امریکہ میں سیاہ فام عورتوں کی حالت زار

آزادی نسواں کی زمینی حقیقت

تحریر: فاطمہ عبدالرؤوف (مجلۃ المجتمع، کویت)
ترجمہ:احمد ‎عظیم ندوی

 

امریکہ میں صنفِ نازک کی مشکلات اب صرف کمپنیوں میں ان کو ہراساں کرنے اور کم اجرت پر زیادہ کام لینے کی حد تک محدود نہیں رہیں، کیوں کہ ’’فلسفہ عملیت پسندی‘‘ نے ایک ایسے معاشرے اور تہذیب وثقافت کی بِنا رکھی ہے جس میں عورتوں کے بہت سے بنیادی اور فطری حقوق کا خون کیا جا رہا ہے، جب کہ امریکی قوانین ومعاہدے کی رُو سے عورت ومرد ’’مساوات‘‘ کے مستحق ہیں لیکن ’یہ نمائش سراب کی سی ہے‘۔
امریکہ میں ’’حقوق نسواں‘‘ کی زمینی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ: "عورتیں گندے جانور، خنزیر اور کوڑے کرکٹ کی مثل ہیں” نیز انہوں نے عورتوں کے ایام ماہواری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی بازاری اور سطحی الفاظ کا استعمال کیا اور مردوں کو اس بات پر ابھارا کہ وہ عورتوں کے ساتھ حقارت وبدسلوکی کا معاملہ کریں۔ ایک دوسرے موقع پر انہوں نے عورتوں کے سلسلہ میں کہا کہ: ’’یہ بات اہم نہیں ہے کہ قانون نے عورتوں کو کیا حقوق دیے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ خوب رو اور حسن وجمال کی پیکر ہیں یا نہیں؟‘‘ (یعنی اگر قدرت نے کسی عورت کو حسن وجمال عطا کیا ہے تو مرد اسے اپنی ہوس کا شکار بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے نیز، اس سلسلہ میں ’’حقوق نسواں‘‘ کے عالمی قوانین ومعاہدے کو بھی خاطر میں لانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے)۔
امریکی معاشرے میں تنہا ٹرمپ اس سوچ کے حامل نہیں ہیں بلکہ ان کو ووٹ دینے والے اکثر مرد اس سطحی فکر ونظر میں ان کے شریک وسہیم ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کھلے عام اس کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔
یہ ہے امریکی مردوں کی نگاہ میں عورتوں کی اصل قدر وقیمت۔ یعنی یہ لوگ جو ’’آزادی نسواں‘‘ اور ’’حقوق نسواں‘‘ کے عنوان سے پوری دنیا میں شور مچاتے پھرتے ہیں ان کا باطن اس کے بالکل بر عکس ہے۔
تمہیں جوشؔ ہم خوب پہچانتے ہیں، تمہاری بلا نوشیاں جانتے ہیں
کہاں تم کہاں پارسائی کا جامہ کبھی ہم نے ایسا دکھاوا نہ دیکھا
پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے:
اب معاملہ عورتوں کے تئیں سطحی فکر ونظر اور بد کلامی سے تجاوز کر چکا ہے، چنانچہ رپورٹس کے مطابق ہر پانچ میں سے چار امریکی عورتوں کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے اور ہر سال تقریبا 5 ملین عورتیں اپنے شوہروں کے ہاتھوں مار پیٹ اور بے جا ظلم وزیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس ظلم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
اگر آپ عورت ہونے کے ساتھ سیاہ فام بھی ہیں تو آپ کو امریکہ میں جنسی تفاوت اور نسل پسندی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر آپ عورت ہیں، آپ کا رنگ کالا ہے اور مذہب اسلام ہے تو پھر آپ کو رنگ، نسل اور جنسی تفاوت کے ساتھ ساتھ اسلامو فوبیا کی وجہ سے دو نظری اور بے جا پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ایک کالے رنگ کی مسلم عورت کے لیے اپنی تمام صلاحیت وقابلیت کے باوجود نسل پسندی اور اسلامو فوبیا کی وجہ سے امریکی کانگریس کی رکنیت حاصل کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کا بیّن ثبوت امریکی کانگریس کی رکن الہان عمر ہے جو ایک مسلمان اور سیاہ فام عورت ہیں ان کو ایک گورے شخص نے یہ دھمکی دی ہوئی ہے کہ "میں گولیوں سے تمہاری کھوپڑی اڑادوں گا، تم مسلمان ہو، تم دہشت گرد ہو، تمہاری ہمت کیسے ہوئی امریکی کانگریس کی رکنیت حاصل کرنے کی؟”
سیاہ فام ہونا گناہ ہے؟
الہان عمر کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ میں ایک عام سیاہ فام عورت اور اس کے خاندان کو کن مشکلات کا سامنا ہے جب کہ وہاں سیاہ فام لوگوں کی تعداد 40 ملین ہے، یعنی کل امریکی آبادی کا 13 فیصد۔ جن میں 25 فیصد سے زیادہ لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں نیز کورونا کی وبا کے دوران بڑی تعداد کو شدید معاشی تنگی کا بھی سامنا ہے اور تقریبا 75 فیصد لوگ کسی بھی طرح کی مادی امداد سے محروم ہیں۔ نتیجتاً 12 ملین سیاہ فام امریکی بچوں کو بنیادی طبی وتعلیمی خدمات تک حاصل نہیں ہیں۔ اور آپ کو جان کے حیرت ہوگی کہ امریکی قیدیوں میں40 فیصد تعداد سیاہ فام لوگوں کی ہے۔
امریکہ میں بہت سے خاندان ایسے ہیں جن کو سر چھپانے کے لیے چھت تک میسر نہیں ہے۔ نصف ملین سے زیادہ لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جن میں چالیس فیصد عورتیں ہیں اور وہ ایسی مشکلات سے دو چار ہیں جو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیں گی یا وہ ان مشکلات سے تنگ آ کر اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گی۔ اس باب میں سیاہ فام عورتوں کے ساتھ پولیس کا رویہ انتہائی افسوس ناک اور ظلم وبربریت پر مبنی ہے۔ ایک پچاس سالہ سیاہ فام عورت کو پولیس افسر نے کھلے عام وحشیانہ طریقہ سے اتنا مارا کہ یہ ضعیفہ مار کی تاب نہ لاکر زمین پر گر پڑی تو پولیس افسر اس کے اوپر چڑھ گیا اور اس کا سر پکڑ کر زمین پر مارنے لگا۔
یہ امریکی پولیس کے ظلم وبربریت کی ایک مثال ہے جس کا سامنا امریکہ میں رہنے والی سیاہ فام عورتوں کو کرنا پڑتا ہے اگرچہ وہ عمر رسیدہ ہی کیوں نہ ہوں یعنی:
ظلم بھی مجھ پہ کبھی سوچ سمجھ کر نہ ہوا
سیاہ فام خاندان کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان میں ایسے بچوں کی پرورش وپرداخت کا مسئلہ سب سے اہم ہے جو صرف اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے والد کا علم نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے مادی، نفسیاتی اور اجتماعی مشکلات پیدا ہو رہے ہیں۔ 18 سال سے کم عمر کے 75فیصد گورے بچوں کو والد، والدہ دونوں میسر ہیں اور وہ ایک فطری خاندانی نظام میں پروان چڑھ رہے ہیں، جب کہ 18سال سے کم عمر کے ایک تہائی سیاہ فام بچوں کی مائیں غیر شادی شدہ ہیں اور ان کی معاشی حالت بھی بہتر نہیں ہے نیز، صحت وثقافت اور معاشی میدان میں گوری عورتوں کو جو مراعات حاصل ہیں سیاہ فام عورتیں ان سے یکسر محروم ہیں۔
مشہور امریکی مصنفہ مارگریٹ کی کتاب ’’ذَھَبَ مَعَ رِیْحٍ‘‘
(Gone With The Wind) پر بنائی گئی فلم میں ایک کردار کا نام مامی ہے جس نے سیاہ فام موٹی عورت کا رول کیا ہے اور جب اسے بہترین اداکاری کی وجہ سے ’بیسٹ معاون اداکارہ آسکر ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تو گورے اداکاروں نے اس کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً اس کے لیے گورے اداکاروں سے تھوڑی دور دوسرا ٹیبل لگایا گیا۔ یہ فلم مغربی معاشرے میں موجود نسل پسندی کا ایک آئینہ ہے۔
سیاہ فام عورتوں کے تمام واقعات دل کو چھلنی کیے دیتے ہیں اور ’’جدید گائناکالوجی‘‘ کے مشہور زمانہ ڈاکٹر جیمز ماریون سمز کا یہ وحشیانہ فعل تو بھلائے نہیں بھولتا کہ انہوں نے جدید طریقہ سے عورتوں کا آپریشن کرنے کا تجربہ کرنے کے لیے کمزور اور بے یار ومدد گار سیاہ فام عورتوں کا انتخاب کیا اور احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر یعنی آپریشن سے قبل بیہوش کیے بغیر یا جلد کو سُن کیے بِنا ان پر جراحی کا تجربہ کیا۔ کیوں کہ ان کا یہ ماننا ہے کہ: ’’سیاہ فام عورتیں انسانوں کی جنس سے نہیں ہوتیں اس لیے ان کو کسی بھی طرح کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا‘‘
حیات آج بھی مجبور ہے حضر جبر میں:
ان حقائق کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ صرف قوانین ومعاہدوں کے دفتر سے سیاہ فام عورتوں کے حقوق کی بحالی ہرگز نہیں ہو سکتی کیوں کہ جب تک نسل پسندی اور ایسی تہذیب وثقافت کی مکمل بیخ کنی نہ کی جائے جن کی نظر میں انسانیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، آزادی نسواں اور حقوق نسواں کے نعروں کی حقیت سراب کی سی ہے۔

الہان عمر کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ میں ایک عام سیاہ فام عورت اور اس کے خاندان کو کن مشکلات کا سامنا ہے جب کہ وہاں سیاہ فام لوگوں کی تعداد 40 ملین ہے، یعنی کل امریکی آبادی کا 13 فیصد۔ جن میں 25 فیصد سے زیادہ لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں نیز کورونا کی وبا کے دوران بڑی تعداد کو شدید معاشی تنگی کا بھی سامنا ہے اور تقریبا 75 فیصد لوگ کسی بھی طرح کی مادی امداد سے محروم ہیں۔ نتیجتاً 12 ملین سیاہ فام امریکی بچوں کو بنیادی طبی وتعلیمی خدمات تک حاصل نہیں ہیں۔ اور آپ کو جان کے حیرت ہوگی کہ امریکی قیدیوں میں40 فیصد تعداد سیاہ فام لوگوں کی ہے۔