے۔ آدمی آفس میں ہے، بازار میں ہے، دکان پر ہے تو اس کے لیے وہاں کا سسٹم نمازوں کی ادائیگی کے لیے معاون نہیں ہوتا۔ اس سسٹم میں ایک نمازی آدمی اپنے کام کو ادھر ادھر کر کے نماز پڑھتا ہے یا پھر نماز کو ہی مؤخر کر دیتا ہے۔ وہ اپنی ذاتی کوشش اور اہتمام سے جو کچھ کر لے سو کر لے مگر یہ سسٹم اس کی کچھ بھی مدد نہیں کرتا، بلکہ الٹا فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ ہی بنتا ہے۔ آدمی آفس میں ہے، اسکول میں ہے یا کھیل کے میدان میں ہے اور نماز کا وقت آ پہنچا ہے لیکن وہ اپنے حساب سے اپنے اوقات کی تنظیم نہیں کر سکتا۔ اس طرح یہ چیز بھی اسے نماز سے غفلت اور سہولت پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔ کہنے کو اصل چیز ایمان وعقیدہ، عزم وارادہ اور پھر مزاج اور عادت ہے مگر خارج کی چیزیں ان سب پر کسی نہ کسی درجے میں اثر انداز ضرور ہوتی ہیں۔
خیر آفس اور اسکول وغیرہ کے نظام الاوقات تو بدلے نہیں جا سکتے مگر اپنے گھروں کے نظام الاقات تو اپنے حساب سے مقرر کیے جا سکتے ہیں۔ آج اگر ہم اس حوالے سے اپنے معاشروں کا جائزہ لے کر دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہم مسلمان کس طرح کے نظام الاوقات کے پابند ہیں، خاص کر ہمارے نوجوانوں کی چوبیس گھنٹوں کی سرگرمیاں کس قسم کی ہیں۔اسی طرح ہماری مارکیٹ کا جو سسٹم ہے وہ سارا کا سارا کمیشن اور سود پر کھڑا ہوا ہے اور کوئی آدمی چاہ کر بھی اس سے نہیں بچ سکتا۔ سسٹم خود بخود اس کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور ایک شریف انسان بھی خواہی نخواہی سود اور کمیشن کے کاروبار میں مبتلا ہو جائے گا اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو مارکیٹ اسے قبول نہیں کرے گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی مارکیٹ ریٹ سے کم میں سودا کرتا ہے تو مارکیٹ کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ مارکیٹ خراب کر رہا ہے۔اسی طرح معاشروں کی مثال ہے۔ بعض معاشرے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ آدمی کو نیک کاموں کے لیے خارج سے مدد کرتے ہیں اور آدمی تھوڑی سی محنت اور شوق کی بنیاد پر ان کاموں کی طرف از خود بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جب کہ بعض دوسرے معاشرے اسے برائی کی طرف بہا اور اُڑا لیے جاتے ہیں۔ بعض اعتبارات سے معاشروں کی مثال ہوا اور پانی کی سی بھی ہے۔ اگر ہوا اور پانی کا بہاؤ مصاف زندگی کی کارگزاریوں پر ڈٹے ہوئے آدمی کے موافق ہو تو اس کو آگے بڑھنے میں آسانی ہوگی لیکن اگر مخالف ہو تو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جو خاندان جس طرح کے کاروبار سے وابستہ ہوتے ہیں، ان کے بچے بھی اسی کاروبار میں جلد آگے بڑھ جاتے ہیں، کیوں کہ خاندانی سسٹم، تجربات، تعلقات اور پہلے سے بنی ہوئی بنیاد ان کی مدد کرتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض علمی خانوادوں کے بچے قلیل مدت میں ہی تعلیمی میدان میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کر لیتے ہیں جب کہ غیر علمی خاندانوں کے بچے تعلیمی میدان میں آسانی سے آگے نہیں بڑھ پاتے کیوں کہ نہ انہیں خاندان کی علمی پیش رفت اور عادات و روایات کی مدد ملتی ہے اور نہ ہی ایسے خاندانوں میں کوئی ان کی رہنمائی کرنے والا ہوتا ہے۔ تعلیم یافتہ والدین تعلیمی میدان میں اپنے بچوں کی جتنی اور جیسی رہنمائی کر سکتے ہیں غیر تعلیم یافتہ والدین اپنے بچوں کی ویسی رہنمائی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ایک ذمہ دار، منظم، مربوط اور ترقی یافتہ معاشرہ اپنے نواجوانوں کے جتنی اور جیسی مدد کر سکتا ہے ایک غیر ترقی یافتہ اور منتشر و پراگندہ خیال معاشرہ اپنے نوجوانوں کی ویسی مدد نہیں کر سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محلّوں کی سطح پر اپنے اپنے معاشروں کی تنظیم اور تدبیر کرنے کی فکر کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔ محلے کے ذمہ دار افراد کو اپنے محلے کے ہر آدمی اور ہر نوجوان کے مسائل، ضروریات اور قابلیت وخصوصیات کا علم ہونا چاہیے تاکہ بوقت ضرورت ان میں سے کسی سے مدد بھی لی جا سکے اور کسی کی مدد کی بھی جا سکے۔ محلے کے بعض بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں تو اس کی کیا وجوہات ہیں، بعض نوجوان نشے اور جرائم کے عادی ہو رہے ہیں تو اس کے کیا اسباب ہیں اور بعض نوجوان کاروبار نہیں کر پا رہے ہیں یا ان کی شادی بیاہ کے معاملات میں رکاوٹیں حائل ہو رہی ہیں تو وہ کیا ہیں۔ اس طرح ہر محلے کے ذمہ دار افراد کو ان سب باتوں کا علم ہونا چاہیے تبھی یہ ممکن ہوسکے گا کہ وہ اپنے محلوں اور معاشروں کی صحیح تنظیم کر پائیں گے اور انہیں ترقی یافتہ بنانے میں تھوڑا بہت اپنا سا حصہ بھی ڈال سکیں گے۔
ہمیں اپنے معاشروں کی اس طرح تنظیم کرنی چاہیے کہ وہ خاص کر نوجوانوں کی اچھے اور نیکی کے کاموں میں خارج سے مدد کرنے والے ہوں۔ گھروں کے کام کاج، اسکولوں، دکانوں اور آفسوں کے کاموں کا نظم اس طرح کرنا چاہیے کہ ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی اور تعمیر کے کاموں میں آسانیاں فراہم ہو سکیں۔ ہمارا نظام الاوقات ایسا ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے لیے دین ودنیا کی بھلائی کے کاموں میں ہماری مدد کر سکے یا کم از کم اتنا تو ہو کہ وہ کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہ کرنے پائے۔
اسی لیے ترقی یافتہ معاشرے جلد ہی ترقی کی رفتار پکڑ لیتے ہیں اور پھر ترقی کرتے چلے جاتے ہیں جب کہ غیر ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں کو ترقی کی رفتار پکڑنے میں دیر لگتی ہے اور وہ تا دیر ترقی کی پہلی سیڑھی پر ہی کھڑے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ترقی مادی بھی ہوتی ہے اور روحانی بھی اور جو جس طرح کی ترقی پانے کے لیے کوشش کرتا ہے وہ اسی طرح کی ترقی حاصل کرتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ معاشرے میں یہ سہولت اور خصوصیت بقدر اتم موجود ہوتی ہے کہ اس کا ہر فرد ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ایسا کرنے میں عمر، مراتب اور حسب ونسب کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ یعنی کسی کو بھی سیکھنے میں عار محسوس نہیں ہوتی، اب چاہے وہ اپنے چھوٹے سے ہی کچھ سیکھ رہا ہو۔ سیکھنے اور سکھاتے کے دوران کبر و غرور یا شرمندگی جیسی کوئی صفت اس کے پاس نہیں پھٹکتی۔ اس معاشرے میں چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور بڑوں کی عزت کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ مسلم معاشروں میں مساجد کا کردار بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں کی مساجد سے لوگوں کو اور خاص کر نوجوانوں اور خواتین کو صرف نمازوں کے اوقات کی اطلاع اور نمازوں کی جماعت کی سہولتیں ہی میسر نہیں ہوتیں بلکہ انہیں وہاں سے وہ تمام چیزیں ملتی ہیں جو ان کی زندگی کو صحیح اسلامی خطوط پر ڈھال دیتی ہیں۔ انہیں یہاں سے صالح اور تعمیری فکر بھی ملتی ہے، قومی و ملی مسائل کو حل کرنے کی رہنمائی بھی ملتی ہے نیز، دنیاداری کے لحاظ سے آگے بڑھنے میں بھی ہر قسم کی مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ رہی کہ ابتدا ہی سے مساجد سے مکاتب وابستہ رہے۔ معلوم تاریخ کے وسط میں خاص کر مشرق وسطیٰ میں تو مساجد علوم وفنون کا گہوارا ہوا کرتی تھیں۔ ہماری آج کی مساجد صرف اور صرف عبادت گاہیں بن کر رہ گئی ہیں، تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ان کا کردار صفر کے درجے میں ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے لیے مکاتب قائم کر دیے جاتے ہیں اور بس۔ جب کہ مسجد نبوی تعلیم گاہ بھی تھی اور تربیت گاہ بھی۔
دورِ اول کے مسلم معاشروں میں اور موجودہ دور کے معاشروں میں بہت بڑے فرق کو ایک مثال سے سمجھیں۔ نبیﷺ کے معاشرے میں نکاح آسان تھا اور اس میں ایک سے زائد نکاح کرنا بھی کوئی معیوب نہیں بلکہ پسندیدہ بات تھی جب کہ آج پہلا نکاح ہی آسان نہیں رہا کُجا کہ دوسرا اور تیسرا،، بلکہ ہمارے معاشروں میں ایک سے زائد نکاح تو بالکل ہی معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ خود ہمارے معاشروں میں بے حیائی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ بے شمار عورتیں بغیر نکاح کے بیٹھی ہوئی ہیں یا پھر طلاق کے بعد ان کی دوسری شادی نہیں ہو رہی ہے۔ اب بھلا ایسے معاشروں میں برائیوں کے سوا اور کیا چیز پنپ سکتی ہے؟

اگر ہمارے معاشروں میں صرف تین چیزیں تعلیم، علاج معالجہ اور شادی بیاہ کے معاملات آسان اور کم خرچ والے ہو جائیں تو یہی خیرِ کثیر کا باعث بن جائیں گے۔ پھر غریب سے غریب آدمی بھی اپنے بچوں کو مفت میں یا کم سے کم پیسوں میں تعلیم دلا سکے گا۔ واجبی پیسوں میں اپنا اور اپنے بچوں کا علاج کروا سکے گا اور ان کی شادی بیاہ کے تعلق سے بڑی حد تک بے فکر ہو جائے گا۔ اگر کسی محلے میں صرف اتنا بھی ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ صرف پندرہ بیس سالوں میں ہی محلے کا نقشہ بدل جائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020