انوکھی عید – ہو کے افسردہ مری شومیٔ تقدیر نہ دیکھ

عید کی خوشیوں پر کورونا کا پہرا حالات کی ستم ظریفیوں کو اجاگرکرنےو الی ایک افسانوی تحریر

ڈاکٹر سلیم خان

شیخ فہیم الدین اور فہمیدہ بیگم اپنے آبائی وطن علی باغ میں فارغ البالی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا بڑا بیٹا وسیم ممبئی شہر میں رہتا تھا اور دوسرا نسیم دبئی میں ملازمت کرتا تھا۔ افسردہ نام کی بیٹی جدہ میں بیاہی گئی تھی اور چھوٹی رخشندہ کوکن کے گاوں تڑیل میں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ فہیم الدین شیخ نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ مسقط میں گزارنے کے بعد آشیانہ نامی دو منزلہ کوٹھی تعمیر کی تھی جس میں صرف دو نہایت خوش اور مطمئن نفوس رہتے تھے۔ اپنی زندگی کی یکسانیت کو دور کرنے کے لیے وہ کبھی اپنے بچوں سے ملنے چلے جاتے اور کبھی بچوں کو اپنے پاس بلا لیتے۔ نوکر چاکر وقت مقررہ پر آتے اور اپنا کام کرکے چلے جاتے اس طرح ہنستے کھیلتے سبکدوشی کی زندگی گزر رہی تھی۔
ایک دن صبح ناشتے کی میز پر شیخ صاحب نے اپنی بیگم سے کہا رات تم جلدی سو گئیں اس کے بعد دبئی سے نسیم الدین کا فون آیا تھا۔
اچھا خیریت تو ہے؟ کیا کہہ رہا تھا میرا لعل؟
وہی پرانی بات کہ اس بار آپ لوگ یہاں دبئی میں آ کر عید منائیں۔
اوہو سمجھ گئی ہماری بہو بیگم بہت تیز ہے جب ان کو نہیں آنا ہوتا ہے تو ہمیں بلا لیتے ہیں۔
ہاں تو اس میں غلط کیا ہے؟ بھئی ملاقات کی صرف دو ہی تو صورتیں ہیں یا تو انسان خود چلا جائے یا اپنے پاس بلا لے۔
فہمیدہ نے کہا وہ تو ٹھیک لیکن تین ماہ بعد مئی کے مہینے دبئی کون جائے گا؟ اس سے بہتر ہے انہیں کو بلا لو ممبئی وسیم بھی آ جائے گا۔
جی ہاں بچوں کی تعطیلات کے سبب تڑیل سے رخشندہ آہی جائے گی۔ میں تو کہتی ہوں جدہ سے افسردہ کو بھی بلوا لو۔
وہ نہیں آئے گی اس کا شوہر پولیس میں ہے اسے نہ تو عید الفطر کے موقع پر چھٹی ملتی ہے اور نہ عیدالاضحیٰ کے وقت۔ کام ہی ایسا ہے۔
ہاں تو وہ نہ آئے بس افسردہ کو بچوں کے ساتھ بھیج دے شوال میں جب چھٹی ملے تو آکر اپنے بچوں کو ساتھ لے جائے۔
یہ اچھی تجویز ہے اب تو ماننا پڑے گا کہ ہماری فہمیدہ کبھی کبھار سمجھداری کی باتیں بھی کرتی ہے۔
کبھی کبھار نہیں بلکہ میں ہمیشہ ہی سمجھداری کی بات کرتی ہوں لیکن شاذ ونادر ہی آپ کی سمجھ میں آتی ہے۔ وہ غالب نے کیا کہا ہے؟
فہیم الدین بولے ’یا رب وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات‘
آپ غالب کو تو خوب سمجھتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں میری سیدھی سادی بات آپ کے دماغ میں نہیں جاتی؟
دیکھو ایسا ہے کہ میں تو تمہاری تعریف کر رہا تھا لیکن تم افسردہ کو بھول کر افسردہ ہوگئیں۔
جی ہاں افسردہ ۰۰۰۰میں آج ہی اس سے فون پر بات کرتی ہوں۔ بہت سال ہوگئے ہمارا پورا کنبہ ایک ساتھ جمع نہیں ہوا۔
جی ہاں بیگم ہر سال کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی بہانے سے غائب ہو جاتا ہے کبھی بچوں کے امتحانات آن پڑتے ہیں تو کبھی اپنا وسیم الدین جہاز پر نکل جاتا ہے۔
میں تو کہتی ہوں آپ لوگوں کے پیر میں چکر ہے۔ وسیم جو قریب ہے ایک جگہ ٹکتا نہیں نسیم اتنی دور جا کر ٹک گیا ہے وقت ضرورت دِکھتا نہیں۔
جی ہاں بیگم خود اپنا معاملہ بھی ایسا ہی تھا کبھی تم بچوں کے پاس ہندوستان میں تو کبھی ہم دونوں بچوں سے دور مسقط میں ۰۰۰۰۰۰خیر اس بار ہم لوگ ایک ساتھ عید منائیں گے ان شاء اللہ ابھی تین ماہ کا وقت ہے ایسی منصوبہ بندی کریں گے کہ آخری وقت میں کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔
جی ہاں سب سے مشکل وسیم کو روکنا ہے لیکن اس بار اس کو پہلے سے راضی کرلوں گی لیکن ایک بات کہوں برا تو نہیں مانو گے؟
کہنے سے پہلے ہی اندیشہ لاحق ہے تو نہ کہو۔
فہمیدہ نے ہنس کر کہا ارے آپ تو پہلے ہی روٹھ گئے وہ کون سا نغمہ آپ ہمیشہ سنتے رہتے ہیں ’ہاں ہاں میں ہاری پیا‘۰۰۰۰
بس بس اب اپنی سناو زیادہ تجسس پیدا نہ کرو۔ فہیم نے بیزاری سے کہا
وہ ایسا ہے کہ ہم نے عید اپنے گاوں سے لے کر ممبئی اور دبئی سے مسقط تک کئی مقامات پر منائی لیکن کبھی یوروپ کی عید دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
بیگم میں سمجھ گیا وہی غالب والی بات ’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ‘۔
جی ہاں بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘ ویسے مجھے اس کا افسوس تو نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک خیال آیا تو کہہ دیا اس میں کیا غلط ہے؟
میں نے تو نہیں کہا کہ یہ غلط ہے لیکن اپنے کنبے قبیلے کو یہاں جمع کرتے کرتے اچانک تم یوروپ کے سفرپر نکل گئیں تعجب ہے۔
تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، جو من میں آئے سوچو اس میں کوئی خرچ تھوڑی ہوتا ہے۔
اس احمقانہ منطق پر شیخ فہیم کو ہنسی آگئی انہوں نے کہا بیگم تمہاری اس بات پر یہ شعر یاد آگیا:
منزلیں اور بھی ہیں وہم وگماں سے آگے
جب تخیل کی ہو پرواز بیاں سے آگے
فہمیدہ بولی وہ تو اچھا ہوا جو مجھ سے شادی ہوگئی ورنہ آپ اچھے خاصے شاعر ہو جاتے۔
ہو جاتا تو ہو جاتا اس میں تمہارا کیا نقصان تھا؟
نقصان کیوں نہیں تھا میں آپ سے بھول کر بھی شادی نہیں کرتی اور بڑے خسارے میں رہتی۔ خیر یوروپ والی تجویز میں خرابی کیا ہے؟
خرابی تو کوئی نہیں خوبی ہی خوبی ہے۔ کل ہمارے دوست شہباز خان کہہ رہے تھے کہ ان کے بیٹے کی شادی میں برمنگھم چلو لیکن میں نے انکار کر دیا۔
اچھا! انکار کردیا ؟ کیوں کیا آپ نے ایسا؟ کم ازکم مجھ سے ایک بار مشورہ کر لیتے لیکن آپ نے مجھے اس قابل سمجھا ہی کب ہے؟
مجھے پتہ تھا کہ اول تو تم خود چلنے سے انکار کر دوگی اور مجھے بھی تنہا جانے نہیں دو گی اس لیے رسوائی سے بچنے کے لیے معذرت کرلینے میں ہی بھلائی سمجھا۔
آپ کی دوسری بات تو درست ہے کہ اس عمر میں آپ کو تنہا سفر کی اجازت نہیں دے سکتی لیکن آپ کا یہ اندازہ غلط ہے کہ میں ساتھ نہیں چلوں گی؟
میں نے سوچا جب تم نے رخشندہ کی نند کی شادی میں شرکت کے لیے بنگلورو جانے سے انکار کر دیا تو اتنی دور برمنگھم کیسے جاوگی؟
اوہو! کہاں بنگلورو اور کہاں برمنگھم ؟ ان دونوں کا کیا موازنہ؟ بنگلورو تو میں کئی بار جا چکی ہوں لیکن برمنگھم کی بات ہی اور ہے۔
اچھا تو کیا تم اتنا طویل سفر کرنے کے لیے راضی ہوجاتیں؟
کیوں نہیں؟ آپ نے جلد بازی کی اگر مجھ سے پوچھ لیتے تو میں فوراً تیار ہو جاتی۔
خیر چھوڑو اب تو تیر نکل گیا۔ اگلی بار دبئی جائیں گے تو واپس ہوتے ہوئے برطانیہ جا کر آئیں گے۔
اکیلے پردیس میں کہاں جائیں گے اور کیا مزہ آئے گا؟
اکیلے نہیں ہم دونوں ساتھ جائیں گے۔ جیسے سیاح جاتے ہیں ویسے کسی ہوٹل میں ٹھہریں گے اور سیر وتفریح کرکے لوٹ آئیں گے۔
جی نہیں مجھ کو اس میں مزہ نہیں آتا۔ ہم لوگ اس طرح لبنان اور سنگاپور جا چکے ہیں اجنبی لوگوں کے درمیان قدرتی مناظر دیکھ کر واپس آگئے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہاں کے لوگ کیسے رہتے ہیں؟ یہ شادی والی بات بہت اچھی تھی لوگوں سے ملنے جلنے اور رسوم ورواج میں شرکت کا اپنا لطف ہے۔
جی ہاں مجھے خواتین کے اس پسندیدہ مشغلے کا علم ہے وہ بھی اپنی بیگم کے اصرار پر اپنے بیٹے کی شادی پردیس میں کرر ہے ہیں۔
شہناز باجی کا اصرار؟ میں نہیں سمجھی۔ ان کے شہزور نے کوئی انگریز لڑکی پسند کرنے کے بعد اپنی ماں کو سمجھا لیا ہوگا سنگ دل باپ کہاں سمجھتے ہیں؟
نہیں ایسا نہیں ہے شہزور فی الحال لندن میں اکاونٹنٹ ہے اور شہناز کی بھانجی برمنگھم میں ڈاکٹر ہے۔ دونوں بہنوں نے اپنے بچوں کا رشتہ طے کرلیا۔
یعنی لڑکا ہندوستانی اور لڑکی پاکستانی؟ تب تو اس شادی میں بہت مزہ آئے گا۔
بیگم وہ لوگ فی الحال نہ ہندوستانی ہیں نہ پاکستانی شہناز کی بہن کب کی برطانوی شہریت لے چکی ہے اور شہزور کو بھی برٹش پاسپورٹ مل گیا ہے۔
تب تو ٹھیک ہے اب سفر کی تیاری کریں۔ میں شہناز کو مبارکباد دینے جاوں گی تو وہ لازماً شرکت کے لیے اصرار کریں گی اور میں حامی بھر لوں گی۔
لیکن تم تو برطانیہ میں عید منانے کی بات کررہی تھیں اب شادی میں شرکت کے لیے تیار ہوگئیں یہ کیا ماجرہ ہے؟
بھئی عید ہو یا شادی دونوں ہی خوشی کے مواقع ہیں۔ لوگوں سے ملنا جلنا، کھانا پینا اور گھومنا پھرنا یہی سب ہوتا ہے۔
فہیم اور فہمیدہ نے شہباز خان کے منع کرنے کے باوجود اپنے ٹکٹ کا انتظم خود کیا اور شادی کے چار دن قبل برمنگھم پہنچ گئے لیکن ایک ماہ بعد جب واپسی کی تیاری کر رہے تھے تو کورونا وائرس کی وباء پھیل گئی اور برطانیہ اور ہندوستان میں ایک ساتھ لاک ڈاون کا اعلان ہوگیا۔ ہوائی اڈے بند کردیے گئے اور ساری پروازیں منسوخ ہوگئیں لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ لاک ڈاون سے قبل نسیم اپنے اہل وعیال کے ساتھ علی باغ پہنچ چکا تھا جہاں افسردہ چار دن قبل جدہ سے لوٹ کر بچوں کے ساتھ اس کا اور اپنے والدین کا انتظار کر رہی تھی۔ ایک ہفتہ ساتھ رہنے کے بعد نسیم اپنی بیوی کو میکے چھوڑنے کے لیے شولا پور جا کر وہیں کا ہو رہا۔ لاک ڈاون نے ہر کسی کو مقید کر دیا تھا۔ ماہِ رمضان دھیرے سے گزر رہا تھا۔ فہمیدہ کو اس کا بے حد افسوس تھا کہ اس کے پوتے نواسے ہندوستان میں ہیں اور وہ دیارِ غیر میں پھنسی ہوئی ہے۔ وقت کے ساتھ اس کی بیزاری میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے فہیم شیخ سے پوچھا آخر کب تک ہم یہاں پھنسے رہیں گے؟ رمضان کا ایک عشرہ گزر چکا ہے یہ برطانیہ کے طویل روزے اور واپسی کا لمبا انتظار میں تو تھک گئی ہوں۔
فہیم بولے بیگم یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ میں نے تو منع کر دیا تھا لیکن تم کو بڑا اشتیاق تھا اب اپنے کیے کی سزا بھگتو۔
میں مانتی ہو کہ سارا قصور میرا ہے لیکن اب طعنے تشنے سے کیا حاصل؟ اب بہت ہوگیا مجھے یہاں نہیں رہنا۔
دیکھو بیگم باہر کورونا ہے اور اگر اس کا ڈر نہ بھی ہو تب بھی سواریاں بند ہیں ہم اپنے ملک کے مزدوروں کی طرح پیدل تو نہیں جا سکتے۔
تو کیا ہماری حالت ان سے بھی دگر گوں ہے؟
جی ہاں بیگم اب تو ہماری حالت پر تو غالب کا یہ شعر صادق آ رہا ہے:
کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
اب یہ شعر شاعری چھوڑ کر لوٹنے کی فکر کرو سنا ہے ہوائی جہاز شروع ہونے والا ہے۔ کوئی ایسا چکر چلاو کہ عید سے پہلے پہنچ جائیں مزہ آجائے گا۔
اچھا اگر ایسا ہے تو شہباز کے بہنوئی کی سفارش لگواتے ہیں وہ بڑا بارسوخ آدمی ہے۔ارکان پارلیمان سے بھی اس کے تعلقات ہیں۔
یہ کوشش کامیاب رہی اور ۱۵ رمضان کو چلنے والی ائیر انڈیا کی دوسری ہی فلائیٹ میں فہیم اور فہمیدہ کی نشست مختص ہوگئی شہباز اور شہناز کے ساتھ بیٹا شہزور اور بہو نازنین نے بہت سارے تحفہ تحائف کے ساتھ انہیں لندن ہوائی اڈے پر الوداع کہا۔ فہمیدہ بہت خوش تھی اس کو یقین تھا کہ ممبئی ائیر پورٹ پر نسیم اور وسیم اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان کا استقبال کریں گے۔ لاک ڈاون سے پہلے ہندوستان پہنچنے والی افسردہ اپنی بہن رخشندہ کے ساتھ علی باغ میں ان کی منتظر ہوگی۔ اس بار پورا خاندان ایک ساتھ عید منائے گا اور ایسا نہ جانے کتنے سالوں کے بعد ہوگا۔
ان حسین خوابوں کے ساتھ فہیم اور فہمیدہ ممبئی پہنچے تو انہیں ایک کے بعد ایک صدمہ کے جھٹکے لگنے لگے۔ سب سے پہلے تو مختلف قسم کے فارم بھروائے گئے اس کے بعد ایک نرس نے ان کے اندر کورونا وائرس کی علامات تلاش کیں اور پھر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے سامنے پیش کر دیا۔
ڈاکٹر سے پہلے فہیم نے بگڑ کر پوچھا ڈاکٹر صاحب ہم لوگ اس عمر میں پچھلے تین گھنٹے سے ممبئی ہوائی اڈے پر پھنسے ہوئے ہیں اس سے قبل ۸ گھنٹے کا ہوائی سفر اور دو گھنٹے لندن ائیر پورٹ پر گزار چکے ہیں۔ اس طرح تیرہ گھنتوں تک مسلسل بیٹھے بیٹھے ہماری کمر ٹوٹ رہی ہے ہماری رہائی کا کچھ کیجیے۔
ڈاکٹر نے کہا ہم اس کے لیے معذرت چاہتے ہیں لیکن یہ احتیاط آپ کے اپنے اور اہل خانہ کے لیے ضروری ہے۔
میں سمجھتا ہوں لندن میں جانچ کے بعد ہی ہمیں ہوائی جہاز میں سوار ہونے کی اجازت دی گئی ہمارے اندر کوئی علامات موجود نہیں ہیں۔
آپ کی بات درست ہے لیکن ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے ہم نہیں چاہتے کہ آپ کسی طرح کی مشکل میں پھنسیں۔
فہمیدہ بیچ میں بول پڑی ڈاکٹر صاحب آپ کس مصیبت سے ہمیں ڈرا رہے ہیں ہم تو پہلے ہی مشکل میں گرفتار ہیں اس ہوائی اڈے پر آدھے سے زیادہ عملہ کے پاس ماسک اور دستانے تک نہیں ہیں۔
ابھی کل ہی ہوائی اڈہ کھلا ہے پی پی ای کا انتظام ہو رہا ہے۔
یہ کیا بات ہوئی فہمیدہ بولی پہلے انتظام کیا جاتا ہے یا کام شروع کیا جاتا ہے مجھے تو اندیشہ ہے کہ ہم یہاں سے کورونا وائرس لے کر جائیں گے۔
ڈاکٹر بولا لیکن آپ جا کہاں رہے ہیں؟ ابھی آپ کو 14 دنوں کے ادارہ جاتی قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔
فہیم نے چونک کر پوچھا کیا؟ 14 دن قرنطینہ میں؟ ہم نے کون سا جرم کیا ہے؟ یہ تو ہمیں بتایا بھی نہیں گیا ورنہ ہم واپس ہی نہ آتے؟
یہ شرائط آپ کے بورڈنگ پاس میں لکھی ہیں آپ اگر اس کو پڑھنے کی زحمت نہ کریں تو یہ ہمارا قصور نہیں ہے ڈاکٹر نے درشتی سے کہا۔
فہمیدہ ڈر گئی۔ وہ بولی لیکن ہم نے تو ٹیلی ویژن پر قرنطینہ کی بہت بھیانک تصاویر دیکھی ہیں ہم لوگ تو وہاں کورونا کے بغیر ہی مرجائیں گے۔
ڈاکٹر ایک کاغذ کا پرزہ تھما کر بولا آپ فکر نہ کریں آپ لوگوں کو فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھا جائے گا اس میں سے جس ہوٹل کا چاہیں انتخاب کر لیں۔
فہیم نے مختلف ہوٹلوں کی سہولتوں کے ساتھ اس کے نیچے لکھا نرخ بھی دیکھا تو استفسار کیا ڈاکٹر صاحب یہ چار سے آٹھ ہزار روپے تک یومیہ کیا ہے؟
یہ کرایہ ہے جس میں کھانا پینا شامل ہے۔
لیکن یہ کیا بیس لاکھ کروڈ کے پیکیج سے ادا کیا جائے گا؟
ڈاکٹر ہنس کر بولا جی نہیں یہ تو آپ کو اپنی جیب سے ادا کرنا ہوگا فائدہ آپ اٹھائیں اور خرچ سرکار اٹھائے یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
لیکن ڈاکٹر صاحب 14دن کا کرایہ تو ٹکٹ سے بھی زیادہ ہو جائے گا ہم وہاں کیوں رہیں؟ ہمیں اپنے گھر جانے میں ساری سہولت موجود ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ قانون ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ ہوٹل جائیں گے یا پھر تصویریں تو آپ لوگ دیکھ ہی چکے ہیں۔
فہمیدہ بولی ہمیں واپس بھیج دیجیے ہم وہاں نہیں جا سکتے۔
ڈاکٹر بولا آپ کا ویزہ ختم ہو چکا واپس جانے اور لوٹ کر آنے پر جو خرچ ہوگا وہ ہوٹل والے کو دے دیجیے اور آرام فرمائیے۔ مسئلہ کیا ہے؟
فہمیدہ نے پاس کھڑی ہوئی نرس کے کانوں میں سرگوشی کی یہ ڈاکٹر ہے یا ہوٹل کا ایجنٹ؟
نرس بولی یہ نہ ڈاکٹر اور نہ ایجنٹ یہ تو پولیس افسر ہے جو بیک وقت اسپتال اور ہوٹل دونوں کے لیے کام کرتا ہے۔
یہ سن کر فہمیدہ سمجھ گئی کہ انہیں 14 دن کے ریمانڈ یعنی پولیس حراست میں بھیجا جا رہا ہے۔
ہوائی اڈے کے باہر موجود نسیم اور وسیم کو اس ضابطے کی اطلاع دے دی گئی ان لوگوں نے پیشگی رقم جمع کر ادی۔ ایک بس میں دیگر مسافروں کے ساتھ فہیم اور فہمیدہ کو سرکاری ہوٹل سہارا پہنچا دیا گیا لیکن بچوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ہوٹل کے اندر ۱۳ دن گزارنے کے بعد اداس فہمیدہ نے فہیم سے کہا ہم لوگوں کو تو بنا کسی جرم کے قید وبند کا شکار ہونا پڑا۔
فہیم ہنس کر بولے بیگم دنیا میں کہیں فائیو اسٹار جیل بھی ہوتی ہے۔
وہ تو نہیں ہوتی لیکن کیا جیل میں کسی قیدی کو کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو کورونا کے نام پر لوٹ مار ہے۔
فہیم نے کہا تم ٹھیک کہتی ہو بیگم جیل ہو یا ہوٹل اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا علامہ سیماب اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے:
فقط احساسِ آزادی سے آزادی عبارت ہے
وہی دیوار گھر کی ہے وہی دیوار زنداں کی
وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر آج چاند ہوگیا تو کل عید ہو جائے گی؟
نہیں بیگم آج چاند نہیں ہوگا کل ہم یہاں سے رہا ہوں گے اور اس کے بعد ہی چاند نظر آئے گا۔
یہ آپ اتنے وثوق کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں؟
دیکھو بیگم اگر ایسا نہ ہونا تھا تو نسیم اور افسردہ اپنے بچوں کے ساتھ ہندوستان نہ آتے وسیم ہمیشہ کی طرح کسی بیرونِ ملک سفر پر جاچکا ہوتا رخشندہ بچوں کے امتحانات کے سبب عید کے موقع پر ہمیں اپنے پاس بلا لیتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اتنے سارے لوگ ہمارا انتظار کر رہے ہیں تو کیا چاند اتنا نہیں کر سکتا کہ آج کے بجائے کل نکلے؟ اطمینان رکھو آج چاند نہیں ہوگا اس سال رمضان کے تیس روزے ہوں گے کل ہم یہاں سے نکلیں گے اور پرسوں ایک ساتھ عید منائیں گے۔ فہمیدہ حیران تھی کہ فہیم الدین شیخ اس قدر اعتماد کے ساتھ یہ سب کیسے کہہ رہے ہیں؟ لیکن اس کا دل کہہ رہا تھا :
خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہو جاتے ہیں
شکوۂ کاتبِ تقدیر بھی ہو جاتے ہیں